دنیا کی پہلی سپر ماڈل: ایویلن نیسبت

دنیا کی پہلی سپر ماڈل: ایویلن نیسبت

خرم سہیل

پہلی مرتبہ کوئی کام سر انجام دینے والے لوگ آخری لمحے تک یاد رکھے جاتے ہیں، کیونکہ انہوں نے ایسا کام کر دکھایا ہوتا ہے جو ان سے پہلے کسی نے کرنے کی ہمت نہیں کی ہوتی۔ ایسے ہی لوگوں میں ایک نام ایویلن نیسبت کا ہے، جس کو شوبز کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، کیونکہ وہ دنیا کا پہلا حسین تشہیری چہرہ تھا۔ ماڈلنگ کی دنیا میں یہ اعزاز صرف اسی کے پاس رہے گا۔ اس کی شہرت اور حسن کے پیچھے زندگی کی کئی تلخ سچائیاں ہیں، جن کا تذکرہ کیے بغیر اس کی کہانی مکمل نہیں ہوسکتی۔

امریکا سے تعلق رکھنے والی یہ حسین عورت، اوردنیا کی پہلی شہرت یافتہ ماڈل ایویلین جب پیدا ہوئی، تو پڑوسیوں نے اس کو دیکھتے ہی کہا کہ یہ ایک حسین بچی ہے، یعنی اس کے حسن کی خاموشی نے پیدا ہوتے ہی دیکھنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ ایویلین کو بھی شاید اپنے حسین ہونے کا احساس بہت کم عمری میں ہو گیا تھا، کیونکہ وہ لاشعوری طورپر ہر اس سمت بڑھ رہی تھی، جس سے اس کے حسن کی زرخیزی میں اضافہ ہوسکے۔

— پینٹنگ جیمز کیرول بیک وتھ
— پینٹنگ جیمز کیرول بیک وتھ
— Creative Commons
— Creative Commons

موسیقی کی دھنیں اس کو اپنی طرف بلاتی تھیں۔ وہ کسی مترنم آواز کے ردھم میں خود پر قابونہیں رکھ پاتی، اور اس طرز کے ساتھ ساتھ جھومنے لگتی۔ رقص اس کو اپنے آپ سے بھی غافل کر دیا کرتا، یہی وجہ تھی کہ جب اس نے ہوش سنبھالا تو رقص کی تربیت حاصل کی، اور اس فن نے آگے چل کر اس کی زندگی میں کلیدی کردار ادا کیا۔

ایویلین اپنے والد سے بہت قریب تھی۔ بچپن میں انہوں نے اس کے لیے گھر کا ایک گوشہ کتابوں کے وقف کردیا، جس میں اس وقت کے ان تمام ادیبوں کی کتابیں موجود تھیں، جو بچوں کے لیے ادب تخلیق کیا کرتے تھے۔ گھر میں قائم اس کتب خانے میں رہ کر ایویلین کی ذات میں نکھار آگیا، وقت سے پہلے وہ باشعور ہوگئی اور اس کی تخلیقی فکر بھی اس سے مہمیز ہوئی۔

والد کی شفقت نے اسے جلد اپنے پاؤں پر کھڑا کردیا، اور وہ کم عمری میں ہی بہت تیزی سے اپنی ذات کی تکمیل کا سفر طے کرنے لگی۔ اس نے حروف کی معنویت کو پرکھا، رقص سیکھا، اپنی ذات میں رکھ رکھاؤ کو رچایا، اپنے خوابوں کی تعبیر کے تعاقب کے لیے پوری طرح تیار ہوگئی۔ دنیا کی پہلی حسین اور خوبرو خاتون بننے کا سفر شروع ہوچکا تھا۔

— Creative Commons
— Creative Commons

ایویلین کے والد کی رحلت نے اس خاندان کی کمر توڑ کررکھ دی۔ گھر سمیت سب کچھ بِک گیا۔ والدہ نے ہمت کی اور خاندان کی بقا کے لیے کمربستہ ہوگئیں۔ چھوٹے موٹے کام کر کے اپنے بچے پالنے شروع کیے۔ ایویلین کی زندگی کے یہ تلخ ایام تھے، جنہیں وہ کبھی فراموش نہ کر پائی۔

شاید یہی وہ اداسی ہے، جس کو قدرت نے اس کے حسن میں گھول دیا اور اس آمیزش سے حسن کی یہ دیوی دوآتشہ ہوگئی۔ اس کے ہاں غم اور حسن کے رنگ آپس میں مدغم دکھائی دیتے۔ ایویلین پہلی مرتبہ کسی آرٹسٹ کے سامنے بحیثیت ماڈل بیٹھی، تو 12سال کی تھی۔ پانچ گھنٹے بیٹھنے پر اس کو ایک ڈالر ملا اور مصور کی تصویر مکمل ہوئی، لیکن ایویلین کی زندگی کی اس تصویر کی ابتدا ہوئی تھی، جس کو زمانے نے دیکھنا تھا۔

ایویلین 25 دسمبر،1884 کو امریکی ریاست ”پنسویلینیا“ کے نواحی علاقے ”پیٹس برگ“ کے قریب ”ترینتم“ میں پیدا ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ والدہ نے اس کی عمر کم کر کے لکھوا دی تھی، تاکہ وہ گھرداری میں اپنا حصہ ڈال سکے اور کمسن بچوں کا کام کرنا خلاف قانون تھا، اس لیے والدہ کو یہ اقدام کرنا پڑا۔

1893 میں یہ خاندان حصول رزق کی خاطر آبائی علاقے سے ہجرت کرکے ”پیٹس برگ“ منتقل ہوگیا۔ والد کی اچانک موت نے ان کی زندگی کو آزمائش میں مبتلا کر دیا۔ اس وقت ایویلین صرف 11 برس کی تھی۔ معاشی صورتحال بہتر نہ ہونے پر یہ خاندان 1898 میں ”فلاڈیلفیا“ کوچ کرگیا۔ یہاں سے ایویلین نے اپنی ماڈلنگ کریئر کی ابتدا کی اور 1900 میں ایویلین اپنے خاندان کے ہمراہ ”نیویارک“ آپہنچی، جہاں کامیابیاں اس کی منتظر تھیں۔ یہاں اسے بڑے پیمانے پر کام ملا اور کئی معروف مصوروں کی ماڈل کے طور پر اس نے شہرت حاصل کرنا شروع کی۔ جس میں ابتدائی دنوں میں ایویلین کے محسن اور اپنے فن میں ماہر مصور ”جیمز“ اور ”جون“ اور دیگر بھی شامل تھے۔

— Creative Commons
— Creative Commons
— Creative Commons
— Creative Commons

ایویلین کی زندگی کا یہ وہ موڑتھا، جب شہرت کی دیوی اس پر پوری طرح مہربان ہوگئی۔ امریکا کے تمام بڑے مصور چاہتے تھے کہ وہ ان کی ماڈل بنے۔ تمام تشہیری ادارے اس کی خدمات حاصل کرنے کے لیے بے تاب تھے۔ ہرکاروباری شے پر اس کا نام یا چہرہ کامیابی کی ضمانت سمجھا جانے لگا۔ اس کی تصویر کے پوسٹ کارڈ اور کیلنڈرز تک چھاپے گئے، جن کو بے حد مقبولیت ملی۔ بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں امریکا میں جس طرف دیکھیں، وہاں ایویلین ہی تھی۔ فیشن کے تمام بڑے میگزینز، وینٹی فیئر، ہارپر بازار، دی ڈیلی نوٹور، لیڈیز ہوم جرنلز اور کاسموپولیٹین کے سرورق اس کی تصویروں سے آراستہ ہوتے تھے۔ فیشن فوٹوگرافی میں بھی اس کا نام کامیابی کا روشن ستارہ بن کر چمک رہا تھا۔

ایویلین نے اس کامیابی سے ایک قدم اور آگے جانے کا سوچا اور پھر کچھ بے باک فیصلے کیے۔ یہ بحیثیت ماڈل عریاں بھی ہوئی۔ مصوری سے آگے اداکاری کے شعبے میں قدم رکھا، تھیٹر اور فلموں میں کام کیا۔ موسیقی کے طائفوں میں بھی شامل رہی۔ کئی مردوں سے معاشقے کیے، جن میں سرفہرست سٹین فورڈ اور ہیری کینڈل تھو تھے۔

پہلے مرد نے اس کو معاشی سہارا دیا، اس کے فن کو نکھارا اور یہ اس کی مدد سے کامیابی کی سیڑھیاں چڑھی، حتیٰ کہ اس کے لیے ایک فلم بھی بنائی۔ اس کو ایویلین کا سچا عاشق کہہ سکتے ہیں۔ جبکہ اس کی زندگی میں آنے والا دوسرا مرد اس کا شوہر بنا اور پھر اس کی زندگی کے سب سے اہم شخص سٹین فورڈ کا قاتل بھی ثابت ہوا۔

اس قتل سے ایویلین کی زندگی الجھ کر رہ گئی اور اس کو بہت ہزیمت اٹھانا پڑی۔ ایویلین کے ہاں ایک اولاد ہوئی، جس کا نام ”رسل ولیم تھو“ تھا۔ اس بچے نے اپنی والدہ کے ساتھ کئی فلموں میں بھی کام کیا۔ آگے چل کر یہ بچہ فوجی پائلٹ بنا، اور دوسری جنگ عظیم میں متعدد اعزازات اپنے نام کرتے ہوئے امریکی دفاع میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ ایویلین کی ”تھو خاندان“ میں شادی کا دور ایسا ہی تھا، جیسے کوئی پرندہ سنہری پنجرے میں ہو۔ 1915 کو ایویلین اس پنجرے سے آزاد ہوگئی۔

ایویلین نے 1916 میں اپنے ساتھ کام کرنے والے رقاص ”جیک کیلی فورڈ“ سے شادی کرلی۔ یہ شادی بھی ناکام ہوئی۔ ایویلین کا یہ مشکل وقت تھا، لوگ اس کا ماضی بھول نہیں پائے تھے، بلکہ ایک وقت ایسا آگیا، جب لوگ اسے ”مہلک حسینہ“ کے نام سے پکارنے لگے۔ اس کے باوجود اس کی زندگی میں کامیابیاں جاری تھیں۔ ایویلین کی زندگی پر بننے والی پہلی فلم ”The girl in the red velvet swing“ تھی، جس کو 1914 میں فلمایا گیا۔

اس کے بعد اس نے درجن بھر فلموں اور تین تھیٹر ڈراموں میں کام کیا، سینکڑوں تصاویر کی ماڈل بنی، اور اشتہاروں میں بھی کام کیا۔ ایک معروف ناول نگار کے ناول ”Ragtime“ کی مرکزی کردار بھی بنی، جس پر آگے چل کر اسی نام سے فلم بھی بنی۔

— LIFE میگزین
— LIFE میگزین
— Creative Commons
— Creative Commons

ایویلین نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل دو کتابیں لکھیں۔ 1914 کو ”دی اسٹوری آف مائی لائف“ اور 1934 کو "پروڈیگال ڈیز" شائع ہوئیں۔ ایویلین نے اپنی زندگی کے آخری کئی سال بہت خاموشی سے نارتھ فیلڈ، نیو جرسی میں گزار دیے۔ 17 جنوری 1967 کو 82 برس کی عمر میں ایویلین کا انتقال ہوا اور کیلی فورنیا میں دفن کی گئی۔ دنیا کا پہلا حسین تشہیری چہرہ ہمیشہ کے لیے مٹی تلے چلا گیا۔

ایک صدی سے زیادہ وقت گزرگیا ہے لیکن اس چہرے کی کشش کم نہیں ہوئی۔ تشہیر کی دنیا کا یہ پہلا کامیاب نام اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ شوبز اور ماڈلنگ کی دنیائے تاریخ میں سنہری حروف میں چمک رہا ہے، جس سے نئے آنے والوں کی آنکھیں چندھیا رہی ہیں۔


بلاگر فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔