گمبٹ: جہاں تعلیم بھیک سے جیت گئی

گمبٹ: جہاں تعلیم بھیک سے جیت گئی

خلیل احمد کی زندگی کی کہانی کسی بولی وڈ فلم کی کہانی سے کم محسوس نہیں ہوتی، البتہ اس کی زندگی میں آنے والا بدلاؤ سچ ہے اور اس کی زندگی کو بہتری کی طرف لے کر جارہا ہے۔

گمبٹ کراچی سے 500 کلو میٹر کی دور ایک گاؤں ہے۔ احمد اس ہی گاؤں کا رہنے والا ہے اور اسے بہت سے لوگ جانتے ہوں گے اب اس 12 سالہ بچے کو پہچاننا تھوڑا مشکل ہوگا۔

پالش ہوئے کالے جوتے، صاف ستہرا اسکول یونیفارم، اور تیل لگے سلجھے بال۔ احمد اپنے اسکول کے ذہین بچوں میں سے ایک ہے، البتہ کچھ عرصے پہلے اپنی دادی کے ساتھ احمد آٹھ سال کی عمر میں سڑکوں پر بھیک مانگتا تھا۔

کبھی تو وہ بہرام رستم جی کیمپس کے باہر بھی لوگوں کے آگے اپنے ہاتھ پھیلاتا تھا اور آج وہ اس ہی اسکول میں پڑھ رہا ہے۔

احمد اس وقت چوتھی جماعت کا طالب علم ہے، اس کی ٹیچر کے مطابق وہ اپنی جماعت کے قابل ترین بچوں میں سے ایک ہے۔ احمد کی جماعت میں 20 طلبہ ہیں جن میں سے 13 لڑکیاں ہیں۔

فوٹو بشکریہ مصطفی الیاس

خلیل احمد
خلیل احمد

اس علاقے میں زیادہ تر لوگ ایک دوسرے کے سامنے ہاتھ پھلاتے ہیں البتہ ایک ادارے نے احمد کو اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع دیا ہے۔

سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر سے 45 کلو میٹر دور اس گاؤں کے بچے اب لوگوں کے سامنے ہاتھ پھلانے کے بجائے کتابوں اور تعلیم کی طرف متوجہ ہورہے ہیں جس سے وہ اپنے مستقبل کو بہتر راہ کی طرف لے جاسکیں۔

روز بروز بڑھتی ہوئی جہالت

دی سٹیزن فاؤنڈیشن نامی اسکول 1995 میں قائم کیا گیا تھا جو کہ ایک غیر منافع بخش تنظیم کی طرف سے چلایا جارہا ہے۔ اس اسکول کو کچھ عام شہریوں نے مل کر بنایا تھا جو کہ پاکستان کی تعلیمی نظام سے نہایت مایوس تھے۔

اس وقت ٹی سی ایف کے تقریباً 1060 اسکول پورے ملک میں غریب بچوں کو تعلیم دینے میں مصروف ہیں۔

پاکستان کی ترقی میں رکاوٹ کا سب سے بڑا مسئلہ اس وقت غربت اور جہالت ہے۔

پاکستانی تعلیم کی 2015 کی جائزہ رپورٹ میں ایک اندازے کے مطابق 6.7 ملین بچے اسکولوں سے باہر ہیں، جن میں سے اکثریت (62 فیصد) لڑکیوں کی ہے، پرائمری اسکول کے بچوں میں 21.4 ملین بچے اسکول میں داخل ہوتے ہیں جن میں سے بانچویں جماعت تک صرف 66 فیصد بچے ہی تعلیم حاصل کرنے والوں میں رہ جاتے ہیں اور 33.2 فیصد بچے اپنی پرائمری تعلیم ختم کرنے سے پہلے ہی اسکول سے باہر ہوجاتے ہیں۔

کے مطابق 1.5 ملین بچے سڑکوں پر کام کرتے ہیں اور وہیں اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ SPARC

کلاس روم میں عدم مساوات سے نمٹنا

ٹی سی ایف اسکول نے بچوں کے گھرانوں کو اس بات کا آپشن دیا ہے کہ وہ جتنی فیس دے سکتے ہیں اتنی ہی دیں، کیوں کہ ان علاقوں کے گھرانے اسکولز کی مہنگی فیس نہیں بھر سکتے۔

ٹی سی ایف کی منیجر عائشہ کا کہنا تھا کہ ان کے اسکول کی کم سے کم فیس 10 روپے مہینہ ہے۔

احمد کا کہنا تھا کہ وہ تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے اور وہ اب اپنا زیادہ سے زیادہ وقت پڑھائی میں گزارتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ سڑکوں پر بھیک مانگنے کے دوران لوگوں کے برے جملے سننا نہایت تکلیف دہ ثابت ہوتا تھا۔