قومی ایکشن پلان پر چند سوالات

09 جنوری 2016
لکھاری سابق پولیس افسر ہیں۔
لکھاری سابق پولیس افسر ہیں۔

حکومت قومی ایکشن پلان پر اپنی کارکردگی کو گرفتاریوں اور چھاپوں کی تعداد کی صورت میں پیش کرتی ہے جبکہ حقیقتاً نیشنل ایکشن پلان کی اہمیت اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ یہ دہشت گردی سے نبرد آزما سول اداروں کی صلاحیتوں میں اضافے، عسکریت پسندوں کے پروپیگنڈے کے توڑ، اور سب سے اہم انسدادِ دہشتگردی کی قومی کوشش جیسے اہم نکتوں پر مبنی ہے۔ حکومت سے ان معاملات پر جواب طلبی کے لیے ہمیں صحیح سوال پوچھنے ہوں گے۔

اگر حکومت قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد میں اپنا عزم اور اپنی سنجیدگی ظاہر کرنا چاہتی ہے، تو اسے کم از کم پانچ شعبوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

نیکٹا کو مؤثر بنانا

وزیر اعظم نے قومی ایکشن پلان پر عمل در آمد کی نگرانی کا کام نیکٹا (قومی ادارہ برائے انسدادِ دہشتگردی) کے حوالے کیا ہے۔ قومی ایکشن پلان کا اعلان ہوئے گیارہ ماہ گزر چکے ہیں، مگر اب بھی نیکٹا کا غیر فعال ہونا حکومت کی کم سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ نیکٹا ایکٹ کے تحت بورڈ آف گورنر کا اجلاس وزیر اعظم کی سربراہی میں ہونا اولین ضرورت ہے کیونکہ بورڈ ہی نیکٹا کو ابتدائی وژن (تصور)، ضروری ہدایات اور اختیارات دینے کے لیے ذمہ دار ہے۔ سول حکومت پچھلے سال بورڈ آف گورنرز کا ایک بھی اجلاس بلانے میں ناکام رہی۔ قومی ایکشن پلان کا غیر فعال مانیٹرنگ باڈی، نیکٹا کے بغیر اطلاق ہونا سول حکومت کے بارے میں اس خیال کو اور تقویت بخشے گا کہ حکومت اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہی۔

دہشت گردوں کی مالی مدد کو ختم کرنا

قومی ایکشن پلان میں دہشت گردوں کی مالی امداد کو ختم کرنے پر بہت زور دیا گیا ہے۔ دہشت گردوں کو مالی معاونت کے کیسز کی تفتیش اور تحقیقات کرنا عام جرائم کی تفتیش سے کہیں زیادہ پیچیدہ عمل ہے جس کے لیے تربیت یافتہ تحقیق کاروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ پورے ملک میں وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) ہی وہ واحد ادارہ ہے جس کے پاس دہشتگردوں کی مالی امداد کی تحقیقات کرنے کے لیے اپنا علیحدہ یونٹ موجود ہے۔ سول حکومت کی سنجیدگی اس بات سے واضح ہے کہ یہ یونٹ پچھلے کچھ سالوں سے بغیر کسی ماہر سربراہ کی سرپرستی کے بغیر غیر مستقل اسٹاف کے ساتھ کام کر رہا ہے۔

اس یونٹ کی اب تک کی کارکردگی، اس کی صلاحیتیں بہتر بنانے کے لیے مستقبل کی حکمتِ عملی اور اس کے ساتھ صوبائی انسداد دہشتگردی محکموں میں ان یونٹس کا قیام وہ سوالات ہیں، جن کا حکومت کو جواب دینا چاہیے۔ دہشتگردوں کی مالی امداد سے نمٹنے میں سنجیدگی کے حکومتی دعوے تب تک قابلِ اعتبار نہیں قرار دیے جا سکتے جب تک کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر مناسب تحقیقاتی شعبے قائم نہ کیے جائیں جن میں ماہرانہ صلاحیتوں کے حامل لوگ شامل ہوں۔

انٹرنیٹ پر موجود دہشتگردوں سے مقابلہ

انٹرنیٹ نھ صرف دہشت گردوں کے پروپیگنڈا کو پھیلانے کے لیے بلکہ مزید بھرتیوں، فنڈز اکٹھا کرنے اور تربیت فراہم کرنے کا بھی اہم ذریعہ ہے۔ قومی ایکشن پلان میں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے درست طور پر زور دیا گیا ہے۔ ابھی کچھ واضح نہیں کہ قومی سطح پر کون سا ادارہ انٹرنیٹ پر موجود دہشت گردوں کی سرگرمیوں کی نگرانی اور ان کا مقابلہ کرنے کا ذمہ دار ہوگا۔ اس کے ساتھ دہشتگردوں کے انٹرنیٹ کے استعمال کے مقدمات کی تحقیقات کے لیے خاص مہارت درکار ہے۔ ایف آئی اے نے ایسے مقدمات کے لیے نیشنل رسپانس سینٹر فار سائبر کرائمز (NR3C) قائم کیا ہے۔ بدقسمتی کے ساتھ اس یونٹ کو ضروری وسائل مہیا نہیں ہیں، اور نہ ہی ایسے شعبے صوبائی انسداد دہشت گردی محکموں میں موجود ہیں۔ وزارتِ داخلہ اور وزرائے اعلیٰ اس کا جواب دیں گے؟

کالعدم تنظیموں کے ارکان کے خلاف کارروائی

انسداد دہشتگردی ایکٹ کے مطابق، کالعدم تنظیموں کے ممبران کو اسلحہ لائسنس، پاسپورٹ، غیر ملکی سفر اور مالی سہولیات کی اجازت نہیں ہوتی۔ ہمیں حکومت سے پوچھنے کی ضرورت ہے کیا پابندی شدہ گروپ کے ممبران کی فہرست تیار کی گئی ہے اور تمام متعلقہ اداروں کو دی گئی ہے؟ کتنے ایسے ممبران کے پاس موجود اسلحہ لائسنس، پاسپورٹ، اے ٹی ایم کارڈ، کریڈٹ کارڈ اور بینک اکاؤنٹس منسوخ کیے گئے ہیں؟ ایک بھی نہیں۔

نظامِ انصاف کو مضبوط کرنا

قومی ایکشن پلان نظامِ انصاف کو باصلاحیت بنانے کی اہمیت پر زور دیتا ہے جس میں عدالت، پولیس، استغاثہ اور جیل شامل ہیں۔

عدالتیں: انسداد دہشت گردی عدالتوں سے بڑی تعداد میں دہشتگردوں کے بری ہونے کے پیش نظر پارلیمنٹ نے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے دو سال کے لیے دہشتگردی کے مقدمات کے لیے فوجی عدالتیں قائم کیں۔ ایک سال تو گزر چکا اور دوسرا گزرنے کے بعد حکومت کو یا تو فوجی عدالتوں کو جاری رکھنا ہوگا یا پھر دہشتگردی کے مقدمات پھر سے انسدادِ دہشتگردی عدالتوں کے حوالے کر دیے جائیں گے۔ حکومت نے انسداد دہشتگردی عدالتوں کو مؤثر بنانے کی کوئی جامع حکمت عملی پیش نہیں کی ہے جس سے فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہونے کے بعد دہشت گردی کے مقدمات میں انصاف مہیا ہوسکے۔ کیا وہ اب ایسا کرنا پسند کریں گے؟

پولیس: جب بھی حکومت دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پولیس اصلاحات کی بات کرتی ہے تو فوجی صلاحیتوں کے حامل یونٹس قائم کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ بلاشبہ یہ ضروری ہے مگر عام پولیس کو دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مؤثر جزو کے طور پر نظر انداز کرنے کی غلطی تشویشناک ثابت ہوسکتی ہے۔ جن دو اہم جگہوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، ان میں دہشت گردی کے مقدمات کی تحقیقات کا معیار بہتر کرنا اور عام لوگوں اور پولیس کے درمیان اعتماد کی کمی کو ختم کرنا شامل ہے تاکہ لوگ پولیس کو دہشت گردوں سے متعلق معلومات فراہم کر سکیں۔

تحقیقات کا معیار بہتر بنانے کے لیے بہتر تربیت، ٹیکنالوجی کے استعمال، فارینسک لیبارٹریوں اور قومی ڈیٹا بیسز کی ضرورت ہے۔ مجرموں کے انگلیوں کے نشانات کا واحد قومی ڈیٹا بیس Pakistan Automated Fingerprints Identification System کئی سالوں سے غیر فعال ہے اور حکومت نے قومی ایکشن پلان کے بعد بھی اسے فعال بنانے کی کوشش نہیں کی ہے۔

اسی طرح پولیس اور عوام کے درمیان حائل اعتماد کی کمی کو ختم کرنے کے لیے بھی کوئی قومی سطح کی پالیسی یا لائحہ عمل موجود نہیں ہے۔ یہ سچ ہے کہ 18ویں ترمیم کے تحت پولیس اب صوبائی معاملہ ہے لیکن اس اہم مسئلے پر انسداد دہشت گردی کے لیے قومی گائیڈ لائن کے طور پر قومی پالیسی بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

استغاثہ: تحقیقات بھلے کتنی ہی اچھی ہوں، لیکن استغاثہ اگر مقدمات عدالت میں ثابت نہ کر سکے تو دہشتگرد آسانی سے رہا ہو جاتے ہیں۔ سانحہ صفورا گوٹھ کے وکیلِ استغاثہ کا تنخواہیں نہ ملنے اور بہتر سکیورٹی مہیا نھ کرنے پر مقدمے سے انکار کرنا تشویشناک ہے۔ حکومت نے دہشتگردی کے مقدمات میں استغاثہ کی خامیاں دور کرنے کے لیے کون سے اقدامات اٹھائے ہیں؟

جیل: بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کی جیلوں پر حملے، جن میں سینکڑوں دہشتگرد فرار ہوئے، جیلوں کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔ کیا حکومت سخت سکیورٹی والی جیلوں کے قیام کی حکمت عملی منظرِ عام پر لانا چاہے گی اور کیا قومی ایکشن پلان کے بعد بھی اس پر پیش رفت ہوگی؟

یہ تاثر کہ حکومت قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد میں سنجیدہ نہیں ہے، عوام کی حمایت کو ختم کر سکتا ہے۔ لہٰذا ان سوالات کے جواب دینا حکومت کے اپنے مفاد میں ہے۔

لکھاری سابق پولیس افسر ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 28 دسمبر 2015 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں