کیا آفریدی واقعی بدترین کپتان ہیں؟

کیا آفریدی واقعی بدترین کپتان ہیں؟

جب سے پاکستان ٹیم نیوزی لینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز میں شکست سے دوچار ہوئی ہے جب سے ایک ٹیبل سماجی ذرائع ابلاغ میں گردش کررہی ہے،"شاہد آفریدی پاکستان کے ٹی ٹوئنٹی کے بدترین کپتان" کی سرخی کے ساتھ اسے فیس بک، ٹویٹر اور ویٹس ایپ میں پھیلایا گیا۔

جی ہاں اعداد وشمار جھوٹ نہیں کہتے اور اعداد کی بنیاد پر اس دلیل کی حمایت نہ کرنا انتہائی مشکل ہے۔ اور یہ سوال کہ وہ بدترین کپتان ہیں یا نہیں یقیناً پوچھا جانا چاہیے۔ لیکن ٹیبلز اور اعدادوشمار کو معروضی طور پر جانچنے کی ضرورت ہے۔

دیے گئے ٹیبل میں انضمام الحق، یونس خان اور مصباح الحق کو غیر ضروری طور پر نمایاں کر کے دکھایا گیا کیونکہ انھوں نے زیادہ میچوں میں کپتانی نہیں کی۔ شعیب ملک کی 12 کامیابیوں کے ریکارڈ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا کیونکہ ان میں سے 7 فتوحات میں سے تین بنگلہ دیش، ایک زمبابوے، ایک اسکاٹ لینڈ، ایک کینیڈا اورایک کینیا کے خلاف ہے۔ محمد حفیظ بلا شبہہ بہت اچھے کپتان تھے، پاکستان نے ٹی ٹوئنٹی میں ان کی صورت میں بہترین کپتان پایا۔

'پروفیسر' کو بلاشبہہ طویل عرصے تک قیادت کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے تھا، ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2014 سے باہر ہونے کے بعد ان کا استعفیٰ وہ بے لوث قدم تھا جو ہم نے پاکستان کرکٹ میں دیکھا۔

یقیناً شاہد آفریدی کپتان کی حیثیت سے اچھے نہیں تھے لیکن ان کے اعداد وشمار اتنے بُرے بھی نہیں جتنا اس کو دیکھا گیا۔ ان کی قیادت میں پاکستان نے اتنی ہی کامیابیاں حاصل کیں جتنی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کوئی بات نہیں شکستوں کا شمار زیادہ ہے لیکن یہ فرق انتہائی معمولی ہے۔ جب ہم عالمی سطح پر کم از کم 10 ٹی ٹوئنٹی میچوں میں قیادت کرنے والوں سے موازنہ کرتے ہیں تو آفریدی کا ریکارڈ رکی پونٹنگ، کرس گیل اور اسٹورٹ براڈ سمیت کئی اوروں سے بہتر ہے۔ یہ ریکارڈ اے بی ڈی ویلیئرز، جارج بیلی، برینڈن مک کولم اور ایم ایس دھونی سے زیادہ مختلف نہیں۔

"شاہد آفریدی پاکستان کے ٹی ٹوئنٹی کے بدترین کپتان" جیسے نتیجے تک پہنچنے سے قبل کوئی اس بات کا بھی احساس کرنا چاہیے کہ ٹی ٹوئنٹی ون ڈے اور ٹیسٹ سے مختلف ہے۔

جہاں ایک ہوشیار کپتان مضبوط ٹیم کے ساتھ ون ڈے اور ٹیسٹ آسانی سے جیت سکتا ہے اسی طرح کا نتیجہ ٹی ٹوئنٹی میں نہیں ہوتا۔ کھیل بہت مختصر ہے جہاں چند گیندیں پورے میچ کا نقشہ بدل کر رکھ دیتی ہیں، اسی لیے ون ڈے اور ٹیسٹ کی نسبت ٹی ٹوٹئنٹی میں زیادہ غیر متوقع نتائج سامنے آتے ہیں۔ یہ طرز مکمل طورپر ناقابل پیشن گوئی ہے اور ٹی ٹوئنٹی میں زیادہ لمبے عرصے تک اکثر ٹیموں کی جیت اور ہار کا ریکارڈ 1:1 کے تناسب کے قریب ہے۔

اسی طرح کا معاملہ کپتانوں کے ساتھ بھی ہے جو مختصر طرز کی کرکٹ میں لمبے عرصے تک اپنی ٹیموں کی قیادت کرتے ہیں کیونکہ یہ طرز زیادہ لمبا بھی نہیں، ٹیسٹ کھیلنے والی 10 ٹیموں کے 21 کپتان ایسے ہیں جنھوں نے تقریباَ 15 ٹی ٹوئنٹی میچوں میں قیادت کی۔ ان میں سے اکثر کپتان بشمول ایم ایس دھونی، جارج بیلی، برینڈن میک کولم، ڈینیئل ویٹوری، اے ابی ڈی ویلیئرز اور آفریدی کے پاس کامیابی کا تناسب 47 سے 53 فی صد کے درمیان ہے، ان کپتانوں کی تعداد بہت کم ہے جنھوں نے 25 سے زیادہ میچوں میں قیادت کی ہو اور جیت کا تناسب 50 سے زیادہ ہے جن میں گریم اسمتھ، پال کولنگ ووڈ، محمد حفیظ اور ڈیرن سیمی شامل ہیں۔

یہ واضح طورپر نشاندہی کررہا ہے کہ ایک طویل مدت تک ایک ٹیم اور ایک کپتان کی کامیابی اور ہار کا تناسب 1:1 کے قریب ہے۔

تو پھر یہ سارے لوگ آفریدی کو ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سے پہلے کپتانی سے کیوں ہٹانا چاہ رہے ہیں۔

انھوں نے واحد ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جس میں پاکستان چمپیئن بنا تھا، میں پاکستان کی فتح میں کلیدی کردار ادا کیا تھا، وہ ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل اور فائنل کے مین آف دی میچ تھے۔ انھوں نے اس واحد دوسرے ورلڈ ٹوئنٹی جس میں پاکستان کو فائنل تک رسائی ہوئی، اس میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا، جہاں وہ ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے تھے۔

پھر جب پاکستان ایک اور دفعہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کا فائنل کھیلنے کے انتہائی قریب پہنچا تو اس وقت وہ قومی ٹیم کے کپتان تھے۔

وہ ہمیشہ سے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے اہم اسٹار رہے ہیں۔

وہ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے دنیا کے سرفہرست باؤلر ہیں، وہ ٹی ٹوئنٹی میں زیادہ وکٹیں لینے والے سرفہرست باؤلرز میں بہترین اوسط کے حامل باؤلرز میں سے ایک ہیں۔

آفریدی ٹی ٹوئنٹی کے ایک بادشاہ ہیں۔

ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ورلڈ کپ کے قریب آتے ہی کپتان کو تبدیل کرنا کوئی دانشمندی نہیں، پاکستان نے 2003 کے ورلڈ کپ سے قبل وقاریونس نہیں ہٹایا تھا حالانکہ ان کی زیر قیادت ٹیم مسلسل ناکامیوں کا شکار تھی، انھوں نے 2015 کے ورلڈ کپ سے قبل مصباح الحق کو نہیں ہٹایا یہاں تک کہ پاکستان ان کی قیادت میں ون ڈے کی تاریخ میں اپنے بدترین دور سے گز رہی تھی۔

تو جی ہاں، آفریدی ہی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان کی قیادت کریں گے۔

وہ پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی بین الاقوامی کرکٹ میں ان کا آخری مقابلہ ہوگا جہاں وہ ون ڈے سے بھی کنارہ کش ہو چکے ہیں، آفریدی ہمیشہ کے لیے بین الاقوامی کرکٹ کو خیر باد کہہ دیں گے، ان کا دودہائیوں پر مشتمل شاندار کیریئر ہے اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی ان کے چمکنے کا آخری موقع ہوگا۔

اور یہ اب ہمارے لیے آخری دفعہ ان پر اعتماد کرنے کا موقع ہے۔

ہمیں اعتماد ہونا چاہیے کہ آفریدی دوبارہ اورایک آخری دفعہ یہ کرسکتے ہیں، 20 سالوں سےقوم کے دل کی دھڑکنوں پر راج کرنے والے شخص کو ایک آخری دفعہ وہ کچھ کرنے دیں جو وہ بہترین کرتے ہیں، آخری دفعہ ہندوستان کے میدانوں میں بوم بوم کی گونج بلند ہونے دیں، آخری دفعہ ہم سب انھیں ہاتھ اٹھا کر وکٹ لینے کا جشن مناتا دیکھیں۔

تو ان کی کپتانی کے اعداد وشمار جو آپ کو مایوس کریں ان کو دیکھنا چھوڑیں۔ انھوں کئی یادگارفتوحات میں پاکستان کی قیادت کی ہے اوروہ ابھی اسی طرح کے کارنامے انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایک آخری دفعہ!


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔