پاکستانی ٹیم کیلئے تاریخ رقم کرنے کا نادر موقع

پاکستانی ٹیم کیلئے تاریخ رقم کرنے کا نادر موقع

عمیر قاضی

مصباح کی قیادت میں پاکستان ٹیم نے انگلینڈ کو گزشتہ 6 سال میں 5 میچوں میں شکست دی—فوٹو: اے پی
مصباح کی قیادت میں پاکستان ٹیم نے انگلینڈ کو گزشتہ 6 سال میں 5 میچوں میں شکست دی—فوٹو: اے پی

گھر کی مرغی دال برابر

آئی سی سی کی ٹیسٹ درجہ بندی میں تیسرے نمبر پر موجود پاکستانی ٹیم پر یہ محاورہ 'گھر کی مرغی دال برابر' صادق آتا ہے، پاکستان ٹیم متحدہ عرب امارات میں ناقابل شکست ہے اور ہار جیت کے تناسب کو بہتر کرتے ہوئے 2010 سے اب تک ٹیسٹ کھیلنے والی ٹیموں میں دوسرے نمبر پر موجود ہے جبکہ اکتوبر 2010 کے بعد ہوم گراؤنڈ اور ہوم گراؤنڈ سے باہر ہار جیت کے تناسب میں بھی دوسرے نمبر پر ہے۔

مصباح الحق کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے یہ کامیابی اپنے ملک میں کوئی میچ کھیلے بغیر حاصل کی ہے۔

پاکستان ٹیم کے اکثر مداح اور نقادوں کے نزدیک ٹیم کی ہوم گراؤنڈ میں کامیابی قابل اطمینان نہیں جبکہ حقیقت یہ ہے قومی ٹیم کے لیے متحدہ عرب امارات کو ہوم گراؤنڈ کے لفظ کے طور پر تراشا گیا۔

یہی مداح انگلینڈ میں یا سخت دباؤ میں پاکستانی ٹیم کی کوششوں کو قدرکی نگاہ سے دیکھتے ہیں جہاں بیٹنگ کیلئے مشکل کنڈیشنز میزبان ٹیم کیلئے سازگار ثابت ہوتی ہے۔

پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم نے مصباح کی زیر قیادت میں وہ کچھ کیا ہے جو کسی پاکستانی ٹیم نے کبھی سرانجام نہیں دیا، مصباح نے کپتان کی حیثیت سے کسی بھی کپتان سے زیادہ فتوحات حاصل کیں اور متحدہ عرب امارات کا دورہ کرنے والی ہر ٹیم کے خلاف کامیابیاں سمیٹیں۔

پاکستان ٹیم نے انگلینڈ کو گزشتہ سال متحدہ عرب امارات میں کھیلی گئی ٹیسٹ سیریز میں زیر کیا تھا—فوٹو: رائٹرز
پاکستان ٹیم نے انگلینڈ کو گزشتہ سال متحدہ عرب امارات میں کھیلی گئی ٹیسٹ سیریز میں زیر کیا تھا—فوٹو: رائٹرز

مصباح کی قیادت میں ٹیسٹ کرکٹ کی درجہ بندی میں پاکستان کی ترقی اور مجموعی طور پر کھلاڑیوں کی بہترین کارکردگی پاکستان کرکٹ کے لیے تاریخی ثابت ہو چکی ہے۔

اس کو خوش قسمتی کہا جائے یا بدقسمتی لیکن جب سے 2010 میں مصباح نے ٹیم کی کمان سنبھالی ہے انھوں نے آسٹریلیا اور انگلینڈ میں پاکستان کی قیادت نہیں کی اسی لیے ان کی کامیابیوں کی فہرست کہیں نامکمل سی لگتی ہے۔

انگلینڈ کے خلاف شروع ہونے والی سیریز اور رواں سال آسٹریلیا کے دورے سے 42 سالہ پاکستانی کپتان کو کامیابیوں میں رہ جانے والے خلا کو پر کرنے کا موقع میسر ہو گا اور دونوں دورے ان کے کیریئر کا اختتام ثابت ہو سکتے ہیں۔

مصباح کی قیادت میں پاکستان ٹیم نے انگلینڈ اور آسٹریلیا میں تاحال کوئی ٹیسٹ نہیں کھیلا—فوٹو: رائٹرز
مصباح کی قیادت میں پاکستان ٹیم نے انگلینڈ اور آسٹریلیا میں تاحال کوئی ٹیسٹ نہیں کھیلا—فوٹو: رائٹرز

آسٹریلیا کا دورہ مشکل ضرور ہے لیکن اس وقت پاکستان ٹیم کو انگلینڈ کے خلاف لارڈذ کے تاریخی مقام میں شروع ہونے والی چار میچوں کی سیریز پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کا انگلینڈ کے گزشتہ دورہ اسپاٹ فکسنگ کے افسوس ناک اسکینڈل کی نذر ہوا تھا جس کی وجہ سے نہ صرف متعلقہ کھلاڑیوں کو سزا ہوئی بلکہ اس کے بدلے بدنامی اور رسوائی ٹیم کے حصے میں آئی تاہم اب وقت آگیا ہے کہ ان یادوں کو بھلا کر پرانی غلطیوں کو نہ دہرایا جائے۔

گوکہ مصباح اس وقت پاکستان ٹیم کے مستقل رکن نہیں تھے لیکن ایک مشکل وقت میں کپتانی ان کے حوالے کر دی گئی تھی اور مصباح کا ریکارڈ ان کی کامیابیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

مڈل آرڈر بلے باز کی قیادت پر مداحوں کے اعتماد نے انگلینڈ کے خلاف 1996 کے بعد ٹیسٹ سیریز میں کامیابی کی امیدیں بحال کردی ہیں، پاکستان نے وسیم اکرم کی قیادت میں 1996 میں سیریز اپنے نام کی تھی۔

پاکستان ہوم سیریز میں کامیابیوں کی بدولت انگلینڈ پر برتری لیے ہوئے ہے اور گزشتہ چھ سالوں کے دوران کھیلے گئے 6 میچوں سے میں 5 میں کامیابی اس برتری کو مزید واضح کر رہی ہے۔

پاکستان کی انگلینڈ پر برتری باصلاحیت کھلاڑیوں کi شاندار کارکردگی کے لیے حوصلہ افزا ثابت ہوسکتی ہے۔

یاسر شاہ

اسپنرز کا کردار لارڈز، اوول اور اولڈ ٹریفورڈ کی وکٹوں میں فاسٹ باؤلرز کی نسبت زیادہ اہم ہو سکتا ہے خصوصاً آخری لمحات میں، کیونکہ یہاں کی وکٹ کئی سالوں سے بیٹنگ کے لیے سازگار ہے اور ٹیمیں مسلسل بڑے مجموعے ترتیب دیتی جا رہی ہیں۔

پاکستان کی ٹیسٹ سیریز کے چار میچوں سے میں سے تین انہی میدانوں میں کھیلے جائیں گے اس لیے لیگ اسپنر یاسر شاہ کو ان کنڈیشنز کے لیے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

یاسر ٹیسٹ کرکٹ میں تیز ترین 50 وکٹیں حاصل کرنے والے پاکستانی باؤلر ہیں—فوٹو: اے پی
یاسر ٹیسٹ کرکٹ میں تیز ترین 50 وکٹیں حاصل کرنے والے پاکستانی باؤلر ہیں—فوٹو: اے پی

جب سے سعید اجمل پر مشکوک باؤلنگ ایکشن کے باعث پابندی لگی، اس وقت سے یاسر شاہ پاکستان ٹیم کا مستقل حصہ ہیں اور یاسر حریف ٹیموں کے خلاف غیرمعمولی ثابت ہوئے ہیں جبکہ پاکستان کی جانب سے ٹیسٹ کرکٹ میں تیز ترین 50 وکٹیں مکمل کرنے والے باؤلر بھی بن گئے، یہ اعزاز چند باؤلرز کو حاصل ہوسکا ہے۔

یاسر نے یہ کارنامہ وقت کے اعتبار سے کسی بھی باؤلر کے مقابلے میں کم وقت میں انجام دیا ہے۔

یاسر شاہ اکتوبر 2014 میں ٹیسٹ ڈیبیو کرنے کے بعد سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے باؤلرز میں شامل ہیں، ناتھن لیون اور اسٹورٹ براڈ ان سے آگے ہیں لیکن ان دونوں کھلاڑیوں نے یاسر سے کہیں زیادہ میچز کھیلے ہیں۔

یاسر شاہ نے ہمارے لیے یہ گھتی سلجھا دی ہے کہ کیوں شین وارن انھیں موجودہ دور کا بہترین لیگ اسپنر گردانتے ہیں۔

1992 اور 1996 میں پاکستان کی سیریز میں کامیابی وسیم اکرم اور وقار کی خطرناک یارکرز کی بدولت تھی جبکہ ٹو ڈبلیوز کی دہشت میں مشتاق احمد کا بھی اہم کردار تھا۔

رواں سیریز میں یاسر کا کردار بلاشبہ اہم ہوگا اور عامر کے ساتھ مل کر وہ 1992 اور 1996 کی سیریز میں تین شاہینوں کی جانب سے پاکستان کے لیے دی گئی کارکردگی کو اس سیریز میں دہرا سکتے ہیں۔

سرفرازاحمد

کراچی سے تعلق رکھنے والے وکٹ کیپر بلے باز سرفراز احمد ساتویں نمبر پر بیٹنگ کے لیے پاکستان کی نئی دریافت ہیں اور گزشتہ تین سالوں میں ٹیم کی ٹیسٹ میچوں میں کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

سرفراز نے اپنے آپ کو پاکستان کے بہترین وکٹ کیپنگ بلے باز کے طور پر منوایا ہے جبکہ گزشتہ تین سالوں کے دوران وکٹ کیپنگ کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ رنز، سنچریاں اور زیادہ نصف سنچریاں بنا کر سرفہرست وکٹ کیپنگ بلے باز ہیں۔

سرفراز کی بیٹنگ کی خاص بات ان کی اسٹرائیک ریٹ ہے جو پاکستان کیلئے ممکنہ طور پر جیت میں مدد گار ہوتی ہے یعنی سرفراز صرف رنز نہیں بناتے مگر تیزی سے بناتے ہیں۔

سرفراز احمد وکٹ کیپنگ کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ رنز بنانے والے وکٹ کیپرز میں شمار ہوتے ہیں—فوٹو: رائٹرز
سرفراز احمد وکٹ کیپنگ کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ رنز بنانے والے وکٹ کیپرز میں شمار ہوتے ہیں—فوٹو: رائٹرز

29 سالہ سرفراز احمد ٹیم کے ٹاپ آرڈر اظہر علی اور یونس خان جبکہ مڈل آرڈر میں مصباح اور اسد شفیق کی جانب سے مخالف باؤلرز کو تھکا دینے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور پاکستان کو مضبوط پوزیشن پر لاکھڑا کرتے ہیں۔

سرفراز احمد میچ کو مخالف کے ہاتھوں سے جلد چھین لینے کے تمام ہتھیاروں سے لیس ہیں اور گیم چینجر ہیں جس کے لیے انگلینڈ کو ان سے باخبر رہنے کی ضرورت ہے۔

محمد عامر

محمد عامر کو اس عمر میں سابق عظیم لفٹ آرم فاسٹ باؤلر وسیم اکرم سے بہتر ہونے کی تعریف کے بعد بلاشک وہ تاریخ کے بہترین باؤلرز میں سے ایک ہیں جن کو پاکستان نے متعارف کرایا۔

بدقسمتی سے 6 سال قبل لارڈز کے مقام پر ان کا کیریئر اسپاٹ فکسنگ سے داغدار ہوا لیکن 23 سالہ نوجوان باؤلر ایک دفعہ پھر لارڈز سے ہی اپنے نئے دور کو شروع کرنے جا رہے ہیں۔

محمد عامر نے گزشتہ دورہ انگلینڈ میں چار ٹیسٹ میچوں میں 19 وکٹیں اپنے نام کی تھیں سیریز کے بہترین کھلاڑی قرارپائے تھے۔

اس سیریز سے قبل وہ آسٹریلیا کو انگلینڈ میں دو ٹیسٹ میچوں میں اذیت سے دوچار کر چکے تھے، عامر کی 2010 کی سیریز میں کی گئی باؤلنگ میری یادداشت میں اب تک ٹیسٹ کرکٹ میں کی گئی چند بہترین باؤلنگ میں سے ایک ہے۔

محمد عامر نے 2010 کی ٹیسٹ سیریز میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کی تھیں—فوٹو: اے پی
محمد عامر نے 2010 کی ٹیسٹ سیریز میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کی تھیں—فوٹو: اے پی

اگر عامر اسی طرح کی کارکردگی اس سیریز میں بھی دکھانے میں کامیاب ہوئے تو پھر الیسٹر کک اور ان کی ٹیم کیلئے کریز پر وقت گذارنا بہت مشکل ہوگا۔

مصباح الحق

پاکستان کی تاریخ کے کامیاب کپتان مصباح الحق نے بحیثیت کپتان بڑے رنز کئے ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ وہ گزشتہ چھ سالوں کے دوران سب سے زیادہ رنز بنانے والے ٹیسٹ کپتانوں میں سے ایک ہیں اور سب سے بہترین بیٹنگ اوسط رکھنے والے کپتانوں میں بھی شامل ہیں۔

مصباح الحق نے اس دوران 7 سنچریاں بنائی ہیں جس میں ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی جانب سے تیزترین سنچری بھی شامل ہے جبکہ انھوں نے ویسٹ انڈیز کے سابق عظیم بلے باز ویون رچرڈز کا تیز ترین سنچری کا ریکارڈ بھی برابر کیا تھا تاہم برینڈن میک کولم نے اپنے کیریئر کے آخری میچ میں اس ریکارڈ کو اپنے نام کیا۔

یونس خان

یونس خان پاکستان کی جانب سے ٹیسٹ کرکٹ میں سب زیادہ سنچریاں اور رنز بنانے والے بلے باز ہیں اور اس دور کے بہترین ٹیسٹ بلے بازوں میں سے ایک ہیں۔

مصباح نے جب سے ٹیم کی کمان سنبھالی ہے تب سے یونس خان اپنے عروج پر ہیں۔

یونس خان نے انگلینڈ کے خلاف گزشتہ دورے میں 170 رنز کی یادگار اننگز کھیلی تھی۔

یونس خان ٹیسٹ میں پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ ٹیسٹ رنز بنانے کے بعد 10 ہزار رنز کے سنگ میل کے قریب ہیں اور یہی بات یونس کے جوش کو مزید تقویت دے رہی ہے جبکہ وہ اپنے عروج پر ہیں تاہم انگلینڈ کو انھیں آؤٹ کرنے کے لیے ہزار جتن کرنے ہوں گے۔

اظہر علی

پاکستان ٹیم میں یونس خان اور مصباح الحق کے بعد اظہر علی مستند بلے باز ہیں جنھوں نے گزشتہ کئی سالوں میں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے اور 43 کی اوسط سے پاکستان کے لیے دوسرے نمبر پر بہترین بلے بازی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔

اظہرعلی 2010 میں ٹیسٹ کرکٹ میں ڈیبیو کے بعد پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ رنز بنانے والے دوسرے کھلاڑی ہیں اور یونس خان سرفہرست ہیں۔

اظہر نے اس دوران 9 سنچریاں بھی بنائی ہیں جو پاکستان کی جانب سے یونس کے بعد سب سے کامیاب بلے باز ہیں۔

اظہرعلی 2010 کے بعد سے تاحال پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ رنز بنانے والے دوسرے بلے باز ہیں—فوٹو: اے ایف پی
اظہرعلی 2010 کے بعد سے تاحال پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ رنز بنانے والے دوسرے بلے باز ہیں—فوٹو: اے ایف پی

اظہر علی نے 2010 میں انگلینڈ کی سرزمین میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا اور آسٹریلیا کے خلاف لارڈز اور لیڈز میں دو نصف سنچریاں اوراوول کے مقام ہر انگلینڈ کے خلاف ناقابل شکست 92 رنز ان کی بہترین صلاحیتوں کا عکس تھے۔

اسد شفیق

اظہرعلی کے ساتھ ساتھ اس شفیق پاکستان کرکٹ ٹیم کی مڈل آرڈر پوزیشن کے اہم رکن ہیں اور ٹیم کو دنیا کی بہترین ٹیموں سے کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

اسد شفیق چھٹے نمبر پر بلے بازی کرنے والے مستند کھلاڑی ہیں اس پوزیشن پر آٹھ سنچریاں بنا کر انھوں نے سر گیری سوبرز کے 40 سال پرانے ریکارڈ کو برابر کردیا ہے۔

اسد شفیق چھٹے نمبر پر ایک اور سنچری بنا کر سرگیری سوبرز کا ریکارڈ اپنے نام کرسکتے ہیں۔

عمیر قاضی wellpitched.com کے بانی، اور بوائز ان گرین نامی مشہور فیس بک گروپ کے شریک بانی ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: wellpitched@