پوکیمون گو کے نام سے مقبول ہونے والے گیم کی تصاویر کو شام کے ایک بچے نے وہاں کی زندگی اور اپنی داستان سنانے کے لیےاستعمال کیا ہے، جس کی کچھ منفرد تصاویر سوشل میڈیا میں گردش کررہی ہیں۔

اس گیم کی تھیم پوکیمون کو ڈھونڈنے اور اسے پکڑنے کی ہے، جبکہ شام کے ایک بچے نے پوکیمون کی تصاویر کے ساتھ اپنی تصاویر جوڑ کر اور ساتھ میں ایک پلے کارڈ پر تحریر 'میں یہاں ہوں، مجھے بچاؤ' کے ساتھ اپنا مقام شیئر کی۔

یہ تصاویر دنیا سے ایک قسم کی درخواست تھی جسے پوکیمون گیم کے ساتھ جوڑ دیا گیا، جس کا پیغام تھا کہ شام کو نہ بھولیں جو گزشتہ پانچ سال سے جنگ کی حالت میں ہے۔

ایک تصویر پر عربی میں لکھا تھا 'میں کفر نبل میں رہتا ہوں، آؤ مجھے پکڑو'۔

مزید پڑھیں: پوکیمون گو گوگل سرچز میں بھی مقبول ترین

ایک اور تصویر میں تحریر تھا 'میں شام کے شہر ادلب میں رہتا ہوں، کیا آپ یہاں آکر مجھے بچائیں گے؟'

ان تصاویر کو شام کی انقلابی فورسز نے اس امید پر دنیا سے شیئر کیا کہ شاید کوئی ان بچوں کی درخواست سن کر شام میں ہونے والے بحران کی طرف متوجہ ہو۔

برطانوہ خبر رساں ادارے دی انڈیپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے فورسز کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ 'جیسے میڈیا پوکیمون گیم کو دنیا بھر میں پھیلا رہا ہے ہم نے ارادہ کیا کہ ان تصاویر کو نشر کیا جائے جس سے بشار الاسد کی افواج کی بمباری سے شامی عوام کے مصائب کو اجاگر کیا جاسکے'۔

اس کے بعد سے ان تصاویر کو اب تک 21 ہزار 500 مرتبہ سے زائد شیئر کیا جاچکا ہے۔

یہ لوگ صرف پوکیمون گیم کی تصاویر سے ہی شعور نہیں پھیلا رہے بلکہ گرافک ڈیزائنر سیف الدین اس گیم کی ایپلیکیشن کا بھی استعمال کرکے شام میں ہونے والی تباہی کا منظر دیکھا رہے ہیں۔

دی ٹیلی گراف سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے یہ تصاویر لوگوں کو شام میں ہونے والی جنگ سے آگاہ کرنے کے لیے بنائی ہیں اور میں ان کے ذریعے لوگوں کی توجہ پوکیمون کے بجائے شامیوں کے مصائب پر لانا چاہتا تھا'۔

ایک اور رپورٹ کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ 'پوری دنیا پوکیمون کو سرچ کررہی ہے جبکہ شامی زندگی کی بنیادی ضروریات ڈھونڈ رہے ہیں، مجھے نہیں لگتا دنیا ہمارے بارے میں سوچتی ہے'۔

واضح رہے کہ پانچ سال سے جاری اس خانہ جنگی سے ان گنت معصوم لوگوں کی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں