لال مرچوں کی سرزمین پر گزرتی زندگی

"ایک بار کسی راجہ نے اپنے دو بیٹوں سے پوچھا کہ، ’’تم مجھ سے کتنا پیار کرتے ہو؟‘‘ بڑے بیٹے نے جواب دیا، ’’اس دنیا میں سب چیزوں سے زیادہ‘‘۔ راجہ کو جواب بہت پسند آیا۔ جبکہ چھوٹے بیٹے نے جواب دیا کہ، ’’مجھے آپ سے اتنی ہی محبت ہے جتنی مجھے مرچیں پسند ہے۔‘‘ راجہ اس جواب سے مایوس ہوا اور اپنے چھوٹے بیٹے کو محل سے نکال دیا۔ برسوں بعد محل بدر بیٹے ہو چکے بیٹے نے بھس بدل کر راجہ کو کھانے کی دعوت پر بلوایا۔ جب راجہ براجمان ہوئے تو ان کے سامنے تمام اقسام کے طعام رکھے تھے۔ انہوں نے باری باری ہر کھانے کو چھکا مگر کسی میں بھی ذائقہ نہ پایا۔ وہ غصے سے پھٹ پڑے کہ ’’ان میں مرچیں کیوں نہیں ہیں؟‘‘ اس پر ان کا بیٹا اپنے بھیس سے نکل کر بولا، ’’میں نے جب میں نے کہا تھا کہ میں آپ کو مرچ جتنا ہی پیار کرتا ہوں اس سے میری مراد یہی تھی کہ آپ کے بغیر میری زندگی بے ذائقہ ہے۔‘‘

مذکورہ کہانی اسکول ٹیچر یونس ملکانی بیان کرتے ہیں اور ہنس پڑتے ہیں۔ ان کے گاؤں مادَو سولنکی جو سندھ کے ضلع عمرکوٹ میں واقع ہے، جہاں کئی باسیوں کی زندگی میں مرچوں کا تعلق نہ صرف ذائقے سے ہے بلکہ خود زندگی کا دارومدار بھی انہی مرچوں پر ہے۔

ایک عورت دھوپ میں مرچوں کو سکھا رہی ہیں— تصویر دانیال شاہ
ایک عورت دھوپ میں مرچوں کو سکھا رہی ہیں— تصویر دانیال شاہ

کنری میں مزدور کھیتوں سے اکٹھا کی ہوئی سوکھی مرچیں ایک جگہ اکٹھا کر  رہے ہیں —تصویر دانیال شاہ
کنری میں مزدور کھیتوں سے اکٹھا کی ہوئی سوکھی مرچیں ایک جگہ اکٹھا کر رہے ہیں —تصویر دانیال شاہ

45 سالہ پرسان ماہِ اکتوبر کی ایک دوپہر کھیتوں سے مرچوں کی کٹائی کے بعد واپس لوٹتی ہے۔ دوپہر کے کھانے میں دیر ہو رہی ہے اور اس شوہر کھانا مانگ رہا ہے۔ وہ جلدی سے دو اقسام کا کھانا تیار کرتی ہے، جس میں ایک ڈش تلی ہوئی ہری مرچیں ہیں اور دوسری ڈش تلی ہوئیں کٹی لال مرچیں۔ اس کا شوہر دنوں ڈشز کو روٹی کے ساتھ کھاتا اور لسی کی مدد سے نوالے نگلتا ہے۔

یہاں زیادہ تر خاندان پورا سال تلی ہوئی مرچیں، یا مرچوں کا سالن یا اچار کھاتے ہیں۔ یہاں سبزیاں بہت ہی کم دستیاب ہوتی ہیں اور اگر ہوں تو بھی یہاں کے لوگوں کی استطاعت سے باہر ہوتی ہیں۔

ایک عورت کھیتوں میں کام کرنے کے بعد اپنے گھروالوں کے کھانے کے لیے مرچیں تل رہی ہے — تصویر دانیال شاہ
ایک عورت کھیتوں میں کام کرنے کے بعد اپنے گھروالوں کے کھانے کے لیے مرچیں تل رہی ہے — تصویر دانیال شاہ

بلاشبہ یہاں کی طرز زندگی میں مرچوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔

کراچی کے شمال مشرق میں قریب 300 کلومیٹر دور عمرکوٹ شہر میں کئی دوکاندار سات تازہ مرچیں اور ایک لیموں کو ایک دھاگے میں پرو کر اپنی دوکانوں کے داخلی حصوں پر لٹکاتے ہیں۔ شہر کے مرکزی بازار میں موجود ایک گل فروش گوورندھن کہتے ہیں کہ، ’’ہم نہیں چاہتے ہیں کہ ہماری دوکان میں بد روحیں اندر داخل ہوں۔‘‘

’’ان بد روحوں کو گرم، تیکھی اور کھٹی چیزیں پسند ہوتی ہیں۔ اگر انہوں نے میری دوکان کا رخ کیا تو بھی وہ مرچیں اور لیموں کھائیں اور دفع ہو جائیں گی۔‘‘ گوورھن کہتے ہیں کہ مرچوں اور لیموں میں پرویا ہوا یہ دھاگہ سات دنوں تک لٹکا رہتا ہے۔ جس کے بعد اسے اتار کسی چوراہے پر پھینک دیا جاتا ہے تا کہ جو بدروح اس میں قید ہوگی اس پر لوگ چل اسے کچل دیں گے۔‘‘

موجن کھیتوں سے مرچیں توڑ رہی ہے — تصویر  دانیال شاہ
موجن کھیتوں سے مرچیں توڑ رہی ہے — تصویر دانیال شاہ

پرسان بھی بدروحوں کو قید کرنے کی غرض سے مرچیں استعمال کرتی ہے۔ گزشتہ برس جب اس کا پوتا ساحل پیدا ہوا تھا تو لوگ اسے مبارکباد دینے آئے سو اسے بچے پر پڑنے والی بد نظری کے اثرات سے محفوظ رکھنے کی غرض سے دن میں دو بار، سورج کے طلوع ہونے اور سورج غروب ہونے کے وقت نظر اتارتی تھی۔

وہ اپنی مُٹھی میں سات سوکھی مرچیں، کوئلے کے سات چھوٹے ٹکڑے اور لاہوری نمک کے سات ڈلیاں بند کر کے اپنے پوتے کے پورے جسم پر سے سات بار گھماتے ہوئے دعا مانگتی۔ جس کے بعد وہ مرچوں کو آگ میں جھوک دیتی۔ مرچوں کے ٹوٹنے کی آواز آتی اور دھواں پیدا ہوتا۔ انہیں پتہ چل جاتا کہ بچہ بد نظری کا شکار ہوا تھا مگر جلد ٹھیک بھی ہو جائے گا کیونکہ ’’آگ کی دیوی مرچوں میں قید بد نظر کو بھسم کر دیتی ہے۔‘‘

ان کی 24 سالہ بہو لیلاوتی بتاتی ہیں کہ جب اس کا بیٹا تین برس کا تھا تب ایک رات چیختا چلاتا نیند سے جاگ اٹھا، ’’میں سمجھ گئی کہ ضرور بد روحیں اسے تنگ کر رہی ہیں۔‘‘

ایک بچی کھیتوں میں مرچوں کی کٹائی میں اپنی والدہ کی مدد کر  رہی ہے — تصویر دانیال شاہ
ایک بچی کھیتوں میں مرچوں کی کٹائی میں اپنی والدہ کی مدد کر رہی ہے — تصویر دانیال شاہ

اگلے دن سورج غروب ہونے کے بعد ایک اسٹین لیس پلیٹ میں پانی بھر کر رکھ دیا اور سات سوکھی مرچیں، کوئلے ٹکڑے اور لاہوری نمک ڈلیاں الیومینیم دیگچی میں ڈال کر اس میں دو دہکتے کوئلے بھی شامل کر دیے اور دیگچی کو کپڑے سے ڈھانپ دیا۔ آگے بتاتی ہیں کہ ’’میں نے اس برتن کو کشور کے سر پر سات بار گھمایا اور بد روحوں کو بگھانے کی دعا مانگی۔‘‘

پھر لیلاوتی نے کپڑا ہٹا کر دیگچی کو پانی سے بھری پلیٹ میں اونڈیل کر رکھ دیا، اور اوندھی پڑی دیگچی پر ایک اوندھی چپل اور ایک تیز دھار چھری رکھ دی گئی، برتنوں میں بلبلے اٹھنے کی آوازیں بھی آ رہی ہوتی ہیں، پھر اس پوری ترکیب کو کشور کے پلنگ کے نیچے رکھ دیا گیا۔ صبح ہونے پر لیلاوتی نے ایک چوراہے پر برتن میں موجود تمام چیزوں کو پھینک دیا تا کہ لوگ بد روحوں پر چل کر ختم کر دیں۔ ’’اپنے بچے کو کسی قسم کے خطرے سے بچانے کی خاطر میں نے یہ عمل سات راتوں تک دہرایا تھا۔‘‘

اپنے  کاروبار کو بدنظری اور بد روحوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک گل فروش نے اپنی دوکان کے آگے مرچیں اور لیموں دھاگے میں پرو کر لٹکایا ہوا ہے — تصویر دانیال شاہ
اپنے کاروبار کو بدنظری اور بد روحوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک گل فروش نے اپنی دوکان کے آگے مرچیں اور لیموں دھاگے میں پرو کر لٹکایا ہوا ہے — تصویر دانیال شاہ

سندھ بورڈ آف انویسٹمنٹ کی آن لائن معلومات کے مطابق سندھ میں تمام لال مرچوں کی قریب 55 فیصد پیداوار ضلع عمرکوٹ کی (تحصیل) تعلقہ کنری میں ہوتی ہے۔ معلومات کے مطابق ایک سال میں صوبہ سندھ میں لال مرچوں کی پیداوار 85 ہزار ٹن ہوتی ہے جو کہ پاکستان میں لال مرچی کی سالانہ پیداوار کا کم وبیش 85 فیصد حصہ ہے۔

کنری اور آس پاس کے علاقوں میں مرچیں مارچ اور اپریل میں اگائی جاتی ہیں۔ جبکہ مرچوں کی کٹائی کا سلسلہ جون سے ہی شروع ہو جاتا ہے اور دسمبر تک بھی جاری رہتا ہے۔ ماہ اکتوبر کے دوران کاشت کاری اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے۔

یہاں زیادہ تر جو مرچی اگائی جاتی ہے اسے مقامی طور پر ڈنڈی کاٹ کہا جاتا ہے۔ مرچی کی یہ جنس تنے کے بغیر اور گول شکل میں ہوتی ہے۔ مقامی آبادگار صنم نامی جنس کو بھی زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ جو لمبی اور دونوں کناروں سے پتلی ہوتی ہیں۔

لیلاوتی اپنے بیٹے کشور کی نظر اتار رہی ہے — تصویر دانیال شاہ
لیلاوتی اپنے بیٹے کشور کی نظر اتار رہی ہے — تصویر دانیال شاہ

کنری کے رہائشی 68 سالہ کریم داد کہتے ہیں کہ یہاں مقامی آبادگار دہائیوں سے مرچیں کاشت کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ، ’’میرے والد کپاس اور مکئی کاشت کیا کرتے تھے مگر میں نے مرچیں کاشت کرنا شروع کیا کیونکہ یہ زیادہ منافع بخش فصل ہے۔‘‘

58 سالہ موجن لال رنگ کی چولی اور نیلے رنگ کے گھاگھرے میں ملبوس ہو کر تیز گلابی رنگ کا دُپٹہ اوڑھے مادَو سولنکی گاؤں میں اپنے چھوٹی خاندانی زمین پر اپنی بیٹی، بہو اور پوتی سمیت مرچوں کی کٹائی کر رہی ہیں۔ وہ سب مرچوں کو جمع کرنے کے لیے اپنے دپٹوں کو ایک ٹوکری نما صورت دے کر اوڑھے ہوئے ہیں۔

لال مرچوں کو بازار میں بیچے جانے سے قبل چار سے پانچ دنوں تک پھیلا کر سکھایا جاتا ہے— تصویر دانیال شاہ
لال مرچوں کو بازار میں بیچے جانے سے قبل چار سے پانچ دنوں تک پھیلا کر سکھایا جاتا ہے— تصویر دانیال شاہ

موجن مرچوں کو استعمال کرنے، بیچنے یا پھر ذخیرہ کرنے سے قبل مرچوں کو کم از کم چار دنوں کے لیے سکھاتی ہیں۔ ہر دو دن اپنے آنگن میں پڑتی دھوپ میں مرچوں کو پھیلا کر سکھاتی ہیں۔

12 سالہ موجن کی پوتی کو ان مرچوں کے بازار جانے کا انتظار ہے تا کہ جب مرچوں کو بوری میں ڈالنے کا مرحلہ شروع ہوگا اس دوران وہ بڑی احتیاط سے بچی کچی مرچوں کے ٹکڑوں کو اکٹھا کر سکے گی۔ کیونکہ اسے کوئی بھی شے اس مصری کی ڈلی سے میٹھی نہیں لگتی جسے وہ باقی بچی مرچوں کے بدلے دکاندار سے لے گی۔


یہ مضمون ہیرالڈ کے نومبر 2016 کے شمارے میں شایع ہوا۔


دانیال شاہ ڈاکیومنٹری فوٹوگرافر ہیں جنہیں بشریات میں دلچسپی ہے۔ وہ ٹریکنگ، کوہ پیمائی، غوطہ خوری اور چائے کے دلدادہ ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں.