نیوزی لینڈ سے آگے امتحان اور بھی ہیں

نیوزی لینڈ کے خلاف دوسرے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں 271 رنز بنوا دینا باؤلنگ کی ناکامی تھی— فوٹو: اے ایف پی
نیوزی لینڈ کے خلاف دوسرے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں 271 رنز بنوا دینا باؤلنگ کی ناکامی تھی— فوٹو: اے ایف پی

وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ پاکستانی ٹیم نے اپنی درخشندہ و تابندہ روایات سے سبق نہ سیکھتے ہوئے روایتی انداز میں کھیلنے کا سلسلہ جاری رکھا اور 30 سال بعد پہلی مرتبہ نیوزی لینڈ کے ہاتھوں ٹیسٹ سیریز میں شکست کی رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔

کرائسٹ چرچ کے بعد ہملٹن میں بھی غلطیوں کو بار بار دہرانے کا سلسلہ جاری رہا خصوصاً دوسری اننگز میں ایک بہترین آغاز کے بعد ٹیم نے جس انداز میں ایک سیشن میں 9 وکٹیں گنوائیں، اس کی مثال شاید خود پاکستان کرکٹ میں بھی نہ ملتی ہو۔

آخری دن 369 رنز بنانے کے خبط نے ٹیم کو بہت بڑا دھچکا لگایا۔ اتنے رنز تو پہلے دن کسی بیٹنگ کیلئے سازگار وکٹ پر بھی آسانی سے نہیں بنتے تو ہماری ٹیم سیمنگ کنڈیشنز میں پانچویں دن بھلا کیسے بنا سکتی تھی۔ دوسرے نمبر پر گزشتہ دو سال میں ہم ون ڈے اور ٹی 20 میں بھی بہتر سٹرائیک ریٹ سے نہیں کھیل پائے تو ٹیسٹ میں تو یہ اور بھی مشکل کام تھا خاص کر اوور کاسٹ کنڈیشن میں۔ جب آپ یہ بھی جانتے تھے کہ شام کو کم روشنی کی وجہ سے شاید پورے اوور بھی نہ کھیلے جاسکیں اور اوپر سے ہوم ورک کا یہ عالم تھا کہ آپ نے پہلے 50 اوورز میں صرف 100 رنز بنائے۔

پاکستان کے خلاف 30 سال بعد ٹیسٹ سیریز جیتنے والی نیوزی لینڈ کی ٹیم کا کلین سوئپ کے ٹرافی کے ہمراہ گروپ فوٹو
پاکستان کے خلاف 30 سال بعد ٹیسٹ سیریز جیتنے والی نیوزی لینڈ کی ٹیم کا کلین سوئپ کے ٹرافی کے ہمراہ گروپ فوٹو

اس شکست کے ساتھ ہی جہاں عالمی نمبر ایک بننے کا خواب عرصے تک شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے تو دوسری جانب شکست کے بار تلے ٹیم کا تین ٹیسٹ میچز کیلئے آسٹریلیا کا رخ کرنا ایک نئے خطرے کی نشاندہی کر رہا ہے۔

حالانکہ آسٹریلین کرکٹ اس وقت خود ایک تجرباتی مرحلے سے گزر رہی ہے لیکن کیویز کے ہاتھوں ہار کے بعد شکست خوردہ پاکستانی ٹیم کے ذہنی اعصاب پر سوار ہو کر آسٹریلین پاکستانی ٹیم کو مزید گرانے کے ساتھ ساتھ اپنا مورال بھی بلند کرنے کی کوشش کریں گے۔

پاکستان نے نیوزی لینڈ میں ناقص کارکردگی کے باوجود خلاف توقع سکواڈ میں کوئی تبدیلی نہ کی اور کم از کم ٹیم کے اعلان سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ چیف سلیکٹر انضمام الحق صبر کے موڈ میں ہیں۔

یہ بات بہت شاندار ہے کیونکہ ٹاپ آرڈر کی موجودہ صورت حال دیکھتے ہوئے خدشہ تھا کہ کہیں حفیظ واپس نہ آجائیں۔ ان کی مختلف سطح پر کافی وکالت بھی جاری تھی لیکن اچھا ہوا کہ 'بیٹسمین' حفیظ کو نہیں چنا گیا کیونکہ وہ کسی طرح بھی ٹیسٹ ٹیم میں فٹ نہیں بیٹھتے۔ ہاں اگر ان کا ایکشن کلئیر ہوجائے تو وہ بہت کارآمد ہو سکتے ہیں۔ خاص کر ایسی پچز جہاں یاسر شاہ بالکل غیر موثر ثابت ہورہے ہوں تو چار مستند فاسٹ باؤلرز کے ساتھ ایک اچھے اسپنر کے طور پر وہ ٹیم کے لئے نعمت ثابت ہوسکتے ہیں۔

دوسری چیز کامران اکمل کی شاندار ڈومیسٹک پرفارمنس تھی۔ کامران گو کہ موجودہ حالات میں ٹاپ آرڈر میں بطور سپیشلسٹ بلے باز ایک اچھا آپشن تھے کیونکہ وہ دلیر ہیں اور فاسٹ باؤلنگ کا سامنا بھی بخوبی کر سکتے ہیں۔ باؤنسی پچز پر پل شاٹ بھی اچھا کھیلتے ہیں اور سب سے بڑھ کر اکمل برادران کسی بھی موقع پر پریشر میں نہیں آتے۔ جب آپ کے نمبر ایک سے نمبر چھ تک تمام ہی بلے باز کم اسٹرائیک ریٹ سے کھیلنے والے ہوں تو ایک نسبتاً جارح مزاج بلے باز کا آپشن بُرا نہیں تھا( یہ آپشن آسٹریلیا میں شرجیل خان ہر گز نہیں ہے یہ اس کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے)۔

سمیع اسلم کی صورت میں پاکستان کو سعید انور کے بعد ایک اچھا اوپنر مل سکتا ہے— فوٹو: اے ایف پی
سمیع اسلم کی صورت میں پاکستان کو سعید انور کے بعد ایک اچھا اوپنر مل سکتا ہے— فوٹو: اے ایف پی

لیکن انضمام نے نوجوانوں پر توجہ دینے کا جو فیصلہ کیا وہ بہرحال قابل تحسین ہے کیونکہ اب نمبر ون بننے کا چانس تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ یونس خان اور مصباح الحق اپنے آخری دنوں میں ہیں تو کیوں نا نئے لڑکوں پر سرمایہ کاری کر لی جائے یعنی ٹرانزیشن پریڈ سٹارٹ ہو جائے۔ اب ہمیں آگے دیکھنا ہوگا ویسے بھی حفیظ اور کامران بھی اب اپنے کیریئر کا آخر میں ہیں سو ان پر ٹائم ضائع نہ کرنا ہی ایک اچھا فیصلہ تھا۔

سمیع اسلم نے دوسری اننگز میں 91 رنز کی جرات مندانہ اننگز کھیلی لیکن وہ اب تک اپنے کھیل سے انصاف نہیں کر پائے۔ جس طرح کی گیندوں پر آؤٹ ہو رہے ہیں وہ مناسب نہیں لگتا۔ خاص کر وہ ایک سپیشلسٹ اوپنر ہیں اور ہمیشہ سے نئے گیند کو ڈیل کرتے رہے ہیں۔ ایک بات بہرحال اب بھی تسلی بخش ہے کہ وہ کم از کم ان مشکل کنڈیشنز میں کچھ مزاحمت کرتے تو دکھائی دیے اور آخری اننگز میں انہوں نے ثابت کیا ہے کہ ٹیسٹ میں بہت آگے جا سکتے ہیں۔ ان کے ساتھ جلد بازی نہ کرتے ہوئے دورہ آسٹریلیا میں مسلسل کھلانا چاہیے۔ یوں بتدریج وہ اسٹرائیک روٹیٹ کرنا اور بُرے گیند کو باؤنڈری کی راہ دکھانے کا فن بھی جان جائیں گے۔

اظہر علی میں ایک اچھے اوپنر والی تقریباً تمام خوبیاں موجود ہیں— فوٹو: اے ایف پی
اظہر علی میں ایک اچھے اوپنر والی تقریباً تمام خوبیاں موجود ہیں— فوٹو: اے ایف پی

بطور اوپنر اظہر علی نے اب ایک ذمہ داری لے لی ہے تو اسے مستقل سمجھیں کیونکہ فی الحال وہی سب سے بہترین آپشن ہیں۔ گزرے کچھ سالوں میں ویسے بھی پاکستان کا ون ڈاؤن بیٹسمین تقریباً پہلے پانچ اوورز میں ہی وکٹ پر آتا رہا ہے۔ سو انہیں سمجھنا چاہیے کہ جس طرح راہول ڈراوڈ جیسے بڑے بلے باز ضروت کے تحت ٹیم کے لئے اپنی بیٹنگ پوزیشن قربان کرتے رہے اور کامیاب بھی رہے۔ وہ بھی کر سکتے ہیں اور یقینًا کامیاب بھی ہو جائیں گے کیونکہ ان کا ڈیفنس بہترین ہے اور ایک اچھے اوپنر والی تقریباً ساری خوبیاں ان کے اندر موجود ہیں۔

بابر اعظم نے جس طرح ایک ہی میچ میں اپنی غلطیوں کو دور کیا وہ بہت خوش آئند امر ہے۔ ہملٹن کی پہلی اننگز میں ان کی باری اچھی تھی۔ کسی بھی موقع پر وہ گھبرائے نہیں پہلے ٹیسٹ میں لگا تھا جیسے وہ شاٹ بال پر کمزور ہیں لیکن اس اننگز میں ان کے پل شاٹس مکمل کنٹرولڈ تھے خاص کر ویگنر کو ان کے وی میں لگائے گئے چوکے قابل دید تھے۔ سب سے بڑی بات کہ گیند کو اس کے میرٹ پر کھیلے اور ان کی بیٹنگ میں سب سے اہم چیز گراؤنڈ شاٹس کے ذریعے رنز بنانے کا ہنر ہے۔

ایک اور چیز جس کے بارے میں اکثر شائقین بلکہ ماہرین بھی یقیننا متجسس تھے وہ ان کا ٹیمپرامنٹ تھا۔ دوسرے اینڈ سے مسلسل گرتی ہوئی وکٹیں بھی ان کے اعتماد کو متزلزل نہیں کر سکیں اور وہ افراتفری کا شکار نہیں ہوئے۔

اب کچھ بات اسد شفیق کے بارے میں جو اب ایک سینیئر بلے باز ہیں اور یونس اور مصباح کے بعد وہ اوراظہرعلی ہی پاکستان ٹیسٹ بیٹنگ کا بار اٹھانے کے لئے سب سے اہم مہرے ہیں مگر اسد شفیق کو احساس نہیں کہ ان کے لئے ٹائم تیزی سے نکلا جارہا ہے۔ مسلسل غلط شاٹ کھیل کراور ٹیم کو مشکل میں چھوڑ کر آؤٹ ہونے کی روش نے ان کے اچھے بلے باز ہونے پر بہت سے سوالیہ نشانات کھڑے کردیے ہیں۔

اسد شفیق دورہ نیوزی لینڈ میں مکمل طور پر ناکام رہے اور ویسٹ انڈیز کے خلاف بھی وکٹ پر سیٹ ہونے کے بعد وکٹ گنواتےرہے تھے۔ فوٹو اے ایف پی
اسد شفیق دورہ نیوزی لینڈ میں مکمل طور پر ناکام رہے اور ویسٹ انڈیز کے خلاف بھی وکٹ پر سیٹ ہونے کے بعد وکٹ گنواتےرہے تھے۔ فوٹو اے ایف پی

جس بیٹسمین کے بارے محمد یوسف جیسا عظیم کھلاڑی تعریفوں کے انبار لگا دے اسے کم از کم ان کے کہے کی ہی لاج رکھنی چاہیے۔ یہ غیر مستقل مزاجی ٹیم اور ان کے لئے نقصان دہ ہے خاص کر نیوزی لینڈ کے خلاف آخری دن جس طرح وہ وکٹ گنوا کر ٹیم کی شکست کی اہم وجہ بنے وہ ناقابل برداشت ہے۔

رضوان کو بہت انتظار کے بعد موقع ملا۔ ان کے بارے اکثر لوگوں کا اعتراض تھا کہ موصوف اپنی وکٹ کی قیمت نہیں جانتے ون ڈے میں جذباتی رن لیتے ہوئے رن آوٹ اورغیرضروری جارحانہ پن دکھا کر وکٹ گنوانے کی عادت انہیں ایک اچھا ٹیسٹ بیٹسمین نہیں بنا سکتی۔ انہیں مصباح کی غیر موجودگی میں ایک موقع ملا اور وہ انہوں نے ضائع کردیا۔ صفر پر آوٹ ہوجانا کوئی بڑا مسئلہ نہیں اصل مسئلہ ان کے آوٹ ہونے کے طریقہ کار پر ہے جس طرح وہ آؤٹ ہوئے خاص کر میچ کی صورت حال میں یہ چیز اور بھی بڑا جرم بن جاتی ہے۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ عمر اکمل ان سے زیادہ ٹیلنٹڈ تھے لیکن آج ٹیم سے باہر بیٹھے ہیں وجہ صرف ان کا غیر ذمہ دارانہ رویہ تھا۔

دورہ آسٹریلیا سے قبل یونس کی ناقص فارم بڑا المیہ ہے جو دو ٹیسٹ میچوں کی چار اننگز میں صرف 16 رنز بنا سکے— فوٹو: اے ایف پی
دورہ آسٹریلیا سے قبل یونس کی ناقص فارم بڑا المیہ ہے جو دو ٹیسٹ میچوں کی چار اننگز میں صرف 16 رنز بنا سکے— فوٹو: اے ایف پی

یونس بھائی کو بندہ کیا کہے انہیں سب پتا ہے۔ بس آؤٹ ہوتے وقت اپنے مرتبے کا خیال کرلیا کریں۔ کم از کم باؤلر کو اتنا فخر تو حاصل کرنے دیں کہ میں نے یونس کو آؤٹ کیا ہے۔ آپ تو وکٹ تحفے میں دینے لگ گئے۔

عامر کو سابقہ فارم میں واپسی کیلئے ایک بہترین اسپیل درکار ہے— فوٹو: اے ایف پی
عامر کو سابقہ فارم میں واپسی کیلئے ایک بہترین اسپیل درکار ہے— فوٹو: اے ایف پی

سرفراز احمد لگتا ہے ٹیم میں اپنی موجودگی کو فار گرانٹڈ لینے لگ گئے ہیں۔ انہیں بہت جلد غور کرنا ہوگا 40-45رنز کی اننگز کو بڑے سکور میں تبدیل کرنا بہت اہم ہے۔ انہیں ٹیسٹ کے لحاظ سے اپنا کھیل تبدیل کرنے کی خاص ضرورت ہے۔ ٹیمپرامنٹ کی کمی اب ان کی بیٹنگ میں واضح محسوس ہونے لگی ہے۔ انہیں چاہئے کہ بیٹنگ میں ٹائم لیں اور وکٹ پر اپنے قیام کو لمبا بنائیں ورنہ ان میں اور ایک ٹیل اینڈر کے بنائے گئے سکور میں کچھ خاص فرق نہیں رہے گا۔

باؤلنگ پر نظر دوڑائی جائے تو اس سیریز سے یہ احساس ہوا کہ عامر اب ردھم میں آرہے ہیں۔ بس سلپ کیچنگ بہتر ہوجائے تو آپ کو پرانا عامر مل جائے گا۔ سلپ فیلڈرز کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ فاسٹ باؤلرز یہ محسوس نہ کریں کہ بیٹسمین کو ہمیں بولڈ یا ایل بی ڈبلیو ہی کرنا ہے۔ انہیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ جو بھی کیچ آئے اسے پکڑیں اور ان کنڈیشنز میں کیچز نکلیں گے۔ ہم ان کیچز کی وجہ سے پتہ نہیں کتنے میچز گنوا چکے ہیں۔ اب محسوس ہوتا ہے کہ پرانا عامر صرف ایک اچھے اسپیل کی دوری پر ہے۔

وہاب ریاض کی شہرت کو چارچاند آسٹریلیا میں ایک شاندار سپیل کی وجہ سے لگے تھے لیکن جس طرح وہ اپنی نو بالز پر قابو پانے اور لائن و لینتھ برقرار رکھنے میں ناکام ہورہے ہیں، ڈر ہے کہ کہیں ان کے کیرئیر کو بڑا دھچکا بھی اسی دورہ آسٹریلیا میں نہ لگ جائے۔

وہاب ریاض کیلئے دورہ آسٹریلیا انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اس دورے میں ناکامی ان کے کیریئر کیلئے فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہے— فوٹو: اے ایف پی
وہاب ریاض کیلئے دورہ آسٹریلیا انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اس دورے میں ناکامی ان کے کیریئر کیلئے فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہے— فوٹو: اے ایف پی

کبھی کبھی ٹیم مینیجمنٹ پر بھی حیرت ہوتی ہے جہاں راحت کو کھلانا ہو وہاں وہاب کھیل جاتا ہے۔ ایک سیمنگ ٹریک پر راحت جیسے سیمر کو ٹیم سے باہر بٹھانا حیران کن فیصلہ تھا خاص کر جب عامر کی صورت میں ایک اٹیکنگ فاسٹ باؤلر موجود تھا۔

وہاب کی بیٹنگ اب بالکل فارغ ہوگئی ہے یہ ایک ایڈوانٹیج انہیں حاصل تھا اس سے بھی اب وہ ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ باؤلنگ کی بری کارکردگی ان کی بیٹنگ کو بھی متاثر کر گئی اور سکور تو کیا کرنا، اب وہ اس قابل بھی نہیں رہے کہ دوسرے اینڈ سے وکٹ ہی روک سکیں۔

نیوزی لینڈ کے خلاف دوسرے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں 271 رنز بنوا دینا باؤلنگ کی ناکامی تھی۔ جب آپ ٹاس جیت کر ایک گھاس سے بھرپور اور باؤلنگ کیلئے سازگار وکٹ پر پہلے باولنگ کرتے ہیں تو پھر کچھ خاص کرنا ہوتا ہے مگر ہمارے باؤلر وہ نہیں کر پائے اور یہیں سے ٹیم بیک فٹ پر چلی گئی۔

متحدہ عرب امارات میں کیریئر کے آٹھ میں سے سات ٹیسٹ میچز کھیلنے کے باوجود عمران خان کی باؤلنگ اوسط 26 کے آس پاس ہے— فوٹو: اے ایف پی
متحدہ عرب امارات میں کیریئر کے آٹھ میں سے سات ٹیسٹ میچز کھیلنے کے باوجود عمران خان کی باؤلنگ اوسط 26 کے آس پاس ہے— فوٹو: اے ایف پی

عمران خان کے ساتھ مسلسل زیادتی ہوتی رہی ہے۔ انہیں بلاوجہ باہر بیٹھنا پڑرہا ہے حالانکہ وہ ایک بہترین سیمر ہیں جو بوقت ضرورت ریورس سوئنگ بھی بخوبی کر سکتے ہیں۔ انہوں نے اپنے کیریئر کے 8 میں سے 7 ٹیسٹ متحدہ عرب امارات میں کھیلے ہیں اور اس کے باوجود ان کی باؤلنگ ایوریج 26 کے آس پاس ہے (26وکٹیں) جبکہ ان کی جگہ ٹیم میں شامل کئے جانے والے سہیل خان 8 میچز میں 24 وکٹیں حاصل کرنے کے لئے فی وکٹ 41 کے قریب رنز دیتے ہیں۔

سہیل خان نے اپنے آخری 4 ٹیسٹ میچز میں دوسری اننگز میں ایک بھی وکٹ حاصل نہیں کی جو ایک تشویشناک بات ہے۔ دوسرے یا تیسرے سپیل میں ان کی سپیڈ بھی کافی کم ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے ان کی افادیت پر واضح فرق پڑتا ہے۔ یہاں قابل ذکر امر یہ کہ ان کی بیٹنگ کے بہت گن گائے جارہے ہیں تو ذہن میں رہے کہ وہ ایک اسپیشلسٹ باؤلر ہیں اور انہیں سب سے پہلے یہ کام بخوبی کرنا ہے۔ ویسے بھی ٹیسٹ میچ اسپیشلسٹ کا کھیل ہے۔

بہرحال سیریز کلین سوئپ اور عالمی درجہ بندی میں دو درجہ تنزلی کے ساتھ دورہ نیوزی لینڈ اختتام پذیر ہوا لیکن ابھی آسٹریلیا میں اس سے بھی کڑا امتحان ہماری ٹیم کا منتظر ہے اور وہاں بھی ٹیم مینجمنٹ کا خصوصاً باؤلنگ آپشن کے حوالے سے امتحان جاری رہے گا۔


محسن حدید کرکٹ سے جنون کی حد تک لگاؤ لکھتے ہیں اور مختلف اخبارات اور ویب سائٹ کے لیے لکھتے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔