کراچی: سندھ پولیس کے اعلیٰ حکام نے شہر میں ہونے والے حساس اور ہائی پروفائل واقعات کی سی سی ٹی وی فوٹیج نیوز چینل کو لیک ہونے پر سخت تشویش اور برہمی کا اظہار کیا ہے۔

پولیس کی اعلیٰ قیادت کا ماننا ہے کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کے لیک ہونے سے ایک جانب تو واقعے کی تفتیش متاثر ہوتی ہے اور دوسری جانب ایسا کرنا جرائم پیشہ عناصر کو 'ویڈیو کی نگرانی کے نظام کے مقابلے' کی سہولت فراہم کرنے کا ذریعہ ہے۔

سندھ پولیس کے حکام نے مذکورہ تشویش کا اظہار پولیس کے مرکزی دفتر میں ہونے والے اجلاس کے دوران کیا، جہاں اعلیٰ حکام نے شہر میں ویڈیو نگرانی نظام کو آپریٹ کرنے والی نجی کمپنی کی انتظامیہ اور پولیس کے متعلقہ کام سے منسلک یونٹ کو طلب کیا تھا۔

سندھ پولیس کے ڈی آئی جی، آئی ٹی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں موجود ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ 'پولیس کا اسپیشل سیکیورٹی یونٹ (ایس ایس یو) سندھ پولیس کی جانب سے ویڈیو نگرانی نظام کے کام سے منسلک ہے'۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ 'نجی کمپنی، ایس ایس یو حکام کو رائج طریقہ کار یا اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (ایس او پی) کے مطابق آپریشن میں مدد فراہم کرتے ہیں، تاہم پولیس حکام کا ماننا ہے کہ حالیہ واقعات میں یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ ان واقعات کی فوٹیج میڈیا کو لیک کی گئی ہے'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اپنی تشویش اور مذکورہ فوٹیجز کی لیک کے خاتمے کیلئے پولیس کے اعلیٰ حکام نے دونوں جانب کے عہدیداروں کو اجلاس میں طلب کیا تھا، جس میں ایس ایس یو اور نجی کمپنی کی انتظامیہ شامل تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ جب نجی کمپنی سے سی سی ٹی وی فوٹیجز کے لیک ہونے کے حوالے سے پوچھا گیا تو انھوں نے اس حوالے سے اپنی 'معذوری' کا اظہار کیا۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ نجی انتظامیہ کی جانب سے دیا جانے والے جواب 'قائل کرنے والا' تھا، وہ یہ کہنے میں حق بجانب تھے کہ 'کمپنی کی انتظامیہ یا اسٹاف کسی فرد کو فوٹیج کے لیک کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے، ان کا ایک اپنا کنٹرول سسٹم ہے جس میں اس قسم کی لیک ممکن نہیں اور فوٹیج پولیس افسران کی جانب سے لیک کی گئی ہے'۔

خیال رہے کہ سندھ پولیس نے 2010 میں کراچی میں نگرانی کیلئے 'ویڈیو نگرانی کا نظام' متعارف کرایا تھا جس پر 50 کروڑ مالیت آئی تھی، اس منصوبے میں گذشتہ سال مزید اضافہ اس وقت کیا گیا جب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس میں 84 کروڑ 60 لاکھ مالیت کے مزید 1000 نگرانی کمیرے نصب کرنے کا اعلان کیا جس کی مدد سے شہر میں جاری آپریشن کو کامیاب کرنے میں مدد ملی۔

اس کے علاوہ وفاقی حکومت کی جانب سے شہر میں رینجرز کے ٹارگٹڈ آپریشن کے اعلان کے بعد سندھ حکومت نے ستمبر 2013 کو سٹیزن پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) کو قانون نافذ کرنے والی ایجنسی سے تبدیل کردیا جس کے بعد پولیس کو اپنے نگرانی نظام کے علاوہ سوک سینٹر میں قائم 'کے ایم سی' کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کی نگرانی بھی دے دی گئی۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ سی سی ٹی فوٹیج کا میڈیا کو لیک ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے، تاہم حال ہی پولیس کی اعلیٰ قیادت کی تبدیلی کے بعد اسے بہت زیادہ نوٹ کیا گیا ہے۔

پولیس عہدیدار کا کہنا تھا کہ اجلاس کے بعد یہ امکان ظاہر کیا جاسکتا ہے کہ نئے ایس او پی جاری کیے جائیں گے اور فوٹیج کی لیک کو روکنے کیلئے مؤثر اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ پولیس حکام نے اس معاملے پر ناراضگی اور برہمی کا اظہار کیا ہے، درحقیقت مشکل سے ہی کوئی پالیسی طویل عرصے کیلئے کارآمد ہوتی ہے، تو ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اعلیٰ حکام کی اجازت کے بغیر کوئی بھی فوٹیج میڈیا کو لیک نہیں کی جائے گی'۔

یہ رپورٹ 29 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں