فائل فوٹو

اسلام آباد: سندھ اسمبلی کی جانب سے آئندہ اجلاس میں ریپ کیس میں ملزم کے ساتھ ساتھ متاثرہ خاتون کا بھی ڈی این اے ٹیسٹ کرانے سے متعلق قرارداد پیش کیے جانے کا امکان ہے۔

اگر یہ بل پاس ہوجاتا ہے تو یہ نہ صرف جنسی زیادتی کے مقدمات کی تفتیش میں آسانی فراہم کرنے کا سبب بنے گا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ زیادتی کی شکار خاتون کو حصول انصاف کی راہ بھی ہموار ہو جائے گی۔

یہ قرارداد پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن صوبائی اسمبلی شرمیلا فاروقی کی طرف سے پیش کی گئی تھی جن کا کہنا تھا کہ ریپ کے مقدمات میں انصاف کے تقاضے پورے کرنے اور معصوم شخص کو انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ ایک لازمی جزو ہے۔

سندھ سیکریٹریٹ میں جمعہ کو جمع کرائے بل کی ایک نقل ڈان ڈاٹ کام کو موصول ہوئی ہے جس کے مطابق قانون کی موثر فراہمی کے لیے بنیادی شواہد کے طور پر متاثرہ شخص کا ڈی این اے ٹیسٹ کروانا ایک نا مناسب لیکن آسان اور لازمی عمل ہے۔

بظاہر یہ بل اسلامی نظریاتی کونسل کے حالیہ اعتراض کا جواب ظاہر ہوتا ہے جہاں ان کا کہنا تھا کہ ڈی این اے ٹیسٹ اسلامی تعلیمات سے متصادم ہے۔

کونسل کی گزشتہ ماہ ہونے والی میٹنگ میں سوال اٹھایا گیا تھا کہ کیا ریپ کے مقدمات میں ڈی این اے ٹیسٹ کو قابل قبول شواہد کے طور پر استعمال کیا جائے گا؟، کونسل نے اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا لیکن اس حوالے سے کچھ ارکان کے اعتراضات انتہائی پریشان کن تھے۔

کونسل کے رکن علامہ طاہر اشرفی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے ابھی ڈی این اے کے خلاف کوئی باقاعدہ فیصلہ نہیں کیا ہے اور معاملے پر کونسل کے عید کے بعد ہونے والے اجلاس میں غور کیا جائے گا۔

پاکستان میں ہر سال ہزاروں خواتین ریپ کا شکار ہوتی ہیں جس میں زیادہ تر واقعات درج نہیں ہوتے، تاہم اگر کچھ واقعات کی رپورٹ درج ہو بھی جائے تو بھی زیادہ تر اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ پاتے کیونکہ حدود قوانین کے تحت متاثرہ عورت کو ریپ کے بعد اس جرم کو ثابت کرنے کے لیے چار گواہ درکار ہوتے ہیں۔

اگر یہ بل منظور ہو جاتا ہے تو اسے 'ڈی این ٹیسٹ ایکٹ لازمی بل 2013' کا نام دیا جائے گا اور اس کا اطلاق پورے سندھ پر ہو گا۔

اس حوالے سے مزید کہا گیا ہے کہ حکومت سندھ کو بل کی منظوری کے 90 دن کے اندر صوبے کے تمام اضلاع میں فارنسک لیبارٹری اور کلیکشن سینٹرز کا انتظام کرنا ہو گا۔

بل میں کہا گیا ہے کہ ریپ کی گئی خاتون کا لازمی طور پر ڈی این اے کیا جائے گا، اگر مقدمہ مناسب وقت پر درج کرایا جاتا ہے تو مناسب ترین وقت یا واقعے کی شکایت کے اندراج کے 12 گھنٹوں کے اندر ریپ کی گئی خاتون کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا جائے گا۔

اگر مقررہ وقت ختم ہو جاتا ہے تب بھی پولیس اور میڈیکل حکام تفتیش میں مدد کے لیے ڈی این اے شواہد جمع کرانے کی ہرممکن کوشش کریں۔

بل کے مطابق زیادتی کا شکار خاتون کو پولیس کی تحویل ڈی این اے شواہد کے لیے اسپتال اور فارنسک لیب لے جایا جائے گا اور اس سلسلے میں متاثرہ خاتون کی پرائیویسی کو بھی ممکن بنانے پر زور دیا گیا ہے۔

بل کے تحت کسی بھی پولیس یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مرد اہلکار کو معاملے کی تفتیش یا متاثرہ شخص سے سوال و جواب کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے اور اسی طرح ڈی این اے ٹیسٹ بھی صرف کوئی خاتون میڈیکل ماہر ہی کر سکے گی۔

اس سلسلے میں ٹیسٹ کی تمام تر معلومات کو صیغہ راز میں رکھنے پر بھی زور دیا گیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ٹیسٹ کے لیے بہترین سہولیات کی فراہمی یقینی بنائے۔

بل میں صوبائی حکومت کو اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ ڈی این اے ٹیسٹ کے سلسلے میں تمام تر اخراجات برداشت کرنے کے لیے سندھ ڈی این اے ٹیسٹنگ فنڈ قائم کرے۔

مزید براں شرمیلا فاروقی نے وزیر اعلیٰ سندھ کو ایک خط تحریر کیا ہے جس میں ان سے سپریم کورٹ کے 2 اکتوبر 2012 کے فیصلے کے مطابق ریپ کے مقدمات میں ڈی این اے ٹیسٹ اور اس حوالے سے تمام تر ثبوت محفوظ بنانے کو لازمی قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

انہوں نے وزیر اعلیٰ پر زور دیا کہ کراچی میں ایک ڈی این اے لیبارٹری قائم کی جائے جس میں حکومت ریپ کے مقدمات میں ڈی این اے ٹیسٹ کے تمام تر اخراجات برداشت کرے۔

یاد رہے کہ گزشتہ ماہ سندھ اسمبلی نے ریپ کے تمام مقدمات میں ڈی این اے ٹیسٹ کو لازمی قرار دینے کی قرارداد منظور کر لی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں