ڈینی سر فارم: انگریز دور کی چند اچھی یادوں میں سے ایک

ڈینی سر فارم: انگریز دور کی ایک یادگار

اختر حفیظ

برِصغیر میں جہاں انگریزوں نے ایک طرف مختصر فوج اور انتظامی افسروں کی مدد سے اس خطے پر قبضہ جما کر استحصال کیا وہیں دوسری طرف انگریزوں نے چند ایسے بھی کام کیے جن کا فائدہ عوام کو بھی ہوا۔ مثلاً ریلوے نظام اور آبپاشی کا بنیادی ڈھانچہ انگریزوں کا فراہم کردہ تھا۔ گوکہ یہ سہولیات ان کے اپنے مفادات میں تھیں مگر بلاواسطہ اس سے یہاں کا عام آدمی بھی مستفید ہوا۔

اسی طرح آج بھی سندھ سمیت پاکستان بھر میں کئی ایسی عمارتیں اور دیگر نشانیاں ہیں جو اس زمانے کی یاد تازہ کر دیتی ہیں، جسے ’کمپنی بہادر‘ کا نام دیا گیا تھا۔ ایک ایسی ہی یادگار سندھ کے شہر نبی سر کے قریب بھی موجود ہے۔ ضلع میرپورخاص کے شہر نوکوٹ سے مشرق کی جانب تقریباً 25 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک سرخ اینٹوں سے بنی عمارت آج بھی اُسی شان و شوکت سے کھڑی ہے۔ جسے ’ڈینی سر فارم‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

برِصغیر کی تقسیم سے قبل یہ عمارت سر راجر تھامس، اُن کی بیٹی ڈینی اور اُن کے داماد بنین کی رہائش گاہ تھی۔ مگر یہ علاقہ کسی زمانے میں ایک صحرا کی صورت تھا۔ چاروں اطراف بیابان تھا۔ جغرافیائی لحاظ سے جہاں صحرا اور بیراجی علاقے کا سنگم ہوتا ہے، اُسے سندھی زبان میں 'کس' کہا جاتا ہے۔ پانی کی رسائی بھی یہاں اُس وقت ہوئی جب سکھر بیراج تعمیر ہوا۔ سر راجر تھامس نے نبی سر کے قریب 22 ہزار ایکڑ زمین لیز پر لی تھی، جس پر انہوں نے ایک زرعی فارم تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔

فارم کی جانب جاتی سڑک— فوٹو اختر حفیظ
فارم کی جانب جاتی سڑک— فوٹو اختر حفیظ

بنگلے کا بیرونی منظر— فوٹو اختر حفیظ
بنگلے کا بیرونی منظر— فوٹو اختر حفیظ

بنگلے کا بیرونی منظر— فوٹو اختر حفیظ
بنگلے کا بیرونی منظر— فوٹو اختر حفیظ

سر راجر تھامس نے جاتے وقت یہاں کی زمین کا بڑا حصہ وہیں آباد لوگوں میں تقسیم کیا اور باقی آس پاس کے زمینداروں نے ان سے خرید لی۔ اب اس زمین کا کچھ حصہ خان بہادر غلام حسین کے رشتے داروں کے پاس ہے، جو اس زمین کے مالک ہیں، چونکہ وہ یہاں پر سر راجر تھامس کے ساتھ تھے اس لیے انہیں بھی زمین اور آس پاس کی جائداد مل گئی۔

اب اس فارم کی زمین سکڑ کر ایک ہزار ایکڑ رہ گئی ہے۔ جس میں صرف 150 سے 200 ایکڑ آباد ہے۔ آج بھی یہاں ریکارڈ رکھنے کا طریقہ ہاتھ سے تحریری شکل میں ہے جیسا کہ اس زمانے میں ہوا کرتا تھا۔

ڈینی سر کے نام سے متعلق ایک حوالہ یہ بھی دیا جاتا ہے کہ ڈینی جیسے راجر تھامس کی بیٹی کا نام اور سر سندھی میں فطری طور پر بنے ایک ایسے تالاب کو کہا جاتا ہے جوکہ بارشوں کے بعد ہی پانی سے بھرتا۔ اس لیے اس کا ایک مطلب 'ڈینی کا تالاب' بھی نکلتا ہے۔

ڈینی سر کے نام سے یہ جگہ اس لیے بھی مشہور ہے کہ راجر تھامس کو سر کہہ کر پکارا جاتا تھا اور جب انہوں اس فارم کا نام اپنی بیٹی سے منسوب کیا تو ان کا نام بھی اپنی بیٹی کے نام سے جڑا رہا اور اس طرح یہ جگہ ڈینی سر کہلانے لگی۔

راجر تھامس نے نباتات کے شعبے میں یونیورسٹی کالج آف ویلس سے اول نمبر میں ڈگری حاصل کی جبکہ ارضیات ان کا مساوی سبجیکٹ تھا۔ 1913ء میں گریجوئیٹ ہونے کے بعد جنوبی ہندوستان میں انڈین ایگری کلچرل سروس کے رکن منتخب ہوئے اور ایگری کچرل کالج آف کائمبٹورے میں کام کیا۔ اس کے بعد وہ مدراس میں زراعت کے ڈپٹی ڈائریکٹر بھی رہے۔ یہ 1917ء کا زمانہ تھا جب وہ بحیثیت رسرچ اسکالر عراق گئے جہاں انہوں نے میسوپوٹیمیا ایکسپڈیشنری فورس میں کیپٹن کے عہدے پر کام کیا۔

1927ء میں انہوں نے خانیوال میں برٹش کاٹن ایسوسی ایشن میں کام کرنا شروع کیا۔ جبکہ 1931ء میں انہوں میں سندھ میں زمین خریدی۔ 1944ء میں وہ سندھ حکومت میں زراعت کے وزیر مقرر ہوئے، لیکن ہندوستان کی آزادی کی تحریک جب زور پکڑ گئی تو انہوں نے اپنی وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔

سر راجر تھامس نے یہاں پر بڑی تعداد میں زمین خریدی جسے انہوں نے اپنے ساتھی خان بہادر غلام حسین کی مدد سے نبی سر میں ایک ایسا مثالی زرعی فارم تبدیل کردیا جس سے یہاں کی زراعت کو فروغ ملا۔

بنگلے میں موجود قدیم تجوری— فوٹو اختر حفیظ
بنگلے میں موجود قدیم تجوری— فوٹو اختر حفیظ

بنگلے میں آویزاں چوہدری غلام حسین کی تصویر— فوٹو اختر حفیظ
بنگلے میں آویزاں چوہدری غلام حسین کی تصویر— فوٹو اختر حفیظ

فارم میں کاشت کیے گئے پھول— فوٹو اختر حفیظ
فارم میں کاشت کیے گئے پھول— فوٹو اختر حفیظ

فارم میں کاشت کیے گئے پھول— فوٹو اختر حفیظ
فارم میں کاشت کیے گئے پھول— فوٹو اختر حفیظ

1934ء کے زمانے میں سر تھامس نے یہ زمین سندھ لینڈ ڈیولپمنٹ (ایس ایل ڈی) کے تحت لگ بھگ 8 سے 10 روپے ایکڑ میں خریدی تھی۔ اس ادارے کے قیام کا مقصد سندھ میں غیرآباد زمینوں کو آباد کرنا اور زراعت کی صورتحال کو بہتر کرنا تھا جس کو بعد میں 20 سال کے لیے لیز پر حاصل کیا گیا۔ یہ علاقہ میلوں پر محیط تھا اور ان فصلوں کی دیکھ بھال کے لیے پنجاب کی اس وقت کی رینالہ اسٹیٹ سے کسانوں اور مزدوروں کو یہاں لاکر آباد کیا گیا۔

محمد شریف اس فارم کے مینیجر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ

’یہاں پر جنگل کے سوائے کچھ نہیں تھا، نہری نظام بہتر ہونے کے بعد اس علاقے میں مختلف اقسام کی فصلیں اگائی گئیں۔ بودر فارم سے لے کر فضل بھنبھرو تک یہ علاقہ راجر تھامس کی جاگیر بن گیا۔ اس زمانے میں کسان کو بٹئی (تیار ہونے والی فصل کی کسان اور مالک کے بیچ تقسیم) میں تیار ہونے والی فصل کا آدھا حصہ دیا جاتا تھا، یہ رواج آج بھی ویسے ہی قائم ہے۔ جبکہ فصل سے تیار ہونے والا بھوسہ بھی آدھا کسان کا ہوتا تھا اور مالک اگر بیچنا چاہتا تھا تو پہلے کسان کو ہی کم داموں میں فروخت کیا جاتا تھا۔ گیہوں، گنا اور کپاس یہاں کی خاص فصلیں تھیں۔‘

چوہدری انعام کا خاندان بھی ان کسانوں میں سے تھا، جنہیں رینالہ اسٹیٹ سے لاکر یہاں پر آباد کیا گیا تھا۔ ان کے والد برکت اللہ سر راجر تھامس کے ہاں ملازم تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ

’یہ علاقہ کاٹن بیلٹ کہلاتا تھا۔ انگریزوں نے یہاں پر کپاس کا کارخانہ بھی تعمیر کروایا جہاں سے کپاس دیگر شہروں میں ٹرین کے ذریعے برآمد کی جاتی تھی۔ اس علاقے کو ’شیر نہر‘، ’نبی سر نہر‘، ’سانوری نہر‘ اور ’کنری نہریں‘ آباد کرتی تھیں۔‘

اس طرح نہ صرف سر راجر تھامس نے اپنی رہائش گاہ کی تعمیر کی بلکہ مزدوروں اور کسانوں کے لیے بھی رہائش کا بندوبست کیا اور ان کے لیے گھر تعمیر کروائے۔ گھوڑوں کے اصطبل بھی بنائے گئے تھے۔ آج جس جگہ پر ڈینی سر کا بنگلہ قائم ہے اس کے برابر میں ہی ایک بھٹہ اینٹوں کی تیاری کے لیے بنایا گیا تھا۔ جہاں سے اینٹیں تیار ہوکر ان گھروں کی بنیادوں میں استعمال ہو رہی تھی جو آج بھی اپنا وجود کسی حد تک برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

اس جگہ کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہاں پر پانی صاف کرنے کا پہلا تالاب تیار کیا گیا تھا، جوکہ آج بھی کافی بہتر حالت میں موجود ہے۔ اس تالاب میں پانی جمع ہونے کے بعد اسے پینے لائق اور فلٹر کرنے کے لیے ریتی، کوئلے اور چونے کا استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ پانی وہاں پر آباد تمام لوگوں کے استعمال کے لیے ہوتا تھا۔

انگریز دور کی آٹا چکی— فوٹو اختر حفیظ
انگریز دور کی آٹا چکی— فوٹو اختر حفیظ

انگریز دور کا جنریٹر— فوٹو اختر حفیظ
انگریز دور کا جنریٹر— فوٹو اختر حفیظ

آج جہاں پر ڈینی سر کا بنگلہ موجود ہے اس کے عقب میں ہی ایک اور ایسا رہائشی بنگلہ موجود تھا مگر چند سال قبل اسے منہدم کیا گیا اور اب اس کے نشانات بھی باقی نہیں رہے ہیں۔ جب انگریز یہاں پر آئے تو ان کی اہم ترین سواری گھوڑا اور بگھیاں تھیں مگر چند سالوں بعد نبی سر ریلوے اسٹشن قائم ہونے سے ان کا سفر ریل کے ذریعے ہونے لگا۔ لیکن انگریزوں نے اپنی آمد و رفت کو آسان بنانے کے لیے اینٹوں کے چورے سے ایک پکّی سڑک بنوائی تھی جہاں سے کسی عام آدمی کو گزرنے کی اجازت نہیں تھی۔

انگریزوں کے استعمال میں رہنے والے گھوڑے جب بوڑھے ہوجاتے تھے تب انہیں گولی مار دی جاتی تھی۔ ان کے پاس لاتعداد گھوڑے ہوا کرتے تھے۔ جبکہ راجر تھامس کے پاس ایک کار بھی تھی۔ نبی سر اسٹیشن پر اترنے کے بعد راجر تھامس اور گھر کے دیگر افراد اپنے بنگلے پر اسی کار یا بگھیوں سے آتے تھے۔

سرخ اینٹوں والی اس عمارت کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس میں ان تمام باتوں کا خیال رکھا گیا ہے جوکہ ایک بہترین گھر کی تعمیر کے وقت رکھا جاتا ہے۔ کشادہ کمرے، موٹی دیواریں، اونچی چھتیں اور بڑی بڑی کھڑکیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ گھر کی تعمیر کے وقت فطری لوازمات کو ذہن میں رکھا گیا ہے۔

آج بھی کمروں میں ہوا اور روشنی کے لیے روشن دان دکھائی دیتے ہیں۔ ایک کمرے میں آتش دان آج بھی اسی حالت میں موجود ہے، جبکہ اس زمانے میں استعمال کیا گیا فرنیچر آج بھی گھر کی زینت بنا ہوا ہے۔ ایسی کئی یادگار ڈینی سر کے اس بنگلے میں پڑی ہیں جو اس وقت گھر کے افراد سے مانوس تھیں۔ کمروں میں داخل ہوتے ہی ایک ٹھنڈک کا احساس چاروں اطراف سے گھیر لیتا ہے۔

باغ آج بھی نہایت شاندار حالت میں ہے— فوٹو اختر حفیظ
باغ آج بھی نہایت شاندار حالت میں ہے— فوٹو اختر حفیظ

بنگلے کی چھت سے باغ کا منظر— فوٹو اختر حفیظ
بنگلے کی چھت سے باغ کا منظر— فوٹو اختر حفیظ

باغ کا داخلی دروازہ— فوٹو اختر حفیظ
باغ کا داخلی دروازہ— فوٹو اختر حفیظ

بنگلے کا اندرونی منظر— فوٹو اختر حفیظ
بنگلے کا اندرونی منظر— فوٹو اختر حفیظ

بنگلے کا اندرونی منظر— فوٹو اختر حفیظ
بنگلے کا اندرونی منظر— فوٹو اختر حفیظ

میں یہ تو نہیں جانتا کہ اس گھر کی خاموشی کو وہ لوگ سن پاتے ہوں گے یا نہیں جو اسے سنبھال رہے ہیں مگر خاموشی کا احساس آپ کے دل کو موہ لیتا ہے۔ یہ ایک منزلہ عمارت ہے۔ اس گھر کو روشنی تب نصیب ہوئی جب برابر میں لگائی گئی چکی میں ایک جنریٹر نصب کیا گیا۔ جس سے نہ صرف گیہوں کی پسائی ہوتی تھی بلکہ وہاں بجلی تیار ہوکر گھر اور اس پورے علاقے کو روشن کر دیتی تھی۔

نبی سر میں یہ پہلا گھر تھا جہاں بلب روشن ہوئے اور رات کی تاریکی میں بھی جھلملاتی روشنیاں تھیں۔ اسی زمانے میں ان کھنبوں کا بھی بندوبست کیا گیا جن کے ذریعے یہ بجلی گھروں، میدان اور دیگر علاقے میں پہنچتی تھی۔ آج بھی ان کھنبوں کو دیکھا جاسکتا ہے مگر فرق صرف اتنا ہے کہ اب ڈینی سر کے گھر کو روشن کرنے والی بجلی اس چکی سے پیدا نہیں ہوتی۔

گھر کے بالکل ہی برابر میں ایک ٹینس گراونڈ ہے، جہاں پر تفریح کے لیے راجر تھامس کے خاندان کے افراد کھیل کود میں اپنا وقت بتایا کرتے تھے۔ مگر آج اس گراونڈ پر سوکھی گاس کی ایک تہہ سی جم گئی ہے۔

ٹینس گراؤنڈ میں نصب انگریز دور کا بجلی کا کھمبا— فوٹو اختر حفیظ
ٹینس گراؤنڈ میں نصب انگریز دور کا بجلی کا کھمبا— فوٹو اختر حفیظ

یہاں پر مور اور دیگر پرندے بھی رکھے گئے ہیں— فوٹو اختر حفیظ
یہاں پر مور اور دیگر پرندے بھی رکھے گئے ہیں— فوٹو اختر حفیظ

بنگلے کا عقبی حصہ— فوٹو اختر حفیظ
بنگلے کا عقبی حصہ— فوٹو اختر حفیظ

اسٹور روم— فوٹو اختر حفیظ
اسٹور روم— فوٹو اختر حفیظ

ڈینی سر فارم آج بھی دیکھنے لائق جگہ ہے، جہاں پھول، چرند پرند اور درختوں کے سائے ہیں مگر اس گھر میں نہ تو اب ڈینی ہے، نہ بنین اور نہ ہی سر راجر تھامس۔ آج اس خاندان کے اگائے ہوئے درختوں میں سے اکا دکا ہی رہ گئے ہیں۔ سر راجر تھامس نے اس علاقے کو آباد کیا اور اسے سرسبز بنا دیا۔ مگر آج یہ علاقہ پانی کی کمی کی وجہ سے تیزی سے غیر آباد ہوتا جا رہا ہے۔

وہ لوگ جنہوں نے اس علاقے کو گل و گلزار کیا اور کسانوں کو خوشحال رکھا ان کا ناطہ اس زمین سے ہندوستان کی تقسیم کے بعد ٹوٹ گیا۔ آج بس اس اداس اور تنہا بنگلے کو دیکھ کر ڈینی سر کے خاندان کے قصے وہاں کے لوگوں سے سننے کو ملتے ہیں۔


اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں، اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر ریے ہیں۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔