احمد پرویز: مرنے کے 6 ماہ بعد جسے حکومت نے جاپان جانے کی دعوت دی!‎

احمد پرویز: مرنے کے 6 ماہ بعد جسے حکومت نے جاپان جانے کی دعوت دی!‎

حسنین جمال

بہت ہی گڑبڑ ہوگئی، کوئی سرا ہاتھ نہیں آ رہا۔ احمد پرویز کی مصوری اور احمد پرویز کی ذاتی زندگی آپس میں ایسے جڑے ہوئے ہیں کہ انہیں الگ کرنا کسی طریقے سے ممکن نہیں۔ عام طور پر جب کسی شاعر کی شاعری یا ادیب کے ناول افسانے پر گفتگو ہوتی ہے تو اس میں لکھنے والے کی ذات کو ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے۔ بہت کم ایسے کردار دکھائی دیں گے کہ جن کی زندگی اور جن کے فن میں ایک مقابلہ نظر آتا ہو، ایک کشمکش دکھائی دے کہ دونوں میں سے کون آرٹسٹ کو پہلے تباہ کرے گا۔ جیسے ایک رسی کے ٹکڑے کو لیں اور اسے دونوں طرف سے آگ لگا دیں۔ اب وہ ایک دم نہیں جلے گا۔ وہ بھڑکے گا نہیں، وہ سلگتا رہے گا اور وہ رسی راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوتی جائے گی۔ رسی کے دونوں جلتے ہوئے کونوں کا اگر جائزہ لیں گے تو یہ فیصلہ کرنا ممکن نہیں ہوگا کہ ان 2 میں سے پہلے کون اپنے انجام کو پہنچے گا۔ جب وہ جلتے جلتے ایک دوسرے کے پاس پہنچنے لگیں گے اس وقت شاعر مصرع اٹھائے گا، چلیے اب دونوں وقت ملتے ہیں اور وہ رسی ایک سرمئی نقش میں بدل جائے گی۔

ایک انسان کی مجموعی شخصیت کیسی بنتی ہے، اس کے بچپن میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ بعد میں وہی آدمی اگر کوئی فنکار نکل آئے تو لوگ اس کی ابتدائی گھریلو زندگی کو کھوجتے ہیں اور ادھر سے اس کے آئندہ سفر کا کھرا نکالتے ہیں۔ احمد پرویز کے معاملے میں اگر ہم ایسا کوئی قدم اٹھائیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ماں باپ میں علیحدگی ہوچکی تھی۔ ماں نے انہیں اور بہنوں کو ہاسٹل میں داخل کروا دیا تھا۔ اس فارمولے کے تحت عین یہیں سے ان کی بکھری ہوئی زندگی کی شروعات بھی ہوتی ہے۔

آرٹ وغیرہ ان کے باپ دادا میں ہمیں اچھا خاصا دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کے دادا آرکیٹیکٹ تھے۔ وہ ہندو سے مسیحی ہوئے تھے (بعض روایات کے مطابق وہ مسلمان بھی رہے) بہت سے پرانے چرچ اپنی زمینیں دے کر اور خود دلچسپی لیتے ہوئے انہوں نے بنوائے۔ جب دادا کی وفات ہوئی تو احمد پرویز کے والد مسلمان ہوگئے۔ مائیکل پرویز خود 1947ء کے بعد احمد پرویز ہوئے۔

آرٹ کا مذہب نہیں ہوتا، آرٹسٹ عموماً کسی نہ کسی عقیدے کو دماغ میں بسائے رکھتا ہے۔ احمد پرویز کے بارے میں بنیادی باتیں اس لیے کرنا ضروری تھیں کہ آگے جا کر فضا اجنبی سی نہ لگے۔ تو وہ جو ہم پڑھتے ہیں کہ فلاں صاحب نے ابتدائی تعلیم کہاں حاصل کی، وہ والی ابتدائی تعلیم احمد پرویز نے اپنے چچا جے مائیکل کے اسٹوڈیو میں حاصل کی اور یہ 40ء کے آس پاس کا زمانہ تھا۔ وہ کمرشل آرٹسٹ تھے، رائل پارک میں اسٹوڈیو تھا، فلموں کے بورڈ بناتے تھے۔ چچا صاحب کٹر قسم کے روایت پسند مصور تھے اور جدید آرٹ سے انہیں نفرت تھی۔ وہ باقاعدہ زور لگاتے کہ احمد پرویز ان کی لائن پر رہے لیکن احمد پرویز جس کے اندر پہلے ہی کتنی کھینچا تانیاں چل رہی ہوتی تھیں اس پر یہ ایک زور کتنا اثر کرسکتا تھا؟

احمد پرویز نوجوانی کے دور میں.
احمد پرویز نوجوانی کے دور میں.
.احمد پرویز نوجوانی کے دور میں
.احمد پرویز نوجوانی کے دور میں
احمد پرویز نوجوانی کے دور میں.
احمد پرویز نوجوانی کے دور میں.
.احمد پرویز کا ایک روپ
.احمد پرویز کا ایک روپ

احمد پرویز کے بارے میں ان کی بہن، ان کے قریبی دوست، اس زمانے کی ایک آرٹ نقاد اور ان کی اپنی بیٹی یہ رائے رکھتے ہیں کہ وہ ایک شدید قسم کی بدلتی ہوئی طبیعت رکھتے تھے۔ توازن جیسی چیز ان کی زندگی میں دُور دُور تک نظر نہیں آتی۔ کبھی وہ اپنے آپ کو ایسا ایک صوفی ظاہر کرتے کہ جو داڑھی مونچھ رکھنے کا شوقین نہیں ہے اور جسے اچھے سوٹ پہننا پسند ہے اور جسے اگربتیوں کی خوشبو اور سرمے سے نفرت ہے اور جو اپنے آپ کو خدا کے بہت قریب محسوس کرتا ہے، اور کبھی وہ کراچی میں ساحلِ سمندر پر جاکر ہپیوں اور مچھیروں کے ساتھ رہنا شروع کردیتے۔ رات کو سردی لگتی تو اپنے آپ کو ریت میں دفن کرکے جان بچاتے اور سارا دن انہی ہپیوں کے ساتھ انگریزی ادب اور سائنس پر گفتگو ہوتی۔ ایک دن وہ مغل فن مصوری سے شدید متاثر نظر آتے اور بذاتِ خود اس کی علمبرداری کا دعویٰ کرتے اور دوسرے دن ان کی تصویروں میں پال کلی اور ایلن ڈیوی چنگھاڑیں مار رہے ہوتے۔ ویسے یہ پال کلی بڑا خطرناک بندہ تھا۔

بات نکل ہی آئی ہے تو تھوڑی دیر برداشت کریں۔ پال کلی بچپن سے پینٹنگ کررہا تھا لیکن پہلی عالمی جنگ میں شریک ہونے کے بعد اس نے جو کچھ بنانا کرنا شروع کیا وہ کافی زیادہ اثر انگیز تھا۔ ماڈرن پاکستانی آرٹ کی جڑوں میں پال کلی ایسی بُری طرح بیٹھا نظر آئے گا کہ جدھر دیکھیں گے ادھر تُو ہی تُو ہوگا۔

صادقین تک اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے۔ شاکر علی، احمد جلال شمزا اور احمد پرویز پر تو ویسے ہی یہ امپیکٹ کافی زیادہ تھا۔ وہ دراصل ماڈرن آرٹ کے ہر کھاتے میں فٹ بیٹھتا تھا۔ کیا ایکسپریشنزم، کیا کیوبزم، کیا سریلزم، سب کچھ اس کی تصویروں میں تھا۔ پھر جو ایک الگ بات تھی وہ یہ کہ اس کی ہر ایک سنگل تصویر سے تھیم لے کر آپ 35 تصویریں اور نکال سکتے ہیں۔ اسے یوں سمجھ لیجیے کہ فارمز میں، شکل میں، ہئیت میں اس نے جو تجربے کیے وہ بے حساب تھے۔ ایک ایک تصویر میں پورا جہان معنی تھا۔ رنگوں سے ہٹ کر بھی ایک تحیر ہے جو اس کی تصویروں میں سے نکلتا نہیں ہے۔

احمد پرویز کے فن پارے
احمد پرویز کے فن پارے

احمد پرویز کے بارے میں جاننا ہو تو آپ کو بہت زیادہ کتابیں نظر نہیں آتیں۔ 2 کام ہوسکتے ہیں، یا تو 50ء، 60ء اور 70ء کی دہائیوں کے آرٹ والے رسالے ڈھونڈے جائیں، یا پھر ان 3 کتابوں پر اکتفا کیا جائے جن میں سے ایک تو سرکار نے چھاپی تھی، ایک وہاب جعفر اور مارجری حسین کی تھی اور آخری وہ کتاب جس کے چوتھائی حصے میں ایک طویل خاکہ شفیع عقیل نے ان کے بارے میں لکھا تھا۔

پہلی 2 مل گئیں، آخری یار عزیز زاہد کاظمی نے بھجوائی، پڑھنا شروع کیا اور اسی دوران سوشل میڈیا پر ڈھونڈنا شروع کیا کہ ان کی آل اولاد یا دوستوں میں سے کوئی مل جائے اور واقعی ایک انسان مل گیا۔ احمد پرویز نے 3 شادیاں کیں۔ تینوں کامیاب نہ ہوسکیں۔ نوری پرویز ان کی بیٹی ہیں۔ وہ احمد پرویز کی پہلی بیگم سے تھیں۔ جب نوری 5 سال کی تھیں تو احمد پرویز انہیں اور ان کے 3 بھائیوں کو ماں کے پاس چھوڑ کر پاکستان آگئے۔ انسٹاگرام پر بہت سے ہیش ٹیگز سرچ کیے تو نوری پرویز تک رسائی ہوگئی۔ ان سے کچھ رہنمائی کے لیے درخواست کی۔ علم ہوا کہ نوری نے کچھ عرصہ پہلے اپنے باپ کے بارے میں جو مضمون لکھا تھا اور وہ شروع ہی اس طرح ہوتا ہے کہ ’ہی واز اے کمپلیکس کاربوہائیڈریٹ‘۔

تو نوری نے بھی یہی بتایا کہ ایک دن وہ شدید اُداس، ڈپریس، پریشان اور لڑتے جھگڑتے نظر آتے تھے جبکہ دوسرے دن اگر ان کا موڈ اچھا ہو تو ان سے اچھا اور محبتی آدمی کوئی نہیں ہوتا تھا۔ پہلے وہ لوگ لندن کے ایک اچھے بڑے اپارٹمنٹ میں رہتے تھے، احمد پرویز کے ساتھ ان کے دوست، یار، مہمان سبھی وہاں آتے اور انجوائے کرتے۔ ہالی وڈ والے عمر شریف بھی مشہور ہونے سے پہلے احمد پرویز کے دوست تھے اور پھر نوری کے ہی مطابق ایک دن ایسا بھی آیا جب وہ لوگ ایک چھوٹے سے نمی زدہ فلیٹ میں شفٹ ہوگئے۔

نوری، ان کے 3 بھائی اور ان کی والدہ ایک کمرے میں رہا کرتے اور دوسرا واحد کمرہ احمد پرویز کا اسٹوڈیو ہوتا۔ نوری کہتی ہیں اس کی وجہ احمد کی روز بروز بڑھتی ہوئی شراب نوشی تھی۔ پھر ایک دن ایسا بھی آیا جب فرنیچر اور دوسری قیمتی چیزوں کے بکتے بکتے گھر کا پالتو طوطا بھی اسی علت کی نذر ہوگیا۔ نوری اس وقت 4 سال کی تھیں۔ اس وقت ان لوگوں کی سب سے بڑی عیاشی اپنے باپ کے ساتھ پرانے اسٹیم انجن دیکھنے کے لیے پاس والے ایک میوزیم جانا ہوتا تھا (سارے فنکار ٹائپ کنگلے کس قدر ایک جیسے ہوتے ہیں؟ ٹرین، دھواں اڑاتا انجن، پلیٹ فارم۔۔۔)

احمد پرویز
احمد پرویز

باپ بیٹی کا پیار محبت والا بس ایک سین نوری کو یاد ہے جب وہ دونوں اکٹھے کوئی پینٹنگ بنا رہے تھے اور ان کی تصویر کھینچ لی گئی تھی۔ 5 برس کی عمر میں بنی وہ تصویر نوری نے اگلے 50 سال تک سنبھالے رکھی اور پھر ایک دن مارجری حسین والی کتاب نوری کے ہاتھ لگی جس میں احمد پرویز کے یہ الفاظ درج تھے، ’ایک دن نوری اور میں اکٹھے پینٹنگ کر رہے تھے، وہ مجھے حیرانی سے دیکھتی تھی اور میں اس کے بنائے ہوئے بہت سے پھولوں کی تعریف کر رہا تھا۔ نوری کہنے لگی کہ پاپا یہ پھول نہیں ہیں، یہ سب بہت سارے سورج ہیں۔ میری بیٹی کے بنائے ہوئے وہ پھول نما سورج اتنے خوبصورت تھے، ایسے پیارے اور متاثر کن تھے کہ میں ایک منٹ کے لیے تو وہ سب کچھ بھول گیا جو میں نے کبھی ماضی میں سیکھا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ آرٹ وارٹ مجھے اب دوبارہ سیکھنا ہوگا۔ میری پیاری بیٹی نوری میرے اندر کے شاعر کو جگا چکی تھی، میں ایک عجیب رومانوی کیفیت میں تھا‘۔ اس سال احمد پرویز نے 700 سے بھی زیادہ تصویریں بنائیں۔

نوری نے لکھا کہ ’پھر 1964ء کا وہ وقت آگیا جب شراب، جوئے، قرضوں اور دوسری عورتوں سے تعلقات کی وجہ سے احمد کی شادی تباہ ہوگئی۔ وہ لندن میں واقع پاکستانی سفارت خانے میں نوکری کرتے تھے لیکن جو تنخواہ ملتی تھی اس میں ان کا اور فیملی کا گزارا ناممکن تھا۔ ایک دن وہ پی آئی اے کے دفتر گئے۔ اپنی ایک تصویر کے بدلے پاکستان جانے کا ون وے ٹکٹ لیا اور بیوی بچوں کو اس سال کے کرسمس سے بالکل پہلے اکیلا اور تباہ حال چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے چلے گئے۔ بعد میں وہ دوبارہ لندن گئے۔‘

نوری کی ماں سے پاکستان ساتھ جانے کے لیے کہا، لیکن وہ تیار نہ ہوئیں، یوں طلاق ہوگئی اور بچے عدالت نے ماں کو سونپ دیے۔ آگے کی زندگی میں بدنصیب باپ نے بیٹی کو بہت سے خط لکھے لیکن موت نے مصور کو زیادہ وقت نہیں دیا۔ نوری کہتی ہیں ’بہت عرصہ بعد انہیں احساس ہوا کہ شاید یہ سب ہونے کی وجہ ایک اور بھی ہوسکتی ہے۔‘

احمد پرویز اپنی بیٹی کے ہمراہ
احمد پرویز اپنی بیٹی کے ہمراہ

احمد پرویز اور رانی (نوری کی والدہ) دونوں کو ان کے ماں باپ نے اکیلے رہنے کی عادت ڈالی تھی۔ دونوں ان جوڑوں کی اولاد تھے جو علیحدہ ہوچکے تھے، لیکن اگر احمد پرویز کی زندگی ایسی مشکل نہ ہوتی اور وہ ’نارمل‘ ہوتے تو شاید وہ ایسی پیچیدہ اور شاندار تصویریں نہ بناسکتے۔ ان کے فن پر گفتگو کرنا ان کی مشکل ترین زندگی کا ذکر کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔ زندگی تو جیسے تیسے گزر گئی مگر وہ اندر کی بے چینی، طوفان، بے آرامی، خوبصورتی اور ساری کنفیوژن ان کی بنائی تصویروں میں ہمیشہ کے لیے نقش ہوچکی ہے۔ نوری پرویز جو ایک فوٹو گرافر، انٹیک کلکٹر اور بہت کچھ ہیں، ان کا بیان یہاں ختم ہوتا ہے۔

ادھر کچھ بات کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ تمام ماں باپ سے گزارش ہے کہ اگر لڑکا یا لڑکی آرٹسٹ ہو تو اپنی اولاد کا رشتہ مت کریں۔ اس وقت تک نہ کریں جب تک آپ کے اپنے گھر میں وہ سب کچھ برابر کی مقدار میں نہ پایا جاتا ہو۔ ایک انسان اگر وہ شاعر ہے، ادیب ہے، مصور ہے، اداکار ہے، ڈانسر ہے، تھیٹر ایکٹر ہے، مجسمے بناتا ہے، ڈیزائنر ہے، کوئی بھی فن سمجھتا ہے اور دیکھنے میں بھی اس کے اندر فنکارانہ کجی نظر آتی ہے تو ہاتھ جوڑ کے التماس ہے کہ بابا اس کے رشتے (یا اس سے رشتہ کرنے) کا تب تک نہ سوچیں جب تک وہ خود اور سامنے والا پارٹنر دل و جان سے اپنی زندگی ایسے کسی بندھن کے حوالے نہیں کرنا چاہتے۔

دیکھیں ایک فنکار نارمل آدمی ویسے بھی نہیں ہوتا۔ وہ شراب نوش ہوسکتا ہے، وہ چرسی ہوسکتا ہے، اسے دنیا کی ہر بُرائی پسند ہوسکتی ہے، وہ بہت بڑا فلرٹ ہوسکتا ہے، وہ جسمانی مشقت کبھی پسند نہیں کرتا، وہ بالکل عیاش طبیعت کا ہوتا ہے، وہ شدید موڈی ہوتا ہے، وہ دماغی طور پر غائب رہتا ہے، وہ اس وقت باتیں کرتا ہے جب اس کی مرضی ہو ورنہ نہیں کرتا، وہ خود غرض ہوتا ہے، وہ روپیہ پیسہ نہ کما سکتا ہے نہ سنبھال سکتا ہے، اس کے لیے قیمتی چیزیں وہ ہوتی ہیں جنہیں عام آدمی کوڑا سمجھتا ہے، قسم بہ خدا وہ بالکل کریک پاٹ ہوتا ہے، وہ لڑکا بھی ہوسکتا ہے، وہ کوئی لڑکی بھی ہوسکتی ہے اور وہ کوئی ٹرانس جینڈر بھی ہوسکتا ہے۔

تو بھائی، ایسے بچوں کے رشتے کرنے سے پہلے ایک ہزار ایک دفعہ سوچ لیں! یہ خیال بھی دماغ سے نکال دیں کہ شادی کے بعد سب ٹھیک ہوجائے گا۔ شادی کے بعد ٹھیک کچھ نہیں ہوگا صرف رشتے کرنے اور کروانے والوں کے دماغ ٹھیک ہوجائیں گے۔ توازن، بیلنس، سلیقہ، صراط مستقیمیت، پاکبازی، روایتی اچھائیاں اور دوسرا بہت کچھ چھوٹے موٹے فانی آرٹسٹوں میں عام طور پر نہیں ہوتا۔ یہ ہو تو پھر وہ نہیں ہوتا جسے شدت کہتے ہیں اور جس کی تپش میں جل کر کوئی لافانی کام ہوتا ہے۔

محبوب خزاں نے کہا تھا، بات یہ ہے کہ آدمی شاعر، یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ تو بس صبر کریں اور ایسے بچے گھر میں ہونے کی صورت میں گزارا مزارا کریں۔ اس ساری کہانی میں کچھ بھی حرفِ آخر نہیں ہے۔ بس وہی شدت جو 3 ناکام شادیوں والے وان گوف میں تھی اور وہی بے چینی ہے جو 3 ناکام شادیوں والے احمد پرویز میں تھی۔ وہ احمد پرویز جسے مغربی نقاد پکاسو کا ہم پلہ سمجھتے تھے، اس کی زندگی بھی کیوبیک اور ایبسٹریکٹ تھی۔

لندن میں ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب احمد پرویز اپنی ناکامی پر جھلا کر ساری تصویریں اور کینوس پھاڑ بیٹھے تھے۔ دیکھنے والے دیکھتے تھے کہ سڑکوں پر ایک پاگل مصور گلے میں بہت سی پھٹی ہوئی تصویریں لٹکائے گھوم رہا ہے۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ شفیع عقیل کے مطابق جتنی مغربی نقادوں نے ان کے فن پر بات کی اتنی توجہ ان سے پہلے صرف عبدالرحمن چغتائی کو ملی تھی۔ انتہائی ناکامی اور شدید کامیابی دیکھنے کے باوجود احمد پرویز کوئی لگی بندھی اسٹیبلشڈ زندگی نہیں گزار سکے۔ ساری زندگی رل کھل کے یا لوگوں کے گھروں میں گزار دینے والے احمد پرویز نے مرنے سے ایک سال پہلے کرائے پر ایک فلیٹ لیا، اسے سجایا بنایا، وہاں اپنی تصویروں کی نمائش بھی منعقد کی، یہ بھی چاہا کہ اسے آباد کیا جائے لیکن 53 سال کی عمر میں احمد پرویز مرچکے تھے۔

وہ روایتی فریم میں کبھی فٹ ہی نہیں ہوئے تھے۔ 1978ء میں (مرنے سے ایک سال پہلے) پرائیڈ آف پرفارمنس ملنے کے بعد بھی جوش و جذبے سے وہ تصویروں پر تصویریں ضرور بناتے تھے لیکن بیچنا ساری عمر انہیں آ ہی نہیں سکا۔ 500 روپے میں اور کبھی کبھار صرف ایک شراب کی بوتل کے عوض جاننے والے ان کی تصویریں لے جاتے تھے۔ جس بندے کے پاس جیب میں کل 15 روپے ہوں، 5 کا وہ سگریٹ خریدے اور وضع داری کے مارے 10 روپے ایک دوست کے گھر سے نکلتے ہوئے اس کے بچوں کو دے کر 20 کلومیٹر واپسی میں پیدل آئے، وہ کیا پیسے جمع کرے گا اور کیا اس کا فلیٹ/گھر ہوگا اور کون بیوی اس کے ساتھ رہے گی اور کون سے یار دوست اسے موالی چرسی کہنے کے بجائے اسے سر آنکھوں پر بٹھائیں گے؟

احمد پرویز اپنی اہلیہ کے ہمراہ
احمد پرویز اپنی اہلیہ کے ہمراہ

احمد پرویز اور بچے
احمد پرویز اور بچے

احمد پرویز کی جاپانی بیوی ریکو بھی اسی بوہیمین پنے کی وجہ سے انہیں بہت جلد چھوڑ گئیں۔ احمد چاہتے تھے کہ وہ ان کے ساتھ پاکستان میں رہیں جب کہ ریکو امریکا رہنا چاہتی تھیں۔ ان کی تیسری بیوی فوج سے تھیں، عقیدے کے لحاظ سے مسیحی تھیں اور احمد کی کزن بھی تھیں۔ اب یہ شادی لوگوں نے نہیں چلنے دی۔ کچھ معاملات مسلکی فقہ کے تھے اور کچھ دوسرے حالات ایسے بنے کہ بہت جلد گھر بسانے کی یہ آخری کوشش بھی احمد پرویز کو ختم کرنا پڑی۔

3 دستخط، 3 بیویاں اور ان گنت ٹھکانے بدلنے والے احمد پرویز کی زندگی میں صرف مصوری مستقل طور پر جڑی رہی تھی لیکن مصوری اندر کا چڑچڑا پن اور بے ترتیبی باہر تو لاسکتی ہے اسے کم نہیں کرسکتی۔ چیختا چنگھاڑتا لال رنگ، چبھتا ہوا شوخ پیلا، اداس قسم کا نیلا اور نشیلا جامنی رنگ جس خوبی سے بنیادی کالے کے اردگرد بکھرتا ہے، وہ بے نیازی وہ بے ترتیبی احمد پرویز کے گلدانوں، پھولوں اور تکونوں یا غیر تکونوں کی جان ہے۔ احمد پرویز کی 400 تصویریں ایک ساتھ رکھ دیں۔ 100 یا 200 بالکل ایک جیسی لگیں گی۔ جب پاس جا کر دیکھیں گے تو ایک ہی مضمون ہزار رنگ میں بندھا ہوگا، سب تصویریں الگ دکھیں گی، بس یہ صفت ہے ان کی پینٹنگ میں۔ احمد پرویز کے رنگ دیکھنے ہوں تو وہاب جعفر کی تصاویر میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ صحیح معنوں میں ان کے شاگرد وہی تھے۔

لاہور آرٹ سرکل کے نام سے معین نجمی، انور جلال شمزا اور قطب شیخ کے ساتھ پاکستانی مصوری میں پہلی ماڈرن آرٹ کی نمائش کے بعد یہ سب لوگ وقتاً فوقتاً باہر جاتے رہے، نمائشیں کیں لیکن جو کامیابی اور جو تعریفیں احمد پرویز کے حصے میں آئیں وہ کم ہی شاید کسی کو ملی ہوں گی۔

مصوری میں کامیابی 2 چیزوں سے مل سکتی ہے، یا تو کوئی بہت ہی آؤٹ آف دی باکس قسم کی چیز ہو اور یا پھر قسمت اچھی ہو، فن کے معاملے میں دونوں چیزیں احمد پرویز کے پاس کھل کر موجود تھیں۔ جو چیز احمد کے پاس نہیں تھی وہ گھر کا سکون تھا، وہ جمی ہوئی زندگی تھی، وہ اپنے بچے تھے، وہ اپنا ذاتی گھر تھا۔ سرکاری سرپرستی سمیت ان سب چیزوں سے احمد پرویز محروم تھے۔ حکومتِ پاکستان اور کارپوریٹ شعبے میں جیسے چاہنے والے چغتائی کو ملے، گل جی کو ملے وہ توجہ، وہ وسائل وہ مواقع احمد پرویز کو نہیں مل سکے۔ مرنے کے 6 ماہ بعد پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کی طرف سے ایک خط آیا جس میں احمد پرویز کو جاپان میں تصویروں کی نمائش منعقد کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ لطف کی بات تو یہ تھی کہ جو مہربان اس وقت ادارے کے سربراہ تھے وہ بھی ملک کے ایک معروف مصور تھے۔

مرنے کے 6 ماہ بعد پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کی طرف سے ایک خط آیا جس میں احمد پرویز کو جاپان میں تصویروں کی نمائش منعقد کرنے کی دعوت دی گئی تھی
مرنے کے 6 ماہ بعد پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کی طرف سے ایک خط آیا جس میں احمد پرویز کو جاپان میں تصویروں کی نمائش منعقد کرنے کی دعوت دی گئی تھی

سوچیے کہ ایک بچی کا باپ اسے 5 سال کی عمر میں چھوڑ کر جائے اور اس کے پاس باپ سے متعلق صرف وہ یادیں ہوں جو ماں نے ذہن نشین کروائی ہوں یا چند گنے چنے ایسے واقعے ہوں جو اسے خود یاد رہ گئے ہوں تو وہ بچی، وہ کیسی بدقسمت بیٹی ہوگی؟ جس بچی کے پاس باپ سے رابطے کے لیے نہ موبائل ہو، نہ انسٹاگرام ہو، نہ فیس بک نہ کوئی ای میل، اس بچی کے ذہن میں باپ کا تصور کیا ہوگا؟ اور جس نے باپ کی زیادہ تر فوٹوگرافس دیکھی ہی بلیک اینڈ وائٹ ہوں؟ تو نوری نے شاید اسی لیے کیمرے سے دوستی کی اور ساری عمر نبھائی۔ ان سے رابطہ ہونے کے بعد جب احمد پرویز سے متعلق چند چیزیں اور ان کی کچھ تصویریں نوری کو ای میل کی گئیں تو ایک رنگین تصویر پر ان کا ردِعمل یہ تھا، ’تھینک یو، میں نے پہلے یہ نہیں دیکھی تھی‘۔ یہ کلر فوٹوگراف لازماً ان کی موت سے تھوڑا پہلے کی ہوگی؟ وہ کتنے کمزور لگ رہے ہیں! میرا خیال ہے وہ اپنی عمر کی پانچویں دہائی کے ابتدائی حصے میں فوت ہوگئے تھے لیکن اس تصویر میں تو 70 سال سے بھی زیادہ کے لگ رہے ہیں!‘

حکومت پاکستان نے انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا
حکومت پاکستان نے انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا

5 سال کی عمر میں چھوڑے جانے کے بعد اور ساری عمر باپ کی شفقت سے محروم رہنے کے باوجود یہ سطریں ایک بیٹی ہی لکھ سکتی ہے۔

رات کے 3 بج رہے ہیں۔ اتنا پڑھ کر اور اتنا ڈوب کر اور خود پر اتنا طاری کرنے کے بعد آج تک کوئی بلاگ/کالم نہیں لکھا۔ کچھ عجیب سا موڈ ہے، بے چینی ہے، بہت کچھ کہنے سے رہ گیا ہے لیکن ایک کامیاب مصور کی ناکام زندگی پہ کتنا کچھ کہا جا سکتا ہے؟


حسنین جمال ادب، مصوری، رقص، باغبانی، فوٹوگرافی، موسیقی اور انٹیکس میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ایک قومی اخبار کے مستقل کالم نویس ہیں۔ رسائل کے لیے لکھتے ہیں۔ بلاگنگ کی دنیا میں پچھلے چار پانچ سال سے موجود ہیں۔ فیس بک پر آپ انہیں یہاں فالو کرسکتے ہیں۔