آئیکیا میوزیم: ‘خواب دیکھنے والے اسے دیکھ کر حوصلہ پاسکتے ہیں’

سویڈن کے جھنڈے کا رنگ لیے آئیکیا دنیا کے 150 سے زائد ممالک میں اپنا وجود رکھتا ہے۔ 4 سال پہلے اس میں کام کرنے والوں کی تعداد 2 لاکھ سے زائد تھی۔ اس آئیکیا کا آغاز جنوبی سویڈن کے ایک چھوٹے سے قصبے سے ہوا تھا۔

گزشتہ دنوں ہم نے مالمو سے آئیکیا میوزیم جانے کا قصد کیا۔ پونے 2 گھنٹے کا یہ سفر آپ کو چھوٹے چھوٹے قصبوں سے گزار کر اس شہر میں لے آتا ہے۔ یہ میوزیم دراصل آئیکیا کا سب سے پہلا اسٹور تھا جسے 2016ء کے بعد آئیکیا نے اپنی کہانی کہنے کے لیے ایک میوزیم کا درجہ دیا۔

آئیکیا کی کہانی اس کے بانی انگوار کمپراڈ (Ingvar Kamprad) کے گرد گھومتی ہے اور آئیکیا کا نام بھی اس کے بانی کے نام کے پہلے حروف، اس کے فارم ایلمٹاریڈ (Elmtaryd) جس پر اس کا بچپن گزرا اور اس کے گاؤں ایگناریڈ (Agunnaryd) کے نام سے بنا ہے۔

آپ میوزیم میں داخل ہوں تو ٹکٹ کاؤنٹر کے تقریباً پیچھے انگوار کی ایک بڑی سے پینٹنگ نظر آتی ہے۔ بظاہر پینٹنگ نظر آنے والی یہ تصویر آئیکیا میں کام کرنے والے ہزاروں ملازمین کی تصاویر سے بنائی گئی ہے۔

  میوزیم کی عمارت— تصویر: رمضان رفیق
میوزیم کی عمارت— تصویر: رمضان رفیق

  میوزیم کا داخلی راستہ— تصویر: رمضان رفیق
میوزیم کا داخلی راستہ— تصویر: رمضان رفیق

  آئیکیا کے بانی کی تصویر جو آئیکیا میں کام کرنے والے ہزاروں ملازمین کی تصاویر سے بنائی گئی ہے— تصویر: رمضان رفیق
آئیکیا کے بانی کی تصویر جو آئیکیا میں کام کرنے والے ہزاروں ملازمین کی تصاویر سے بنائی گئی ہے— تصویر: رمضان رفیق

میوزیم میں داخلے کے لیے 50، 60 کرون (مقامی کرنسی) کے لگ بھگ داخلہ فیس ہے۔ آپ اسے ادا کرنے کے بعد ایک بڑے ہال نما ایریا میں داخل ہوتے ہیں جو 3 منزلوں میں بٹا ہوا ہے۔ ہال نمبر ایک زیریں منزل پر ہے جس میں اس وقت ہاگبرگ اینڈ ہاگبرگ نامی ڈیزائنر کی بنی ہوئی اشیا کی نمائش لگی ہوئی تھی۔ یہ مقامی ڈیزائنر ہیں جنہوں نے آئیکیا کی 2 ہزار سے زائد مصنوعات کو ڈیزائن کیا۔ ان کے چند خاص فن پاروں کو نمائش کے لیے رکھا گیا تھا اور ساتھ میں ان کے بچپن اور تعلیم سے متعلق معلومات دی گئی تھیں۔ یہاں پر آپ ان کے 2 دہائیوں میں ہونے والے کام اور ارتقا کا بخوبی جائزہ لے سکتے ہیں۔

1980ء کے عشرے میں بنائے گئے کچن پیپر کے اسٹینڈ جو آج بھی آئیکیا کی ایک کامیاب پراڈکٹ ہے، ان کو اس حصے میں دیکھ کر ایک خوشگوار حیرت ہوئی کہ سادگی اور عمل کا ایک خوبصورت نمونہ ہے جسے آئیکیا جیسے ادارے نے ایک تسلسل دے دیا ہے۔ اسی طرح 1990ء کے عشرے میں بنی ہوئی اشیا وقت کے رنگوں کو اپنے ساتھ لیے ہوئے محسوس ہوتی ہیں۔

  میوزیم کا اندرونی منظر— تصویر: رمضان رفیق
میوزیم کا اندرونی منظر— تصویر: رمضان رفیق

  میوزیم میں لگی نمائش— تصویر: رمضان رفیق
میوزیم میں لگی نمائش— تصویر: رمضان رفیق

  میوزیم میں لگی نمائش— تصویر: رمضان رفیق
میوزیم میں لگی نمائش— تصویر: رمضان رفیق

      نمائش میں رکھا ہوا کرسی کا ایک پرانا ڈیزائن— تصویر: رمضان رفیق
نمائش میں رکھا ہوا کرسی کا ایک پرانا ڈیزائن— تصویر: رمضان رفیق

پہلی منزل پر ایک جگہ چند اسٹینڈز کی مدد سے آئیکیا مصنوعات سے متعلق عوامی رائے پوچھی گئی ہے جیسے کیا آپ ایک ایسے گلاس میں پینا پسند کریں گے جو سرامک کے بجائے ری سائیکل شدہ مٹیریل سے بنا ہوا ہو اور اس سوال کے جواب میں 427 لوگوں نے اطمینان کا اظہار کیا ہوا تھا اور 227 لوگ اس سے ناخوش تھے۔

جگہ جگہ اس ہال کی دیواروں پر آئیکیا کا فلسفہ لکھا گیا ہے جیسے کہ آئیکیا شہرکاری کے اس دور میں ایسی مصنوعات بنانے پر یقین رکھتا ہے جو شہری ماحول کے مطابق کم جگہ گھیرتی ہوں اور آرام دہ بھی ہوں۔

  یہاں آئیکیا مصنوعات کے حوالے سے عوامی رائے بھی پوچھی جاتی ہے— تصویر: رمضان رفیق
یہاں آئیکیا مصنوعات کے حوالے سے عوامی رائے بھی پوچھی جاتی ہے— تصویر: رمضان رفیق

  اس جیسے بٹن کی مدد سے آپ مصنوعات سے متعلق رائے دے سکتے ہیں— تصویر: رمضان رفیق
اس جیسے بٹن کی مدد سے آپ مصنوعات سے متعلق رائے دے سکتے ہیں— تصویر: رمضان رفیق

اسی منزل پر آپ کو آئیکیا کے بانی انگوار کی کہانی پڑھنے اور سننے کا موقع بھی ملتا ہے، جیسے اس کے لمبے سفر کی داستان کہ کیسے اس نے بذریعہ پوسٹ پیغامات بھیج کر لوگوں کو فرنیچر فروخت کرنے سے آغاز کیا، پھر وہ ٹریڈ شوز میں جانے لگا۔ اس کو فرنیچر گاہک تک پہنچانے میں مشکلات کا سامنا تھا اور کئی بار فرنیچر راستے میں ہی ٹوٹ جاتا تھا۔ یوں اس کے ذہن میں اس طرز کے فرنیچر کا خیال آیا جسے لوگ خود ہی جوڑ سکیں اور جس کو گاہک تک پہنچانا آسان ہو۔

  پہلے آئیکیا اسٹور کے افتتاح کی تصویر— تصویر: رمضان رفیق
پہلے آئیکیا اسٹور کے افتتاح کی تصویر— تصویر: رمضان رفیق

  آئیکیا کا موٹو— تصویر: رمضان رفیق
آئیکیا کا موٹو— تصویر: رمضان رفیق

اس گاؤں کے ماحول سے دنیا بھر تک پہنچنے کی کہانی زیادہ پرانی نہیں۔ 2018ء تک تو اس کا بانی حیات تھا۔ دیکھتے ہی دیکتھے اتنی بڑی مملکت کھڑی کردینا دنیا کے لیے باعثِ حیرانی تھا۔ اس حیرانی کا اظہار انگوار کی بیوی بھی کرتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جب وہ ملے تو انگوار صرف ایک اسٹور کا مالک تھا، وہ کسی اسٹور کو دیکھنے یا افتتاح کرنے نہیں گئی اور اب وہ جب دیکھتی ہے کہ یہ سب کچھ اس کے شوہر نے کیا ہے تو اسے حیرانی ہوتی ہے۔

یہاں پر ایک چھوٹا سا کمرہ ہے جسے ایک منی سنیما گھر بھی کہا جاسکتا ہے۔ یہاں 8 منٹ کی ایک فلم دکھائی جاتی ہے جو آئیکیا کی کہانی کو بیان کرتی ہے اور یہ فلم سارا دن دہرائی جاتی ہے۔ اسی منزل پر ایک پورا حصہ آئیکیا میگزین کے لیے وقف کیا گیا ہے۔ اس میگزین کے آغاز سے لے کر اب تک کے سفر کے سرورق اور خاکے یہاں دکھائے گئے ہیں۔ یہاں پر ایک کمرہ ایسا بنایا گیا ہے جہاں آپ آئیکیا کے سرورق کے لیے اپنے انداز میں ایک تصویر کھنچوا سکتے ہیں۔ آپ یہ تصویر خود کو ای میل کرسکتے ہیں یا پرنٹ بھی کرسکتے ہیں۔

  انگوار کی بیوی کے خیالات— تصویر: رمضان رفیق
انگوار کی بیوی کے خیالات— تصویر: رمضان رفیق

  ایک سادہ سی پراڈکٹ جو اب ہر گھر کا حصہ ہے، یہ کھڑے ہوکر جوتا پہننے میں مدد کرتی ہے— تصویر: رمضان رفیق
ایک سادہ سی پراڈکٹ جو اب ہر گھر کا حصہ ہے، یہ کھڑے ہوکر جوتا پہننے میں مدد کرتی ہے— تصویر: رمضان رفیق

  کپڑے سکھانے کے لیے استعمال ہونے والی ایک پراڈکٹ— تصویر: رمضان رفیق
کپڑے سکھانے کے لیے استعمال ہونے والی ایک پراڈکٹ— تصویر: رمضان رفیق

  ان ڈبوں میں اشیا زیادہ عرصے تک محفوظ رہتی ہیں— تصویر: رمضان رفیق
ان ڈبوں میں اشیا زیادہ عرصے تک محفوظ رہتی ہیں— تصویر: رمضان رفیق

ٹؤر کا اختتام آئیکیا میوزیم کی کنٹین پر کیا گیا جہاں سالمن مچھلی اور آلو کا بھرتا ہماری پلیٹ کی زینت بنا۔ اس مختصر سے ٹؤر کے دوران اور اس میوزیم کو دیکھ کر میں 2 طرح کے خیالات میں گھرا رہا۔ آپ کسی بھی آئیکیا چلے جائیں، اس کا سائز، سامان، ترتیب اور رنگ اس میوزیم سے کہیں بڑھ کر ہوتے ہیں، اس لیے یہ میوزیم اس طرح سے متاثر کرنے سے قاصر تھا لیکن یہ اتنی بڑی مملکت بنانے والا ابھی کل کی بات ہی ہے جب حیات تھا اور اس نے دیکھتے ہی دیکھتے 150 سے زائد ممالک تک اپنی مصنوعات کو نہ صرف پہنچایا بلکہ کامیاب کردیا۔

یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے جادوگر آپ کی آنکھوں کے سامنے ایک خالی کٹوری سے کبوتر برآمد کرلے، ان چھوٹے سے ہال نما کمروں، اس چھوٹی سی عمارت اور دُور دراز کے اس گاؤں نما شہر میں کچھ بھی نہیں ہے، لیکن یہاں انہی گلیوں سے دنیا کے نقشے پر نشان چھوڑنے والے ایک بڑے برانڈ کی ابتدا ہوئی، یہ حقیقت اپنے آپ میں متاثر کن ہے۔

  آئیکیا کی بنائی ہوئی کراکری— تصویر: رمضان رفیق
آئیکیا کی بنائی ہوئی کراکری— تصویر: رمضان رفیق

  رنگ برنگے پین— تصویر: رمضان رفیق
رنگ برنگے پین— تصویر: رمضان رفیق

  میوزیم میں موجود ایک کمرہ— تصویر: رمضان رفیق
میوزیم میں موجود ایک کمرہ— تصویر: رمضان رفیق

خواب دیکھنے والے اس جگہ کو دیکھ کر حوصلہ پاسکتے ہیں کہ جذبے صادق ہوں تو چھوٹے قصبوں سے تعلق رکاوٹ نہیں بنتے، آپ کی کوشش اور کاوش ہی آپ کے خواب کی تصویر میں رنگ بھرتی ہے۔