عورت کی حکمرانی

اپ ڈیٹ 09 دسمبر 2015
ایوب خان (دائیں)، فاطمہ جناح (بائیں) – فوٹو — وائٹ سٹار
ایوب خان (دائیں)، فاطمہ جناح (بائیں) – فوٹو — وائٹ سٹار

منور حسن اور مولانا فصل الرحمن کے بیانات کے بعد اک پرانا قصہ یاد آگیا جو ہمارے مذہبی سیاستدانوں کی گرتی ہوی ”ساکھ” کو سمجھنے میں مدد دے گا.

مذہب کو سیاست کے طابع رہنا چاہیے یا سیاست کو مذہب کے طابع ہونا چاہیے یا پھر ان انتہاؤں کے بجائے درمیانہ راستہ اپنانا چاہیے؟

یہ بحث عرصہ دراز سے جاری ہے، اسی حوالے سے یہاں میں پاکستانی سیاسی تاریخ کے دو اہم واقعات کا تزکرہ کرنا چاہتا ہوں کہ جب دو اہم مذہبی سیاسی جماعتوں نے ایک ہی مسئلہ پر مختلف ادوار میں سیاسی ترجیحات کے تحت مذہب کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے دو مختلف طریقوں سے استعمال کیا۔

یہ مسئلہ تھا “عورت کی حکمرانی” کہ جس پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے مگر یہ مسئلہ بہت ٹیڑھا ہے، دفتروں کے دفتر لکھے جا چکے ہیں مگر یہ ٹیڑھا کا ٹیڑھا ہی ہے کیونکہ اس کی بنیادیں مذہب سے زیادہ “منفی سماجی روایات” میں گڑی ہوئی ہیں۔

یہ روایات صرف غیرپڑھے لکھے یا دیہاتی لوگوں تک محدود نہیں بلکہ پڑھے لکھے شہریوں میں بھی بدستور موجود ہیں کیونکہ ہماری(oversimplistic) ٹیکسٹ بکس بھی “عورت کو کمزور و کمتر” سمجھنے ہی کا درس دیتی ہیں۔

محترمہ فاطمہ جناح اور محترمہ بینظیر بھٹو کا شمار ہماری تاریخ کی دو اہم سیاسی شخصیات میں ہوتا ہے۔ فاطمہ جناح ویسے تو سیاست اور سیاست دانوں سے لاتعلق اور بیزار رہتی تھیں جس کا کا ثبوت مشہور کشمیری رہنما اور قائداعظم کے پرائیویٹ سیکرٹری کے ایچ خورشید کی بیگم محترمہ ثریا کے ایچ خورشید کی ڈائری “محترمہ فاطمہ جناح کے شب و روز” ہے۔

بیگم صاحبہ کو محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ رہنے کا موقع 1950 کی دہائی میں ملا تھا۔ پھر کرنا خدا کا ایسا ہوا کہ 1960 کی دہائی کے پہلے نصف میں اپوزیشن والوں نے محترمہ فاتمہ جناح کو گھیر گھار کے اپوزیشن لیڈر بنا ڈالا۔ 1964 کے صدارتی انتخابات میں ان کا مقابلہ فیلڈ مارشل ایوب خان سے تھا جو اکتوبر 1958 سے بزور مارشل لاء تخت شاہی پر براجمان تھے۔

یہ وہ وقت تھا جب جمعیت علماء اسلام اور ایوب خان میں بوجوہ دیرینہ تعلقات تھے جبکہ جماعت اسلامی، کراچی گروپ کے زیراثر، ایوب خان کی بدترین مخالف تھی۔ ابھی پنجاب یونیورسٹی کا ٹھیکہ جماعت اسلامی کو نہیں ملا تھا کیونکہ یہ ٹھیکہ تو انھیں 1965 کے بعد ہندوستان-پاکستان سرد جنگ کے ‘طفیل’ نصیب ہوا۔

جمعیت علماءاسلام کے دانشوروں نے ایوب خانی دانشوروں سے مل کر یہ بحث چلائی کہ اسلام میں عورت کی حکمرانی جائز ہے یا نہیں؟ اس بات کا جواب نفی میں دے کر انہوں نے فاطمہ جناح کو مذہبی سطح پر ناک آﺅٹ کرنے کی مہم تیز کردی۔

مقابلے میں جماعت اسلامی تھی جسے ایوب خان کے بغض میں فاطمہ جناح کو قبول کرنا پڑا تھا۔ اس مذہبی جماعت نے بھی اسلامی حوالوں کے انبار لگا دئیے۔ یوں دونوں طرف سے مذہب یعنی اسلام کو سیاست میں استعمال کیا گیا۔

خیر فاطمہ جناح ہار گئیں اور عورت کی حکمرانی والی بحث کو بھی موخر کر دیا گیا۔

ٹھیک 24 سال بعد پاکستانی سیاست میں ایک دفعہ پھر “عورت کی حکمرانی” کا شوشہ چھوڑا گیا۔ یہ 1988 کی بات ہے کہ جب محترمہ بے نظیر بھٹو کے 10 اپریل 1986 کے “لہوری” استقبال کے بعد حکمرانوں کے لیے اس طوفان کو روکنا پہلی ترجیح قرار پایا تھا۔

ایک دفعہ پھر میدان کارزار “عورت کی حکمرانی” کے حق و مخالفت میں سجایا جانے لگا۔ اسلامی و تاریخی حوالوں کے انبار لگنے لگے۔ اس دفعہ جو صفیں ترتیب دی گئیں تو جماعت اسلامی بوجوہ “عورت کی حکمرانی” کے مخالف کیمپ میں تھی جبکہ جمعیت علماۓ اسلام اس کیمپ میں تھی جو عورت کی حکمرانی کے حق میں دلائل دے رہا تھا۔ بس پھر وہ رن پڑا کہ دنیا نے دیکھا۔ ان دونوں ‘جنگوں’ میں صرف مذہبی دانشور ہی شریک نہیں تھے بلکہ سیکولر اور لبرل افراد نے بھی بقدر جثہ حصہ لیا۔

ان دونوں سیاسی جنگوں میں فتح بظاہر جمعیت علماۓ اسلام کو نصیب ہوئی۔ 1964 میں انہوں نے ایک عورت (فاطمہ جناح) کو حکمران نہیں بننے دیا اور 1988 میں انہوں نے ایک دوسری عورت (بے نظیر بھٹو) کو وزیراعظم بنوانے میں بھرپور مدد فراہم کی۔

جے یو آئی راج نیتی میں زیادہ بہتر کھلاڑی تو ثابت ہوئی مگر اس سیاست کا مذہبی ذہنیت پر بالخصوص اور پاکستانیوں پر بالعموم کوئی اچھا اثر نہیں پڑا۔ انہیں لگا کہ اگر سیاست اور اقتدار کا حصول ہی مطمح نظر ہے تو پھر ‘عوامی’ سیاسی جماعتیں ہی زیادہ بہتر ہیں جو کم از کم مذہب کو اپنے مقاصد کے لیے تو استعمال نہیں کرتیں۔

دیگر مسلم مکاتب فکر کی بنائی ہوئی مذہبی سیاسی جماعتوں میں بھی ایسے ہی تضادات کا بھنڈار لوگوں کو صاف نظرآتا ہے جس کی وجہ سے پاکستانیوں نے ان تمام مذہبی سیاسی جماعتوں کو کسی بھی الیکشن میں ووٹ نہیں دیے۔

عام پاکستانی مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف جیسی جماعتوں کو کم از کم مذہبی سیاسی جماعتوں کے مقابلہ میں زیادہ موثر سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 2013 کے انتخابات میں بھی لوگوں نے بالعموم مذہبی سیاسی جماعتوں کو کسی بھی صوبہ میں ووٹوں کی اکثریت سے نہیں نوازا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں