'تمام مذاہب کی بے حرمتی پر توہینِ مذہب کا قانون لاگو'

13 مئ 2014
چیف جسٹس آف پاکستان تصدق حسین جیلانی۔ فائل فوٹو
چیف جسٹس آف پاکستان تصدق حسین جیلانی۔ فائل فوٹو

اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان تصدق حسین جیلانی نے کہا ہے کہ پاکستان پینل کوڈ کے آرٹیکل 295 کے تحت کسی بھی مذہب پر حملہ، توہین یا بے حرمتی پر بھی توہین مذہب کے قانون کا اطلاق ہوتا ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پشاور میں چرچ پر کیے گئے حملے اور اقلیتوں کے انسانی حقوق پر لیے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے موقع پر کیا۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے منیر اے ملک، خواجہ حارث اور حسن اورنگزیب کو مقدمے میں عدالت کی معاونت پر مقرر کرنے کا اعلان کیا جو بلا معاوضہ مقدمے میں عدالت کی رہنمائی کریں گے۔

انہوں نے اقلیتوں کے نمائندوں کو ہدایت کی کہ وہ ان تمام شقوں کی نشاندہی کریں جنہیں اقلیتوں کی توہین کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور ساتھ ساتھ اس بات کی بھی نشاندہی کریں کہ کن کن جگہوں پر قانون نافذ کرنے والے ادارے اقلیتوں کے جان و مال کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے۔

اس موقع ہر چیف جسٹس نے سندھ میں مندر جلانے کے واقعے میں ملوث ملزمان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کیے جانے پر برہمی کا اظہار کیا۔

تصدق جیلانی نے کہا کہ عدلیہ اقلیتوں کے غم میں برابر کی شریک ہے اور اقلیتی برادری کے تحفظ کے لیے نئی فورس کے قیام کا بھی عندیہ دیا۔

پاکستان مسلم لیگ نواز کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار عدالت کو بتایا کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران ہندو برادری کے ساتھ چھ ناخوشگوار واقعات پیش آئے ہیں جہاں ناصرف ان کے مندروں کو نذرآتش کیا گیا بلکہ نہ ان کے مذہب کی عزت کی گئی اور نہ ہی مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ان میں سے چھ واقعات توہین مذہب کے زمرے میں آتے ہیں۔ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل سندھ پولیس علی شیر جھاکرانی نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے اقلیتوں کے ہراساں کرنے میں ملوث پانچ مشتبہ افراد کو گرفتار کیا ہے لیکن ان کے خلاف مقدمات توہین مذہب کے قانون کے تحت درج نہیں کیے گئے۔

چیف جسٹس نے اس سلسلے میں پولیس کی جانب سے کی گئی کارروائی کی تفصیلی رپورٹ ایک ہفتے میں پیش کرنے کی ہدایت کی۔

عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا کو ضلع کرک میں ہندو سمادھی پر تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی۔

جسٹس ہیلپ لائن کے رکن سلیم مائیکل نے عدالت کو بتایا کہ ینگ مین کرسچن ایسوسی ایشن ممتاز ادارہ ہے جسے کراچی سے چلایا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ادارے کی عمارت کا کچھ لوگ غلط استعمال کر رہے ہیں اور اس کا مقدمہ کچھ عرصہ عدالت میں زیر سماعت بھی رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے آخری فیصلہ آنے تک کلب کے معاملے کی دیکھ بھال کے لیے ایک ناظر بھی تعینات کیا تھا۔ ڈاکٹر رمیش کمار نے عدلیہ کو بتایا کہ لیاقت نہرو معاہدے کے تحت اس پراپرٹی کا چیئرمین ہندو ہو گا۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ دونوں قوموں کے درمیان سیاسی معاملات زیادہ اچھے نہیں رہے جس کے باعث دونوں فریقین نے اس معاہدے پر عمل درآمد نہیں کیا لیکن اعلیٰ عدلیہ انہیں انسانی بنیادوں پر سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش کرے گی۔

اس موقع پر جسٹس تصدق جیلانی نے ہندوستانی میں اقلیتوں کے تحفظ پر انڈین سپریم کورٹ کے کردار کو سراہا۔

مقدمے کی مزید سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کردی گئی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں