نیویارک: ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر سیکیورٹی فورسز کے کسی اہلکار کا احتساب نہیں کیا۔

بدھ کو جاری ہونے والی رپورٹ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھنے والی عالمی تنظیم کا کہنا تھا کہ نئی دہلی نے اس سلسلے میں کسی بھی اہلکار پر مقدمہ ہی نہیں چلنے دیا یا پھر فیصلے کو کئی سالوں تک زیر التوا رکھا۔

رپورٹ میں محمد امین مگرے کا حوالہ دیا گیا جن کا 17 سالہ بھانجہ اپریل 2003 میں ہندوستانی فوج کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔

مگرے کا کہنا تھا کہ اگر انڈین فوج کو علم ہو کہ ان پر بھی مقدمہ چل سکتا ہے اور انہیں عدالت جانا پڑسکتا ہے تو پھر کسی معصوم پر گولی چلانے سے قبل وہ دس مرتبہ سوچیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اے ایف ایس پی اے جیسے قوانین کے ذریعے ہندوستان حکومت نے میرے بھانجے جیسے معصوموں کو قتل کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔

انسانی حقوق کی مقامی کارکن پروینہ اہنگر کے مطابق ہندوستانی فوجی عدالتیں بے ایمان اور نہ قابل اعتبار ہیں، ہندوستان نے کشمیر میں ایک لاکھ افراد شہید کیے ہیں جبکہ 8000 ہزار سے زائد گمشدہ ہیں جن میں سے کوئی اب تک واپس نہیں آیا۔

انہوں نے کہا کہ اے ایف ایس پی اے کی عدم موجودگی میں فوجیوں کے جرائم مقامی عدالتوں میں سنے جاتے تاہم اس کے ذریعے ان کی سماعت فوجی عدالتوں میں ہوتی ہیں جن پر ہمیں بھروسہ نہیں۔

ان کے بیٹے جاوید احمد کو 1990 میں مسلح فورسز نے حراست میں لیا تھا جس کے بعد سے وہ گمشدہ افراد کے لیے بین الاقوامی تحقیقات کا پرامن مطالبہ کررہی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کئی والدین اپنے بیٹوں کے ٹھکانے کی تلاش کرتے کرتے انتقال کرچکے ہیں۔

خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اے ایف ایس پی اے کے تحت ہندوستان فوج اور نیم فوجی دستے کسی بھی شخص کو موقع پر ہی ہلاک کرسکتی ہیں، انہیں ٹرائل کے بغیر حراست میں رکھ سکتی ہیں اور جائیداد بھی ضبط کرسکتی ہیں۔

متعدد حکومتیں اور فوج اس قانون کو ختم کرنے کی تمام اپیلوں کو مسترد کرتی رہی ہیں جن کا کہنا ہے کہ مزاحمت ختم کرنے اور عسکریت پسندوں تک پہنچنے کے لیے یہ ضروری ہے۔

تاہم ایمنسٹی اور دیگر گروپوں نے متعدد بار کہا ہے کہ اس قانون کی وجہ سے تشدد میں اضافہ ہوا ہے اور مرحومی کی کیفیت بھی بڑھی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں