• KHI: Fajr 4:15am Sunrise 5:42am
  • LHR: Fajr 3:21am Sunrise 4:58am
  • ISB: Fajr 3:16am Sunrise 4:58am
  • KHI: Fajr 4:15am Sunrise 5:42am
  • LHR: Fajr 3:21am Sunrise 4:58am
  • ISB: Fajr 3:16am Sunrise 4:58am
شائع January 8, 2016

مینگورہ کا گاؤں سپل بانڈئی سوات کے دارالخلافہ سیدو شریف سے محض 8 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ سیاحتی مقام مرغزار جاتے ہوئے راستے میں دائیں طرف سرسبز و شاداب پہاڑی کے اوپر یہ گاؤں واقع ہے۔ یہ پاکستان کا وہ واحد گاؤں ہے جہاں ایک ہی دادا کی اولاد رہتی ہے۔

سپل بانڈئی کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ سوات کے ان گنے چنے دیہاتوں میں سے ایک ہے جو پہاڑی کی چوٹی پر واقع ہے۔ سطح سمندر سے گاؤں کی بلندی 3600 فٹ یا 1100 میٹر ہے۔

سپل بانڈئی سے تعلق رکھنے والے شوکت شرار کی تحقیق کے مطابق گاؤں کے آثار قدیمہ بتاتے ہیں کہ یہاں محمود غزنوی کی افغان فوج کے آنے سے پہلے بدھ اور ہندو لوگوں کی آبادیاں تھیں۔ ’’سپل بانڈئی کا نام اور جغرافیائی خصوصیات بتاتی ہیں کہ یہ موجودہ گاؤں ان لوگوں نے آباد کیا جو محمود غزنوی کی افغان فوج کا حصہ تھے۔ گاؤں میں ابھی تک اس زمانے کا نظامِ آبپاشی موجود ہے۔‘‘

گاؤں سپل بانڈئی، سوات.
گاؤں سپل بانڈئی، سوات.
گاؤں کی سادہ زندگی کا ایک منظر.
گاؤں کی سادہ زندگی کا ایک منظر.
ایک کوچہ.
ایک کوچہ.

شوکت شرار کی تحقیق کے مطابق سوات کے وہ گاؤں جن کے ساتھ ’’پور‘‘ کا لاحقہ لگتا ہے، ہندوؤں کے بسائے گئے علاقے ہیں۔ سوات میں اسلام پور، فتح پور اور شاہ پور اس کی مثالیں ہیں۔ اس طرح ’’گرام‘‘ کا لاحقہ ان علاقوں کے ساتھ لگتا ہے جنہیں بدھ لوگوں نے آباد کیا تھا یا انہیں ترقی دی تھی۔ ایسے علاقوں میں اوڈیگرام، نجیگرام اور گلی گرام وغیرہ نمایاں ہیں۔ لفظ ’’بانڈئی‘‘ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ مذکورہ لفظ ان علاقوں کے ساتھ مستعمل ہے جنہیں پختون زمانے میں ترقی دی گئی ہے۔ اس تحقیق کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ سپل بانڈئی کو پختونوں نے ترقی دی تھی۔

گاؤں کے بیشتر لوگوں کا ماننا ہے کہ سلطان محمود غزنوی کے ساتھ آنے والی فوج نے اس گاؤں کو آباد کیا تھا، لیکن یہاں پر بدھ مت اور اس کے بعد ہندوشاہی دور کے آثار بھی ملتے ہیں ، جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اس گاؤں کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے۔

سوات شرکتی کونسل کی سمیطہ احمد کی ترتیب دی ہوئی کتاب ’’لکڑی اور پتھر میں شاعری‘‘ میں شوکت شرار رقم کرتے ہیں کہ پندرہویں صدی میں سوات پر یوسف زئی پختونوں نے دست تصرف دراز کیا۔ یوسف زئی قبیلے نے زمین کے بٹوارے کا ایک بے مثل طریقہ اپنایا۔ بٹوارے میں ان لوگوں کو بھی حصہ ملا جنہوں نے لشکر یا پیدل فوج میں حصہ لیا تھا۔

گاؤں کا اپنا بائیو گیس پلانٹ.
گاؤں کا اپنا بائیو گیس پلانٹ.

فوج میں شامل ایک شخص شیخ سعدی، جو ترک نسل سے تھا، اس کو بھی حصہ ملا۔اس کا پوتا اخوند درویزہ ایک بڑا عالم بنا۔ مقامی لوگوں نے اسے ولی کا درجہ دیا۔ بعد میں اخوند درویزہ کے پوتوں نے گاؤں کی زمین کو آپس میں بانٹ لیا۔ ان کے پوتے میاں دولت بابا کی اولاد نے سپل بانڈئی گاؤں کو آباد کیا۔ آج میاں دولت بابا کی اولاد سپل بانڈئی میں آباد ہے۔‘‘

اس تحقیق کی روشنی میں اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ سپل بانڈئی پاکستان کا وہ واحد گاؤں ہے جہاں ایک ہی دادا کی اولاد رہتی ہے۔ گاؤں کے ایک بزرگ ’’امیر مشال‘‘ گاؤں کے شجرۂ نسب پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’گاؤں سپل بانڈئی میں تین خاندانوں پر مشتمل لوگ رہتے ہیں۔ پورا گاؤں ’’اخوند درویزہ باباؒ‘‘ کی اولاد ہے۔ تینوں خاندان ’’برٹل میاں گان‘‘، ’’کوزہ خونہ میاں گان‘‘ اور ’’بنڑ میاں گان‘‘ کے ناموں سے مشہور ہیں۔‘‘

سوات کے دیگر گاؤں یا علاقوں میں ایک ایک محلے میں دو دو، تین تین مساجد ہوتی ہیں۔ بالفاظ دیگر ہر قبیلے یا خیل کی اپنی ایک الگ مسجد ہوتی ہے۔ اس حوالے سے سپل بانڈئی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ پورے پاکستان میں یہ واحد گاؤں ہے جہاں سات ہزار کی آبادی ایک ہی مسجد میں نماز باجماعت ادا کرتی ہے۔ یہ بات ایک طرح سے اہل سپل بانڈئی کے اتحاد اور مذہبی اعتدال کی بھی غماز ہے۔

مسجد کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ تین سو سال پرانی ہے۔ یہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک حصہ تین ساڑھے تین سو سال پرانا جبکہ دوسرا عصر حاضر کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ مسجد ایک طرح سے قدیم و جدید دور کا حسین امتزاج ہے جسے ملک کے طول و عرض سے سیاح دیکھنے آتے ہیں۔ مسجد میں استعمال ہونے والی لکڑی پر مخصوص سواتی کاریگری کا جائزہ لیا جاسکتا ہے جو گردشِ ایام کے ساتھ معدومیت کا شکار ہوچکی ہے۔ اب سواتی کاریگر ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔

گاؤں کی تین صدی پرانی مسجد کا منظر.
گاؤں کی تین صدی پرانی مسجد کا منظر.
مسجد کی محراب کا منظر جو سواتی کاریگری کی آئینہ دار ہے۔
مسجد کی محراب کا منظر جو سواتی کاریگری کی آئینہ دار ہے۔
مسجد گاؤں کی عین وسط میں واقع ہے.
مسجد گاؤں کی عین وسط میں واقع ہے.
ستونوں پر بھی نفیس نقش و نگار بنائے گئے ہیں.
ستونوں پر بھی نفیس نقش و نگار بنائے گئے ہیں.

گاؤں کے ایک سفید ریش عزیز خان کے بقول: ’’مسجد کی کئی خوبیاں ہیں۔ یہ عین گاؤں کے وسط میں واقع ہے اور صاف اور میٹھے پانی کا گزر بھی ایک نالے کی شکل میں اسی مسجد سے ہوتا ہے۔ چونکہ پورے گاؤں کی یہ واحد مسجد ہے، اس لیے پچھلے 315 سالوں سے اس گاؤں کے اتفاق و اتحاد اور یگانگت پر آج تک آنچ بھی نہیں آئی ہے۔‘‘

ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر محمد دوران مسجد میں استعمال ہونے والی لکڑی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’مسجد کی تزئین و آرائش میں استعمال ہونے والی لکڑی زیادہ تر ’’دیار‘‘ کی ہے۔ مسجد کے محراب میں تین قسم کی لکڑی استعمال ہوئی ہے۔ استعمال شدہ کالے رنگ کی لکڑی کو عرف عام میں ’’بنڑیا‘‘ کہتے ہیں، جو کہ اس علاقہ کی لکڑی نہیں ہے اور یہ خاص طور پر موضع ملم جبہ سے منگوائی گئی ہے۔

اس میں دوسری قسم ’’دیار‘‘ کی لکڑی ہے۔ تیسری قسم اس میں ’’چیڑ‘‘ کی لکڑی استعمال ہوئی ہے، جسے سوات کی سب سے بہترین لکڑی ہونے کا اعزازحاصل ہے۔ تقریباً 315 سال گزرنے کے بعد بھی اس مسجد میں استعمال ہونے والی لکڑی موجودہ دور میں استعمال ہونے والی دیگر لکڑیوں سے بدرجہا بہتر اور مضبوط ہے۔ یہاں کی روایات کے مطابق مسجد کی تعمیر میں لکڑی کا استعمال زیادہ کیا گیا ہے۔ یہاں روایتی طرز تعمیر میں لکڑی، پتھر اور گارے کا ہی زیادہ تر استعمال ہوتا ہے اور یہی کچھ ہماری روایات ہیں۔‘‘

سپل بانڈئی کے بیشتر لوگ سرکاری ملازم ہیں جن میں ایک بڑی تعداد پولیس میں بھرتی ہے۔ اس کے علاوہ اندرون و بیرون ملک کام کرنے والے رقوم بھیجتے رہتے ہیں جس سے گاؤں کے لوگ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ آمدنی کے بیشتر ذرائع میں زراعت و باغبانی بھی شامل ہیں۔ یہاں کی زمین انتہائی زرخیز ہے۔ گندم اور مکئی جیسی نقد آور فصلوں کے علاوہ یہاں سبزیوں میں آلو، پیاز، گوبھی، مٹر،گاجر، مولی، شلجم وغیرہ پیدا ہوتے ہیں۔

پھلوں میں سیب، آلوچہ، خوبانی، شفتالو، انجیر وغیرہ بکثرت پیدا ہوتے ہیں۔ یہاں کا اَخروٹ خاص طور پر مشہور ہے جس کا چھلکا اتنا نرم ہوتا ہے کہ اسے انگلیوں میں دبا کر ہلکا زور دینے سے ہٹایا جاسکتا ہے۔ چونکہ گاؤں سرسبز و شاداب ہے، اس لیے یہ مگس بانی (شہد کی مکھیاں پالنے) کے لیے بے حد موزوں ہے۔ اک آدھ جگہ اس حوالے سے تجربہ کیا بھی گیا ہے۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر تھوڑی سی کوشش کی جائے تو مگس بانی بھی گاؤں والوں کے لیے ایک بہترین ذریعہ آمدن ثابت ہوسکتی ہے۔

مسجد میں استعمال ہونے والی لکڑی پر اعلیٰ نقاشی کی گئی ہے.
مسجد میں استعمال ہونے والی لکڑی پر اعلیٰ نقاشی کی گئی ہے.
315 سال گزرنے کے بعد بھی لکڑی موجودہ دور میں استعمال ہونے والی دیگر لکڑیوں سے بہتر اور مضبوط ہے۔
315 سال گزرنے کے بعد بھی لکڑی موجودہ دور میں استعمال ہونے والی دیگر لکڑیوں سے بہتر اور مضبوط ہے۔
مسجد میں لگے ایک ستون پر کندہ شدہ فارسی کا شعر اور تاریخ نمایاں ہیں۔
مسجد میں لگے ایک ستون پر کندہ شدہ فارسی کا شعر اور تاریخ نمایاں ہیں۔

گاؤں میں تعلیم کی شرح ملک کے باقی حصوں سے زیادہ ہے۔ سپل بانڈئی کے رہائشی امجد علی (اسکول ٹیچر) کے بقول ’’گاؤں میں تعلیم کی شرح 80 فیصد سے زیادہ ہے۔ ملک کے دیگر حصوں میں عموماً لڑکوں کی تعلیم پر زیادہ زور دیا جاتا ہے مگر سپل بانڈئی اس حوالے سے جداگانہ حیثیت کا حامل گاؤں ہے جہاں لڑکوں کے لیے مڈل اور لڑکیوں کے لیے ہائی اسکول قائم ہے۔ اس کے علاوہ دو پرائمری اسکول اور ایک نجی اسکول (انگلش میڈیم) بھی نونہالانِ وطن کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے قائم ہے۔‘‘

گاؤں میں کام کے بندوں کی کمی نہیں ہے۔ یہاں کے ایک رہائشی جہان پرویز نے بائیو گیس پلانٹ کا ایک کامیاب تجربہ کیا ہوا ہے۔ ان کے بقول ’’پشاور انجینئرنگ یونیورسٹی کے تعاون سے ہم نے بائیو گیس پلانٹ لگایا ہے۔ مویشیوں کے فضلے سے اب گیس کی پیداوار کا کام جاری ہے جس سے گھر میں کھانا پکانے اور کمروں کو گرم رکھنے کا کام لیا جاسکتا ہے۔ اس سے پیدا ہونے والی گیس کسی بھی آٹھ سے دس افراد پر مشتمل خاندان کی زندگی سہل بنا سکتی ہے۔ اس سے نہ صرف چھوٹے بڑے سلنڈر بھرے جاسکتے ہیں بلکہ اسے گاڑی کے ایندھن کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔‘‘

اتنی خوبیوں کے ساتھ اس گاؤں کو ایک بڑا خطرہ یہ لاحق ہے کہ آج کل اس کے اندر بے ہنگم تعمیرات زور و شور سے جاری ہیں، جو اس گاؤں کے فطری حسن کو ختم کرنے کے لیے کافی ہیں۔ یہاں کی زرخیز زمین تیزی کے ساتھ پختہ عمارتوں میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے گاؤں کے بڑوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور اس مسئلے کا حل نکالنا چاہیے۔ ترقی اور جدت ضرور ہونی چاہیے لیکن اگر اسے تھوڑی منصوبہ بندی کے ساتھ کیا جائے، تو اس گاؤں کی خوبصورتی کو بچایا جا سکتا ہے۔

— تصاویر بشکریہ لکھاری۔


امجد علی سحاب فری لانس صحافی ہیں اور تاریخ و تاریخی مقامات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

امجد علی سحاب

امجد علی سحابؔ روزنامہ آزادی اسلام آباد اور باخبر سوات ڈاٹ کام کے ایڈیٹر ہیں۔ اردو بطور مضمون پڑھاتے ہیں، اس کے ساتھ فری لانس صحافی بھی ہیں۔ نئی دنیائیں کھوجنے کے ساتھ ساتھ تاریخ و تاریخی مقامات میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (23) بند ہیں

راشداحمد Jan 08, 2016 04:15pm
ماشاء اللہ بہت خوب! معلوماتی فیچر۔زبان رواں،معلومات ٹھوس،تصاویر بہت مزیدار۔خوب صورت مضمون ہے۔
Waseem Jan 08, 2016 04:54pm
So,all they belong to same grandfather, means 100% marriages inter-marriages......When are we gonna get out of that mentality and closed mindedness?
Salahuddin Jan 08, 2016 06:05pm
بہت اعلی سر۔۔۔! اسی گاؤں میں گزارے گئے تین مہینے زندگی کے یادگار لمحات تھے۔۔۔ یہاں کے لوگ انتہائی ملنسار اور بے حد اچھے ہیں۔۔۔۔آپ نے معلوماتی فیچر لکھ کر حق ادا کردیا۔۔۔!
[email protected] Jan 08, 2016 06:07pm
that is an intresting story about this region and very lush n nice area i liked that so cool photos
احسان علی خان Jan 08, 2016 06:37pm
بہت خوب۔۔ دلچسپ معلومات و تصاویر پر مبنی بہترین کاوش۔
Syed Junaid Amir Jan 08, 2016 07:01pm
A useful article with good snaps... I think these type of informative articles should be more prioritized than the holly bolly or other useless writings. A proud student of Amjad Ali Sahab sir.
Javid Ahmad Jan 08, 2016 07:17pm
بہت اعلی اور خوبصورت فیچر ہے- یہ سحاب رائٹر ڈان میں اک چپا رستم ہے۔زبردست
sharif wali kharmangi Jan 08, 2016 07:26pm
Its amazing Thumbs up.
فضل ربی راہی Jan 08, 2016 08:15pm
سپل بانڈئ کے بارے میں ایک نہایت ہی خوب صورت اور معلوماتی مضمون ہے۔ سحاب صاحب یہ سلسلہ جاری رکھیں۔ اسے بعد میں کتابی صورت میں شائع کریں گے۔
Syed GhulamShah Jan 08, 2016 08:47pm
Great Info sir Kya bat hay is gaon ki Bahut khoobsurat ilaka hay Ek hi khandan k log kitna maza ata hoga inhen sath me rehkar kash main b aisi hi gaon me hota
Arif ullah Jan 08, 2016 10:08pm
Nice g.... Ap k hr report ma koi na koi malumat zarort hoti.... Ap k hr report sa him bht malumat Basil krty ha ju him apny mulak ya area k bhary ma khud ba nai janti.... Thankx for provide such a information Good work and keep it up brother
Asad Jan 08, 2016 10:17pm
@Waseem u r right mr. waseem that they belong from the same grandfather but it doesn't proof or justify inter or cousin marriages.... we have paternal family system in which someone identification is the race of their father not of the mother.
Muhammad Waqas Jan 08, 2016 10:17pm
امجد علی سحاب سر کے زرخیز قلم سے ایک اور دلچسپ تحقیقی اور تاریخی ارٹیکل۔ ایک دفعہ پھر سے سپل بانڈئی جانا چاہتا ہوں یہ مسجد دیکھنے۔
Muhammad Waqas Jan 08, 2016 10:20pm
مجھے فضل ربی راہی صاحب سے مکمل اتفاق ہے۔ اس کو کتابی صورت میں ضرور شایع کریں۔
hussain ali Jan 08, 2016 10:35pm
بہت زبردست تحریر و تحقیق. دعا ہے اللہ آپ کو مذید زور قلم دے.
Mohammad Roshan Jan 08, 2016 10:44pm
A well written article on Spalbandi, a representative village based on the concepts of love and harmony as described though different examples given in the article. it would have added value to the article if you could mention the recently carried conservation work in the village mosque. however, it is still a good read , keep writing.
Hazer Gul Jan 09, 2016 12:10am
Interesting piece. Keep it up.
M.ABUBAKAR Jan 09, 2016 12:16am
BOHT KHOB SIR ASI YADGAR CHIZUN PE UR BHI MZMON HONE CHAHYEN NICE
یاسر محمود Jan 09, 2016 12:55am
ماشااللہ بہترین معلومات ملی اللہ ہم سب کو مل جل کر رہنے کی توفیق دے اورہمارے اس صحافی کو اللہ کامیابی دے آ مین
H akhtar Jan 09, 2016 03:42am
@Waseem you are absolutely right .. family marriages give rise to a lot of genetic diseases and it also eradicates immunity and talents from the progeny
Muhammad Shahzad Noor Farooqui Jan 09, 2016 08:38am
Bohat aalaa janab
Rafiq Ullah Jan 09, 2016 09:19am
بہت اعلی، آپ جب بھی لکھتے ہیں دل جیت لیتے ہیں ۔جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔
Jawad ullah khan Jan 09, 2016 09:46am
Dear sir, its really an informative and true represantative article of villige spalbandai, i loved the information. I think such histories should be written before it fades away. Proud to be your student sir.