27ویں ترمیم کی پوری صورت حال کی رازداری سے لگتا ہے کہ اس معاملے کی بازگشت بند دروازوں کے پیچھے کئی ماہ سے جاری ہے اور اس امر نے خدشات کو جنم دیا ہے۔
شائع06 نومبر 202502:49pm
مستقبل میں دنیا میں مزید 40 ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ممالک سامنے آسکتے ہیں جس سے ایٹمی ہتھیاروں کے دانستہ یا حادثاتی استعمال کے خطرات میں ڈرامائی انداز میں اضافہ ہوگا۔
اکستان کی کاروباری برادری اس سوچ کے ساتھ بڑی ہوئی ہے کہ منافع کمانے میں ان کی مدد کرنا حکومت کا کام ہے۔ وہ اس سوچ کو کبھی نرمی سے اور کبھی دھمکی کے انداز میں منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔
افغانستان کو 'سلطنتوں کا جنگی میدان' کہنا زیادہ درست رہے گا کیونکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں بڑی طاقتیں خطے یا دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش میں آپس میں ٹکرائی ہیں۔
فضائی آلودگی سے نمٹنے میں پنجاب حکومت کی کوششیں حوصلہ افزا ہیں لیکن ماحولیاتی پالیسی سائنسی شواہد پر مبنی ہونی چاہئیں، نہ کہ وہ ہوں جو صرف میڈیا میں اچھی لگتی ہیں۔
گزشتہ افغان حکومتوں نے بھی ڈیورنڈ لائن کو باقاعدہ سرحد تسلیم نہیں کیا لیکن طالبان حکومت نے سرحد کے حوالے سے زیادہ اشتعال انگیز مؤقف اختیار کیا ہے جو کہ باعثِ تشویش ہے۔
جب اسرائیلی افواج غزہ پر بمباری کر رہی تھیں تو اس دوران ٹی ایل پی تقریباً خاموش رہی تو امن معاہدے کے بعد ان کے سڑکوں پر نکلنے پر حکومت کا سوال اٹھانا بجا تھا۔
اسرائیل اور اس کے حامی جب اس نئی دنیا کو دیکھتے ہیں تو وہ اپنے خلاف غصے کی وجہ اپنے اعمال کو نہیں بلکہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے الگورتھمز کو سمجھتے ہیں۔
طالبان اتنے ناشکرے اور اس قدر پاکستان دشمنی پر کیوں اتر آئے ہیں؟ گمان ہوتا ہے کہ جیسے وہ افغان معاشرے سے حمایت کے حصول کے لیے قوم پرست بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ٹرمپ غزہ امن بورڈ کے لیے پُرجوش ہیں جس کی سربراہی وہ کرنے والے ہیں لیکن یہ ابھی معلوم ہونا باقی ہے کہ جب وہ قیام امن سے بیزار ہوجائیں گے تو اس کے بعد کیا ہوگا؟
جو بات ریاست قبول کرنے کو تیار نہیں وہ یہ ہے کہ عسکریت پسندی میں اضافے کا براہ راست سیاسی عدم استحکام سے تعلق ہے جبکہ تمام الزامات بیرونی قوتوں پر ڈال دینا بھی کافی نہیں ہے۔
وفاقی حکومت نے صوبوں میں موسمیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کی صلاحیت پیدا کرنے میں تعاون کرنے کے بجائے انہیں آفات کے بعد ہنگامی رقم دینے پر زیادہ توجہ مرکوز کی ہے۔
فنانشل ٹائمز کے مطابق، امریکی سرمایہ کاروں کو پسنی میں بندرگاہ تیار کرنے اور اس کا انتظام دینے کا تصور پاکستان نے پیش کیا ہے تاکہ پاکستان کی معدنیات تک امریکی رسائی کو آسان بنایا جا سکے۔
1981ء میں سعودی ولی عہد فہد کی قضیہ فلسطین پر پیش کردہ فہد منصوبہ محض ایک مفروضہ تھا یا یہ ایک خیالی یا حقیقی موقع تھا جسے عرب دنیا نے ہاتھوں سے جانے دیا؟
مسلم ممالک میں ہم میں سے بہت سے لوگ اپنے حکومتوں کی طرح ہیں، خاموش رہتے ہیں جبکہ مغرب میں بہت سے لوگ سڑکوں پر نکل کر اپنی حکومتوں کے خلاف کھڑے ہورہے ہیں۔
ہمیں اپنے حقوق کا مطالبہ کرتی تحریکوں سے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے نمٹنا اور پھر جب حالات دوبارہ پُرسکون ہونے لگیں تو ان کے مطالبات کو نظر انداز کرنا بند کرنا ہوگا۔
گریٹا اور ملالہ میں ہمیں دو طرح کے ماڈل ملتے ہیں جو ہمیں بتاتے ہیں کہ کس طرح طاقت کا استعمال چھوٹے پیمانے پر اثر انداز ہونے یا بین الاقوامی مشہور شخصیت کے طور پر کیا جاسکتا ہے۔
اتحادیوں کے لیے حکومت چھوڑنا کوئی آپشن نہیں ہے البتہ نہ اقتدار میں بیٹھی حکومت اور نہ اپوزیشن کو اندازہ ہے کہ کیا کرنا ہے کیونکہ ان کا واحد مقصد صرف اپنی بقا ہے۔
دستاویز میں استعمال ہونے والی زبان جیسے بورڈ، چیئرمین اور سی ای او سے گمان ہوتا ہے جیسے کسی ملک یا علاقے کی نہیں بلکہ کسی کاروباری ڈھانچے کے متعلق بات کی جارہی ہے۔
قیاس ہے کہ ٹرمپ، شہباز شریف ملاقات کا مقصد غزہ سے اسرائیلی افواج کے انخلا کے بعد پاکستان سمیت مسلم ممالک کے ایک گروپ کا غزہ کی سیکیورٹی کی نگرانی کرنا ہوسکتا ہے۔