• KHI: Zuhr 12:30pm Asr 5:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 4:55pm
  • ISB: Zuhr 12:06pm Asr 5:04pm
  • KHI: Zuhr 12:30pm Asr 5:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 4:55pm
  • ISB: Zuhr 12:06pm Asr 5:04pm
شائع January 21, 2016 اپ ڈیٹ June 10, 2016


چار سال قبل میرے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ وہ کراچی کے یتیم خانوں اور اولڈ ایج ہومز میں اکثر جاتا رہتا ہے۔

یہ سن کر میں نے اس سے اگلی دفعہ مجھے ساتھ لے جانے کی درخواست کی۔

اس وقت مجھے اس بات کا بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ میں کیا کرنے جا رہا ہوں۔ میرے پہلے دورے نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ میں وہاں سے فوراً نکل گیا کیونکہ وہاں پر اپنے جذبات پر قابو رکھنا بہت مشکل تھا۔

ایسے کمرے میں قدم رکھنے کا تصور کریں جہاں شہر کے تنہا ترین لوگ بستے ہیں۔

یہاں کے رہائشیوں کے چہرے مرجھائے ہوئے اور کھوکھلے لگتے ہیں، جن پر ان کے ماضی کی یادیں نظر آتی ہیں، کچھ خوشگوار، تو کچھ ذرا بھی خوشگوار نہیں۔

یہ لوگ کسی زمانے میں کیسے ہوا کرتے تھے، اب اس کی صرف جھلکیاں نظر آتی ہیں، ایک چھوٹی سی مسکراہٹ میں یا خاموشی سے سر ہلانے میں۔

ان گھروں میں ان کی تنہائی اس قدر گہری ہے کہ انہیں دیکھ کر دل ٹوٹ جاتا ہے۔ ہر ملاقات نے مجھے جذباتی طور پر بوجھل کر دیا؛ جب میں ان گھروں سے نکلتا، تو ان کی تنہائی کا بوجھ مجھے کھڑا نہ ہونے دیتا۔

کیا میں کبھی اتنا دلیر ہو سکتا ہوں کہ اپنے کسی پیارے کو یہاں چھوڑ جاؤں؟ کیا میرا کوئی پیارا مجھے یہاں چھوڑ کر جائے گا؟ اگر آپ اور میں یہاں نہیں رہنا چاہیں گے، تو یہ کون لوگ ہیں اور یہاں کیوں رہتے ہیں؟

ان کی مشکلات اور ان کی ہمت نے مجھے ایک فوٹو سیریز کرنے پر مجبور کیا جس کے لیے میں تین سال کے دوران کراچی کے کئی اولڈ ہومز گیا۔

مجھے یہ اعزاز ہے کہ میں نے ان اولڈ ہومز میں کئی لوگوں سے دوستی کی، جن میں سے کچھ نے میرے ساتھ اس زندگی سے بھرپور شہر میں گزاری گئی اپنی زندگی کی زبردست کہانیاں سنائیں۔

تین سالوں میں میری تمام عیدیں، کرسمس اور نیو ایئر ان دھتکارے ہوئے لوگوں کے ساتھ گزرے، جو ہر سال صرف ایک چیز کی امید کرتے کہ بس ان کے بچے یہ خصوصی موقعے ان کے ساتھ گزارنے کے لیے لوٹ آئیں، مگر زیادہ تر واپس نہیں آتے تھے۔

ایسے ہی ایک دن میں نے دیکھا کہ مورس گلی میں کھڑے اسکول سے واپس جاتے بچوں میں وہ عیدی تقسیم کر رہے ہیں جو انہیں اولڈ ہوم کی انتظامیہ نے دی تھی۔ یہ سادہ سا اقدام میرے ذہن میں نقش ہوگیا۔ دو ہفتوں بعد مورس میرے پاس آئے اور مجھ سے میرے کیمرے کے بارے میں پوچھا، تب مجھے معلوم ہوا کہ وہ پروفیشنل فوٹوگرافر رہ چکے ہیں۔

مسکراتے ہوئے انہوں نے کہا، “تب ہم لوگ ریل استعمال کرتے تھے، آپ کو ان کے بارے میں معلوم ہے؟”

مجھے یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ مورس نے اپنا زیادہ تر کام ویو کیمرا سے کیا تھا جس میں فوٹوگرافر سیاہ کپڑے کے اندر کھڑا ہو کر تصویریں لیتا ہے۔

میرے چھٹے دورے تک مورس مجھے اپنے خاندان کے بارے میں بتانے لگے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ساری زندگی محنت کرتے رہے تاکہ اپنے دونوں بچوں کے لیے ایک ایک مکان خرید سکیں۔

مگر آج ان دونوں مکانوں میں باپ کے لیے ایک کمرہ بھی موجود نہیں۔ وہ مجھے اکثر اپنا معمولی سا سامان دکھاتے جس میں ایک ٹی شرٹ بھی شامل تھی جس پر لکھا تھا، “جب میں موت کی وادی سے گزروں گا، تو مجھے کوئی خوف نہیں ہوگا۔”

پھر جب میں اس دن جانے کے لیے اٹھا، تو انہوں نے مجھے ایک خط تھماتے ہوئے التجا کی کہ، “میرے خاندان کو ڈھونڈنے کی کوشش کرنا، اور انہیں یہ خط دینا۔”

میں نے پوچھا، “ممورس، خط پر کوئی پتہ موجود نہیں ہے، میں اسے کہاں بھیجوں؟”

انہوں نے آہستگی سے کہا، “بس کوشش کرنا”۔

ایک اولڈ ہوم میں میری ملاقات نرم مزاج آغا صاحب سے بھی ہوئی۔ ہماری بات چیت خوشگوار ہوتی تھی اور میں اکثر بھول جاتا تھا کہ ہم اسی پرانے کمرے میں موجود ہیں جہاں بے تحاشہ بستر موجود تھے۔

آغا صاحب کو یادداشت کا عارضہ لاحق ہے، اور انہیں اولڈ ہوم سے اکیلے باہر نکلنے کی اجازت نہیں کیونکہ وہ ایک بار پہلے گم ہو چکے ہیں۔ اب وہ ان بوسیدہ دیواروں میں ہمیشہ کے لیے قید ہیں، مگر مجھے یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ ان کے خیالات کتنے آزاد ہیں۔

ایک دورے کے دوران آغا صاحب نے مجھے کہا کہ، “تم جو بھی کرو، مگر مجھے خدا حافظ کبھی نہیں کہنا، کیونکہ جو لوگ خدا حافظ کہتے ہیں، وہ کبھی واپس نہیں آتے۔”

ان ملاقاتوں کے بعد میں اکثر تلخیوں سے بھر جایا کرتا۔ میں نے اپنے دوست سے ان جگہوں کی خستگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ شاید ہمیں یہ جگہیں بند کر دینی چاہیئں۔

میرے دوست نے مجھے کہا کہ، “یہ لوگ پھر کہاں جائیں گے؟ اگر تم ان کی کوئی بھی مدد کرنا چاہو، تو بس اتنا کرو کہ ان سے ملنے کے لیے جاتے رہا کرو۔”

ایک عرصہ ہوا کہ میری فوٹو سیریز ختم ہو چکی ہے، مگر میں اب بھی جاتا رہتا ہوں۔

میں خدا حافظ نہیں کہوں گا۔


محمد علی انڈس ویلی اسکول آف آرٹس اینڈ آرکیٹیکچر سے فوٹوگرافی میں گریجوئیٹ ہیں. وہ وائٹ اسٹار فوٹو پرائیوٹ لمیٹڈ کے ساتھ بطور فوٹوگرافر کام کر رہے ہیں جبکہ ہیرالڈ میگزین کی ادارتی فوٹوگرافی ان کا مرکزی پروجیکٹ ہے.

محمدعلی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (18) بند ہیں

khushnood zehra Jan 21, 2016 11:54am
زبردست ،، موضوع تو نیا نہیں تاہم تخلیقی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
farah Jan 21, 2016 12:05pm
heart wrenching .. :(
fiz Jan 21, 2016 12:07pm
Bohat achi post hy... Ye log agay ja kr apny walden ko kia mu dikhain gy ? muje bhot dukh hota h k kesy logo me itna hosla hota hy k apny maa bap ko yahan chor jaty hain (Hum to maa bap ki ankh me aik ansoo dekh k he ro party hin) Kia ye log itny Pathar dil hain k apny maa bap ko yun akela chor gy
Rashid Ali Jan 21, 2016 12:26pm
Great Work Mr. Ali, thanks for opening our eyes on this neglected issue of our society; stay blessed and all the best
hina Jan 21, 2016 12:29pm
allah pak ink asani fermaye mien b in k lye kuch krna chahti hun
LIBRA Jan 21, 2016 12:54pm
speechless
wirsha shahid Jan 21, 2016 02:24pm
بہت اعلی۔۔کبھی خدا حافظ نہیں کہیئے گا۔۔امیدوں کو زندہ رکھیئے گا۔
Mehmood Jan 21, 2016 03:15pm
very nice bro Allah Pak Give long life i very sad i know about that i miss my moom but i never submit my moom this place i was take care her all time she not now this word but me i happy Allah Pak give chance to take care my mother and also my father but me i very happy to you good work i will also go this place Regards Mehmood Ahmed
sabiha khalud Jan 21, 2016 04:48pm
Apna anewala waqat yaad rakhen
Mirza Jan 21, 2016 06:10pm
ہمارے ضمیروں کو جہنوڑنے کے لیئے ایسے موضوعات جتنا بہی کام کیا جائے کم ہے
Mirza Jan 21, 2016 06:12pm
ہمارے ضمیروں کو جہنجوڑنے کے لئے ایسے موضوعات پر جتنا بہی کام کیا جائے کم ہے
Rizwan Jan 21, 2016 06:23pm
Allah Pak ap ko dunya or akhrat ki khoshian naseeb farmaye k ap Allah ki mahloq ko khoshi ponchaty hin
Manzoor ahmed Jan 21, 2016 10:53pm
Kaash hum kuch samajh saken. Yeh to hamari poori zindagi Bekar hey. Thanku writer God bless u.
Amir Ali Shaheen Jan 26, 2016 11:44pm
میں آج بھی اپنے باپ کویاد کر کے روتا ہوں کہ وہ دنیا سے کیوں چلے گئے اور کہتا ہوں کہ یا ا ﷲ مجھ سے سب کچھ لےلیے میرا باپ مجھے لوٹا دے مگر میں جانتا ہوں کہ یہ ا ﷲ کا نظام ہے یہ رپورٹ دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ کیسے لوگ ہیں جو اپنے ماں باپ کو خود سے دور کرکے سکون سے رہ سکتے ہیں
wajid ali Jan 27, 2016 04:57pm
جب میں موت کی وادی سے گزروں گا، تو مجھے کوئی خوف نہیں ہوگا۔” Buhat Kamal ka Jumla kaha hay Baba g ny.
QAS Jan 28, 2016 08:41am
its good that you highlight.. I appreciate your efforts and your will to support the old parents. and needy people. I am a Pakistani and feel pain like you have a heart. I have the courage to do the needful. Please send an email at [email protected] Let me work out what to do next.. appreciate..
نورالہدیٰ Jan 30, 2016 11:51pm
میں بھی جانا چاہتا ہوں۔ کسی دن مجھے بھی ساتھ لیکر چلیں پلیز
zeeshan younas Feb 02, 2016 04:59pm
o mareay allah ye kaisay long hain jo aap ne rab ko hi baich ge kabi bhi sok nahi paray ghe