اقتصادی راہداری پر 'سیاست'

12 مارچ 2016
لکھاری ڈان اخبار کے اسٹاف ممبر ہیں۔
لکھاری ڈان اخبار کے اسٹاف ممبر ہیں۔

پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت جو سرمایہ کاری ہو رہی ہے، کیا واقعی وہ ایک ’تحفے میں ملا گھوڑا‘ ہے؟ اور کیا یہ ضروری ہے کہ جو لوگ اس منصوبے پر خدشات کا اظہار کر رہے ہیں وہ ملک کی اس قسمت پر سیاست کر رہے ہیں؟

پاکستان کی ایک طویل تاریخ رہی ہے کہ وہ غیر ملکی امداد کو ایک ایسے تحفے کی صورت میں لینا چاہتے ہیں جس پر کوئی سوال نہ کیا جائے اور اس سے ہونے والے فائدوں اور حصہ داری پر بھی کوئی سوال نہ کیا جائے۔

ملکی تاریخ کے شروعاتی سالوں میں ہم نے ورلڈ بینک سے زبردست امدادی پیکج حاصل کیا جس کے بدلے میں ہم دریائے سندھ کے تین مشرقی دریاؤں کے اختیار سے ہندوستان کے حق میں دستبردار ہوگئے تھے۔

وہ ایک تاریخی لمحہ تھا۔ میرا ہمیشہ سے اس بات پر یقین رہا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ تاریخی اعتبار سے ریڈکلف کمیشن جتنی ہی اہمیت رکھتا ہے۔ بس اتنا فرق ہے کہ ریڈکلف کمیشن میں جو جلد بازی کی گئی تھی، وہ سندھ طاس معاہدے میں نہیں ہوئی تھی۔ ریڈکلف ایوارڈ کچھ ہی دنوں میں مکمل ہوگیا تھا جبکہ سندھ طاس معاہدے کو مکمل کرنے میں ایک دہائی لگ گئی تھی۔

اس معاہدے میں شمولیت کے بدلے میں جس امدادی پیکج کا وعدہ کیا گیا تھا، اس میں تین بڑے ڈیم، وسیع پیمانے پر ٹیوب ویل پروگرام، بجلی کی ترسیل کا نظام اور اس کے ساتھ ان دنوں کے 5 سالہ منصوبوں کے تحت ترقیاتی منصوبوں میں مدد شامل تھی۔

بلاشبہ یہ ایک بہت بڑا پیکج تھا اور اس پر کامیاب عمل درآمد نے 1970 تک پاکستان کو خوراک میں خود کفیل بنا دیا تھا اور ہمارے توانائی کے ترسیل کے نظام کی بھی بنیاد رکھ دی تھی۔ پاکستان کے پاس ان دنوں میں مربوط گرڈ نہیں تھا اور پاور پلانٹس چھوٹے اور دور دور بنے ہوئے تھے، جس کے ساتھ صرف ایک ٹراسمیشن لائن منسلک تھی جو پیشاور کے وارسک ڈیم سے راولپنڈی کی طرف جاتی تھی۔ پورے ملک میں یہ واحد ٹرانسمیشن لنک تھا۔

بلاشبہ اس پیکج کے فوائد سے ملک کو بہت زیادہ قوت حاصل ہوئی، اور اس نے ملک کو اب تک بلندی پر رکھا ہے۔ ہم تب سے لے کر اب تک خوراک کے حوالے سے خود کفیل ہیں بھلے ہی ہماری آبادی اس منصوبے پر عمل درآمد شروع ہونے سے لے کر اب تک چار گنا بڑھ چکی ہے۔

لیکن اس شاندار دور کا ایک بدنما پہلو بھی ہے۔ ملک میں بڑے پیمانے پر یہ بے چینی بڑھنے لگی تھی کہ بیرونی تحفے میں ملے ثمر کو ملک کا صرف ایک بازو استعمال کیے جا رہا تھا۔ مشرقی پاکستان میں بہت پہلے سے ہی زبان کے مسئلے پر سیاست شروع ہو چکی تھی مگر اقتصادی سوال نے معاملات کو نہایت سنگین کر دیا تھا۔

ہر فورم پر، چاہے وہ این ایف سی ایوارڈ ہو یا 5 سالہ منصوبوں کے اختتام پر ان کا جائزہ لیا جا رہا ہو، مشرقی بازو کے اقتصادی ماہرین اس بات کی نشاندہی کرتے رہتے تھے کہ پیداواری ماڈلز میں غیر مساوی تقسیم پر عمل کیا جا رہا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ بیرونی وسائل کے بڑے حصے مغربی ونگ پر خرچ کیے جا رہے تھے۔

ان تمام شکایات کو بھی یہی کہہ کر رد کر دیا گیا کہ: یہ صرف سیاست ہے۔ درحقیقت ان تمام شکایات کو 'صرف سیاست' قرار دینا وہ زبانی ہتھیار تھا جس کے ذریعے ان خدشات پر نظر ثانی کے بجائے انہیں خارج کر دیا جاتا تھا، یہاں تک کہ ایک بار منصوبہ بندی کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین نے ریڈیو پاکستان پر ان ماہرینِ معاشیات کو 'دشمنوں کا ایجنٹ' قرار دے دیا تھا جو اپنے خدشات کا اظہار کر رہے تھے۔

یہ واحد مثال نہیں ہے۔ تب سے لے کر اب تک، جب بھی ملک میں بیرونی امداد یا سرمایہ کاری آئی ہے، ملک کے اندر یہی خوشی اور احسان مندی کا یہ رجحان رہا ہے کہ "اس کے بدلے میں جو چاہو لے جاؤ" جبکہ ملک میں اٹھتی ہوئی ان آوازوں کو نظرانداز کر دیا جاتا جو خدشات کا اظہار کرتی تھیں۔

1960 کی دہائی میں جب ملک پر وسائل کی بوچھاڑ ہوئی تب بھی ان آوازوں نے غیر منصفانہ حصے داری کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ دوسروں نے بھی 1980 کی شروعات میں آنے والے فنڈز کے سنگین نتائج سے خبردار کیا جو ڈکٹیٹر کے سپر پاور کی جنگ میں اتحادی بننے اور اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب سے تعلقات مضبوط ہونے کے بعد ملک میں آ رہے تھے۔

وہ آوازیں پھر سے تب اٹھیں جب ایک دہائی کے بعد ایک اور ڈکٹیٹر نے ملک کو ایک اور سپرپاور کی جنگ میں اتحادی بنایا تھا تا کہ ہم اپنے پہلے اتحاد سے جنم لینے والے نتائج سے نکل سکیں۔

ان تمام باتوں کا مقصد یہ نہیں ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی امداد نہیں لینی چاہیے تھی، یا یہ کہ 11 ستمبر کے بعد پاکستان کے پاس اتحادی بننے کے علاوہ کوئی اور چارہ موجود تھا۔ نقطہ محض یہ ہے کہ جب بھی ہمیں کسی امیر یا طاقتور ملک سے مادی امداد کی پیشکش ہو تو یہ بہتر ہے کہ اس میں لکھی شرائط کا اچھی طرح جائزہ لیا جائے اور اس سے ہونے والے نتائج پر بھی سیرِ حاصل غور و خوض کیا جائے۔

چین کی طرف سے سرمایہ کاری کی پیشکش پاکستان کی دگرگوں اقتصادی صورتحال کا پانسہ پلٹ دینے کی قوت رکھتی ہے اور اس کے حصول کے لیے پرجوش بھی رہنا چاہیے۔ مگر ایسا کرتے وقت یہ خیال رہے کہ ان کے فوائد کی تقسیم پر پیدا ہونے والے خدشات کو ’محض سیاست’ کہہ کر خارج نہ کر دیا جائے، اور یہ بھی ٹھیک رہے گا کہ معاہدوں میں موجود باریکیوں کو اچھی طرح پرکھ لیا جائے۔ یہ تمام معاہدے کمرشل معاہدے پہلے ہیں اور اس کے بعد کچھ اور ہیں، اور اسی وجہ سے یہ دوسرے دوطرفہ معاہدوں سے مختلف ہیں جن سے ماضی میں پاکستان فوائد حاصل کرچکا ہے۔

اب ہم جب 'تحفے میں ملنے والے گھوڑے' کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں، تو ہمارے چینی ہم منصب معاہدوں پر اٹھنے والی لاگت، ان میں موجود رسک اور ان کی قلیل وقت میں وصولی کا تخمینہ لگا رہے ہیں۔ اور یہ ٹھیک بھی ہے۔ کوئی بھی معقول شخص ایسی صورتحال میں ایسا ہی کرے گا۔ میں یہ سوچ کر پریشان ہوتا ہوں کہ ہمارے پاس ایسا کام کس حد کیا جاتا ہے، اور ہم صرف یہ سوچ کر پریشان ہی ہوسکتے ہیں کیونکہ ان منصوبوں کی بیش قیمتی تفصیلات ذرا ہی سی بتائی جاتی ہیں۔

چین نے جو ہاتھ آگے بڑھایا ہے، اسے تھامنے سے قبل ماضی کی غلطیوں سے بچنا نہایت ضروری ہے۔ بلاشبہ یہ پیشکش ملکی مستقبل سنوار سکتی ہے۔ مگر یہ فائدہ مند ہوگی یا نہیں اس بات کا انحصار لازمی طور پر معاہدوں کی باریکیوں، سیاست اور منصوبے میں شفافیت کے مطالبات پر ہے۔

لکھاری ڈان اخبار کے اسٹاف ممبر ہیں۔

[email protected]

ٹوئٹر: khurramhusain@

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں