کراچی: سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے بیٹے اویس علی شاہ کے اغواء کے چشم دید گواہوں کا کہنا ہے کہ کلفٹن میں واقع سپر اسٹور کے گارڈز سمیت کوئی بھی انہیں بچانے کے لیے آگے نہیں آیا تھا۔

ایک معمر سیکیورٹی گارڈ نے بتایا کہ اویس علی شاہ ایک چھوٹی سی تھیلی ہاتھ میں لیے سپر اسٹور سے باہر نکلے تو اچانک کلاشنکوف اٹھائے 4 افراد سامنے آگئے، جن کے چہرے سیاہ کپڑے سے ڈھکے ہوئے تھے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اویس علی شاہ نے مدد کے لیے پکارا لیکن ان میں سے ایک نے انہیں چہرے پر مکے مارنے شروع کردیئے اور دیگر اغواء کاروں نے ان کے ہاتھ پکڑ لیے۔

پارکنگ ایریا میں لوگوں کا بہت زیادہ رش ہونے کے باوجود گارڈز سمیت وہاں موجود کوئی شخص ان کی مدد کے لیے نہیں آیا ۔

چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس سجاد علی شاہ کے بیٹے اویس علی شاہ—۔فوٹو/ ڈان نیوز
چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس سجاد علی شاہ کے بیٹے اویس علی شاہ—۔فوٹو/ ڈان نیوز

یہ بھی پڑھیں:چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے بیٹے لاپتہ

گارڈ نے بتایا کہ 'میں اس جگہ کھڑا ہوا تھا لیکن ایمانداری سے بتاؤں تو سب کچھ اتنا جلدی ہوا کہ مجھے کچھ کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔'

انہوں نے مزید بتایا کہ 'اغواء کاروں کے ہاتھوں میں کلاشنکوف تھیں اور یوں محسوس ہورہا تھا کہ وہ اپنے راستے میں آنے والے کسی بھی شخص کو گولی مار دیں گے، وہ لوگ بہت پھرتیلے بھی تھے۔ '

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ مسلح افراد کو اویس علی شاہ کو پکڑنے اور اپنی گاڑی میں ڈالنے میں صرف 5 منٹ لگے جبکہ وہ مدد کے لیے پکارتے رہے۔

اُس وقت پارکنگ میں موجود ایک اور شخص نے بتایا کہ مسلح افراد سفید کرولا میں آئے تھے اور اویس علی شاہ کو اغواء کرنے کے بعد تیزی سے فرار ہوگئے۔

واقعے کے بعد سپر مارکیٹ کے قریب موجود پارکنگ لاٹ میں صحافیوں کا ہجوم رہا جو گارڈز سے واقعے کے بارے میں سوالات کر رہے تھے۔

جب ڈان نے واقعے کے حوالے سے بات کرنے کے لیے سیکیورٹی اسٹاف تک رسائی حاصل کی تو معلوم ہوا کہ ان میں سے نصف سے زیادہ گارڈز ان لوگوں کے ہیں جو اندر شاپنگ کررہے ہیں یا پھر قریب موجود بڑی دکانوں کے ہیں۔

بعض گارڈز نے بتایا کہ انہیں گزشتہ شب ہدایات ملی تھیں کہ سپر مارکیٹ کے آس پاس سیکیورٹی بڑھادی جائے۔

جن محافظوں نے واقعے پر بات کرنے کی حامی بھری انہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط رکھی۔

ویڈیو دیکھیں: اویس شاہ کے لاپتہ ہونے سے قبل کی سی سی ٹی وی فوٹیج

عینی شاہدین نے بتایا کہ کلفٹن پولیس افطار کے بعد تقریباً 8 بجکر 15 منٹ پر پہنچی اور لوگوں سے پوچھنا شروع کیا کہ انہوں نے کچھ دیکھا؟

ویلے کار پارکنگ کے افسر نے بتایا کہ پولیس سے بات کرنے کے لیے 2 افراد ایک سیکیورٹی گارڈ منظور خان اور دوسرا پارکنگ کمپنی ’سالار‘ کا ملازم گل منیر سامنے آئے۔

ویلے افسر نے بتایا کہ دونوں ہی اب پولیس کی حراست میں ہیں لہٰذا دیگر گارڈز اب اس معاملے پر بات کرنے سے ڈر رہے ہیں، ان کا کہنا تھا، واقعے کے اگلے روز میرے اسٹاف کے 4 ارکان کام پر نہیں آئے، انہیں خدشہ ہے کہ کہیں پولیس انہیں بھی مورد الزام ٹہرا کر گرفتار نہ کرلے۔ '

پولیس نے پارکنگ ایریا میں اس جگہ پر ایک بڑا پتھر رکھ دیا جہاں اویس شاہ نے اپنی گاڑی پارک کی تھی—۔فوٹو:فہیم صدیقی/وائٹ اسٹار
پولیس نے پارکنگ ایریا میں اس جگہ پر ایک بڑا پتھر رکھ دیا جہاں اویس شاہ نے اپنی گاڑی پارک کی تھی—۔فوٹو:فہیم صدیقی/وائٹ اسٹار

کلفٹن پولیس اسٹیشن میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) عارف شاہ نے بتایا کہ اویس شاہ کی سلور سوزوکی سوئفٹ (اے زیڈ ٹی 535) سپرمارکیٹ کے قریب پارکنگ میں خواتین کے کپڑوں کے ایک اسٹور کے سامنے کھڑی تھی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ مسلح افراد نے اویس شاہ کو ان کی گاڑی تک پہنچنے ہی نہیں دیا اور اسٹور سے باہر نکلتے ہی انہیں دبوچ کر ساتھ لے گئے۔

انہوں نے کہا کہ اغواء کار جاپانی ری کنڈیشنڈ ٹویوٹا کرولا (ایس پی 0586) میں سوار تھے، انہوں نے دھوکہ دینے کے لیے یونیفارم پہنے ہوئے تھے، سر پر پولیس کی ٹوپی اور چہرہ سیاہ کپڑے سے ڈھکا ہوا تھا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پولیس نے اویس شاہ کی گاڑی سے انگلیوں کے نشانات حاصل کرلیے ہیں اور 2 عینی شاہدین کے بیانات بھی ریکارڈ کرلیے گئے ہیں تاہم اب تک ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔

عدالتی کارروائیاں معطل

اویس علی شاہ کے اغواء کے خلاف احتجاجاً سندھ ہائی کورٹ اور ماتحت عدالتوں میں کارروائیاں معطل رہیں کیوں کہ اویس علی شاہ خود بھی وکیل ہیں۔

ایڈووکیٹ اویس علی شاہ 3 بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں، ایک برس قبل انہوں نے اپنی قانونی کمپنی قائم کی تھی جبکہ اس سے قبل 5 برس تک وہ ایک بڑی لاء فرم سے وابستہ رہے۔

انہوں نے لندن میں لاء کالج سے گریجویشن کیا اور وہ ایس ایم لاء کالج کی وزیٹنگ فیکلٹی میں بھی شامل تھے۔

مزید پڑھیں:اویس علی شاہ عسکریت پسندوں کیلئے 'بارگیننگ چپ'

چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سجاد علی شاہ کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ پیر 20 جون کو افطار سے کچھ پہلے گھر والوں کو معلوم ہوا کہ اویس شاہ اغواء ہوگئے ہیں کیوں کہ ان کا موبائل فون بھی بند جارہا تھا۔

بعد میں معلوم ہوا کہ اویس علی شاہ نے اس روز آخری بار دوپہر 2 بجے اپنے ایک دوست کو کال کی تھی جس کے بعد سے ان سے کسی کا رابطہ نہیں ہوا۔

اس واقعے نے شہر میں موجود دیگر وکلاء کو درپیش سیکیورٹی خدشات کو مزید بڑھا دیا ہے، وکلاء کا کہنا ہے کہ جب صوبے کے چیف جسٹس کے بیٹے کو دن دھاڑے مصروف ترین کاروباری مرکز سے اغواء کیا جاسکتا ہے تو پھر عام آدمی کس طرح خود کو محفوظ سمجھ سکتا ہے۔

اغواء کے بعد وکلاء نے احتجاجاً عدالتی کارروائیوں کا بائیکاٹ کردیا جس کی وجہ سے سندھ ہائی کورٹ میں کسی مقدمے کی سماعت نہ ہوسکی۔

یہی صورتحال سٹی کورٹس، ملیر ڈسٹرکٹ کورٹس، انسداد دہشت گردی کورٹس، احتساب عدالتوں اور بینکنگ کورٹس میں بھی رہی۔

اویس علی شاہ کے اغواء کے خلاف سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور دیگر وکلاء تنظیموں نے متفقہ مذمتی قرار دادیں منظور کیں اور حکومت سے ان کی جلد بازیابی کا مطالبہ کیا۔

سندھ بار کونسل نے بھی واقعے کی مذمت کرتے ہوئے سیکیورٹی کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا، سندھ بار کونسل کا اس حوالے سے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان جلد پریس کانفرنس میں کرنے کا امکان ہے۔

یہ خبر 22 جون 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

foolnstupid Jun 22, 2016 11:52pm
'اویس علی شاہ کو بچانے کوئی آگے نہیں بڑھا' why