لاہور کی سڑکوں پر رکشہ چلاتا اولمپک ہیرو

لاہور کی سڑکوں پر رکشہ چلاتا اولمپک ہیرو

پاکستان کا اولمپک ہیرو محمد عاشق حکومتی سرپرستی نہ ہونے کے باعث زندگی کے نشیب و فراز میں گم ہوگیا اور غربت نے محمد عاشق کو اولمپک ٹریکس پر سائیکل چلاتے چلاتے لاہور کی سڑکوں تک پہنچا دیا ہے۔

سابق اولمپیئن محمد عاشق ہر روز کئی دہائیوں قبل سائیکل ریس میں جیتنے والی ٹرافیوں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں 81 سالہ محمد عاشق نے بتایا کہ وہ پاکستان کے کئی صدور، ورزاء اور چیف ایگزیکٹوز سے ہاتھ ملاچکے ہیں، ان کا کہنا تھا، 'میں ان سے کئی بار ملاقاتیں بھی کرچکا ہوں لیکن یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ میں مر چکا ہوں‘۔

1960 اور 1964 اولمپکس میں پاکستانی کی نمائندگی کرنے والے عاشق کا کہنا ہے کہ ’لوگ مجھے کیسے بھلا سکتے ہیں، مجھے یقین نہیں آتا‘۔

سابق پاکستانی اولمپیئن محمد عاشق نے اپنے رکشے میں میڈلز لٹکا رکھے ہیں—۔ فوٹو / اے ایف پی
سابق پاکستانی اولمپیئن محمد عاشق نے اپنے رکشے میں میڈلز لٹکا رکھے ہیں—۔ فوٹو / اے ایف پی

محمد عاشق نے اپنے کیرئیر کا آغاز باکسنگ سے کیا تاہم اپنی اہلیہ کی جانب سے باکسنگ کے دوران پیش آنے والی چوٹوں کی شکایت کے بعد 1950 میں انہوں نے سائیکلنگ کے مقابلوں میں حصہ لینا شروع کردیا۔

وہ 1960 میں روم اور 1964 میں ٹوکیو اولمپکس میں ایکشن میں نظر آئے، اگرچہ وہ ان میگا ایونٹس میں کوئی میڈل نہ جیت سکے تاہم قومی ہیرو کے طور پر ان کی خوب پذایرئی کی گئی تھی۔

انہوں نے بتایا، 'میں بہت خوش تھا اور اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا تھا کہ میں نے اولمپکس ایونٹس میں پاکستان کی نمائندگی کی'، لیکن ان کے سائیکلنگ کے کیرئیر کے اختتام کے ساتھ ہی ان کی خوش قسمتی بھی ختم ہوگئی۔

بعدازاں انھوں نے ایک نجی کمپنی میں بطور تعلقات عامہ افسر ملازمت کی، تاہم بیماری کے باعث 1977 میں وہ اپنی ملازمت کو جاری نہ رکھ سکے، جس کے بعد انہوں نے ٹیکسی اور پھر ایک وین چلانا شروع کردی اور بعدازاں کچھ چھوٹے موٹے کاروبار بھی کیے۔

لیکن گزشتہ 6 برسوں سے وہ رکشہ چلارہے ہیں اور کم آمدنی والے افراد کو لاہور کی سڑکوں اور چوراہوں پر ایک جگہ سے دوسری جگہ لاتے لے جاتے ہیں۔

محمد عاشق عالمی مقابلوں میں جیتے گئے تمغے دکھا رہے ہیں—۔ فوٹو / اے ایف پی
محمد عاشق عالمی مقابلوں میں جیتے گئے تمغے دکھا رہے ہیں—۔ فوٹو / اے ایف پی

محمد عاشق 450 مربع فٹ کے ایک گھر میں رہائش پذیر ہیں جس کی قیمت ایک لاکھ ہے اور انہیں رکشہ چلانے پر یومیہ 400 روپے معاوضہ ملتا ہے۔

سابق اولمپیئن کی اہلیہ دنیا سے کوچ کرچکی ہیں جبکہ ان کے 4 بچے ان کے ساتھ نہیں رہتے، ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بچوں پر بوجھ نہیں بننا چاہتے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ پہلے رکشہ میں اپنے میڈلز لٹکایا کرتے تھے لیکن اب وہ نہیں لگاتے، وہ مسافروں کو اپنی کہانی سناتے ہیں اور انھیں نصیحت کرتے ہیں کہ وہ کبھی کھیلوں میں حصہ نہ لیں۔

ان کی بیوی اور چار بچوں نے کئی بار ان کو کھیلوں کی دنیا میں اپنی زندگی برباد کرنے سے منع کیا تھا۔

محمد عاشق نے 1960 اور 1964 اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کی—۔ فوٹو / اے ایف پی
محمد عاشق نے 1960 اور 1964 اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کی—۔ فوٹو / اے ایف پی

محمد عاشق نے اپنی بیوی کی ایک بات یاد کرتے ہوئے بتایا، 'ایک بار میری بیوی نے زار و قطار رونا شروع کردیا، میں نے اس سے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ وہ میری صحت و تندرستی کے لیے بہت پریشان ہے'۔

انہوں نے کہا کہ ‘اس کے کچھ عرصے بعد ہی ان کی بیوی چل بسیں، اب ان کے ہاتھ بھی لرزنے لگے ہیں اور وہ اپنی موت کی دعا مانگتے ہیں‘۔

انہوں نے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘میرے خیال میں ان ناگفتہ بہ حالات کا سامنا کرنے سے بہتر ہے کہ میں اپنے مرنے کی دعا کروں تاکہ میں جنت میں اپنی پیاری بیوی سے ملاقات کرسکوں‘۔