الفریڈ نوبیل کی وصیت کی تحت 1901 سے آج تک ہر سال سوئیڈش اکیڈمی کی طرف سے طبیعیات، کیمیا، طب، ادب اور امن کے شعبوں میں کار ہائے نمایاں سر انجام دینے والوں کو نوبیل انعام سے نوازا جاتا ہے۔

دنیا بھر میں ہر سال عام لوگوں اور بالخصوص ان شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اپنے اپنے شعبے میں مردِ میدان قرار پانے والوں کے نام کا شدت سے انتظار رہتا ہے۔

اس سال 13 اکتوبر کو جب یہ اعلان کیا گیا کہ "عظیم امریکی گیتوں میں نئے شاعرانہ اظہار پیدا کرنے پر، اس سال کا نوبیل ادب انعام باب ڈیلن کو عطا کیا جاتا ہے" تو یہ خبر بیک وقت ناقابلِ یقین، حیرت انگیز، دھچکا، تہلکہ خیز اور اس جیسے کئی عنوانات سے تعبیر ہوئی۔

اس حیرانی کا سبب یہ تھا کہ باب ڈیلن کی وجہِ شہرت گیت نگاری و موسیقی ہے جبکہ اس انعام کا تعلق ادب سے ہے۔ گو کہ ادب، مصوری، موسیقی اور فنونِ لطیفہ کی دیگر تمام اقسام کا تعلق آرٹ ہی سے ہے اور ان فنون کے آپس میں گہرے روابط بھی ہیں، مگر اس کے باوجود یہ بات طے ہے کہ یہ دونوں میدان اپنا الگ الگ تعارف و تشخص رکھتے ہیں اور اس سے پہلے تک یہ ایوارڈ عموماََ شعرا اور ادیبوں کو ہی ملتا رہا ہے۔

علاوہ ازیں آج تک نوبیل ادب انعام یا کوئی دوسرا بڑا ادبی ایوارڈ کسی موسیقار کے حصے میں نہیں آیا کیوں کہ اس شعبے سے وابستہ فنکار کے فن کا اعتراف کرنے کے لیے گریمی ایوارڈ سمیت موسیقی کے کئی اہم ایوارڈز اپنی ایک الگ مقبولیت رکھتے ہیں۔

ایسے میں یہ سوال اُٹھانا کہ کیا باب ڈیلن اس انعام کے حقیقی طور پہ حقدار ہیں یا نہیں، درست اور جائز ہے۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ماہرینِ ادب و فن اور دیگر دانشوروں کی رائے کے ساتھ ساتھ باب ڈیلن کی حیات و فن کو جاننا بھی ہہت ضروری ہے۔

پڑھیے: ادب کا نوبیل انعام باب ڈلن کے لیے ہی کیوں؟

باب ڈیلن 24 مئی 1941 کو امریکی ریاست مینیسوٹا کے ایک متوسط طبقے کے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ پیدائشی نام رابرٹ ایلن زمرمین رکھا گیا تھا۔ زمانہ طالب علمی سے ہی مشہور شاعر ڈیلن تھامس سے شدید متاثر تھے اور ووڈی گیتھرو کے گیت انہیں ہمیشہ اپنی طرف کھینچتے۔

ووڈی کی محبت نے موسیقی میں شغف کو جِلا دی تو ڈیلن تھامس کے پیار نے ایلن زمرمین کو زمرمین سے باب ڈیلن بنا دیا۔ 1960 میں کالج کے پہلے سال ہی ڈیلن نے اپنی نصابی تعلیم ادھوری چھوڑی اور مینیسوٹا سے نیو یارک سٹی پہنچ گئے۔ نیویارک میں ڈیلن مختلف کلبز اور کافی ہاؤسز کے علاوہ بیشتر بینڈز کا حصہ رہے۔

اس دوران ڈیلن کو گانے کے علاوہ گٹار، وائلن، ہارمونیکا، الیکٹرک گٹار وغیرہ جیسے آلات موسیقی پر عبور حاصل ہوگیا تھا۔ پہلا میوزک البم باب ڈیلن کے نام سے ہی 1962 میں ریلیز ہوا جسے موسیقی کے مداح آج بھی ماسٹر پیس کے طور پر جانتے ہیں۔

’بلانڈ این بلانڈ‘ کے نام سے دوسرا البم 1966 اور پھر ’بلڈ آن ٹریک‘ کے نام سے 1975 میں تیسرا البم ریلیز ہوا۔ باب ڈیلن کے کئی البم ریلیز ہوئے، چند ایک فلموں میں موسیقار کے طور پر بھی ڈیلن کا نام سامنے آیا۔

اس دوران ڈیلن کی منفرد آواز، گیتوں کے دلفریب بول اور پُراثر دھنوں میں خوشی، غم، محبت، امن، جنگ، راحت و اُداسی نیز ہر قسم کے جذبوں کا اظہار متنوع رنگ بکھرتا نظر آتا ہے۔

نوجوانوں کے حقوق کے لیے متحرک تحریکوں کے ساتھ رہے تو ڈیلن کے مختلف گیتوں نے ترانوں کی سی مقبولیت حاصل کی۔ امریکا کے علاوہ ڈیلن نے یورپ اور دیگر کئی ممالک کے دورے کیے اور امریکی تہذیب و ثقافت کے تانے بانے بنتے گئے۔

نوبیل ادب انعام کے علاوہ باب ڈیلن کو موسیقی کے مشہور ایوارڈز گریمی ایوارڈ، گولڈ این گولڈ ایوارڈ، اکیڈمی ایوارڈ اور موسیقی میں آسکر ایوارڈ کے علاوہ دیگر کئی ایک اعزازات اور ایوارڈز سے نوازا جا چکا ہے۔

مزید پڑھیے: نوبیل انعام یافتہ پروفیسر پاکستان کو کیا سکھا سکتا ہے؟

یاد رہے کہ جارج برناڈشا کے بعد باب ڈیلن دنیا بھر میں وہ دوسری شخصیت ہیں جنہیں نوبیل ادب کے ساتھ ساتھ آسکر ایوارڈ بھی حاصل ہوا۔ مئی 2012 میں باب ڈیلن کو باراک اوباما کی طرف سے صدارتی تمغہ برائے آزادی بھی دیا گیا۔ بحیثیت گیت نگار و موسیقار اس فنی سفر کے ساتھ ساتھ باب ڈیلن کی زندگی کے اور بھی کئی ایک پہلو ہیں جن کو سامنے لانا ضروری ہے۔

ڈیلن کو موسیقی کے علاوہ مصوری، ادب اور بالخصوص شاعری سے گہری دلچسپی ہے۔ 1971 میں ڈیلن کی Tarantula کے نام سے شاعری کی ایک کتاب شائع ہوئی اور 1973 میں ڈرائینگز اور پینٹنگز کی چھے جلدوں پر مشتمل مصوری کے نمونوں کا مجموعہ بھی شائع ہوا۔

مصوری کے ان نمونوں کی امریکا کے اہم اور بڑے ہالز میں نمائش بھی کی گئی جن میں باب ڈیلن کی زندگی کی اس الگ جہت سے روشناس کروایا گیا۔

ان کی سوانح عمری کا ایک حصہ Chronicles کے نام سے 1975 میں شائع ہوا جس میں واقعاتِ زندگی کو ہلکے پُھلکے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ مگر ان تمام جہتوں میں جو رنگ غالب ہوا وہ موسیقاری و گیت نگاری ہے جس میں باب ڈیلن کو بے مثل و منفرد مقام حاصل ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ باب ڈیلن کی دھنوں میں شاعری سی گہری معنویت اور گیت کے بولوں میں پھولوں سے رنگ اور مٹھاس ہے لیکن سوال وہیں موجود ہے کہ کیا ڈیلن کا کلام اُن کی گیت نگاری کے ہم پلہ ہے یا نہیں؟ کیا وہ اس بات کے حق دار ہیں کہ انہیں شاعر تسلیم کیا جائے؟

ہر سال سوئیڈش اکیڈمی کی جانب سے اٹھارہ افراد باہمی مشاورت کے بعد اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ اس سال انعامات کے حقدار کون لوگ ہوں گے۔

اس دفعہ یہ فیصلہ متوقع وقت کے تقریباََ ایک ہفتے بعد کیا گیا، جس پر یہ خبر بھی سامنے آئی کہ ممبران کے کسی ایک نام پر متفق نہ ہونے کی بنا پرحتمی رائے سامنے نہیں آ رہی تاہم اکیڈمی کی مستقل سیکریٹری سارہ ڈینس نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ایسی خبروں میں حقیقت نہیں۔

تمام ممبران کی متفقہ رائے کے تحت باب ڈیلن نوبیل انعام کے حقدار قرار پائے ہیں۔ سارہ ڈینس کا کہنا تھا کہ باب ڈیلن کو یہ اعزاز بخشے جانے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ڈیلن اُس عظیم انگریزی ادب اور عظیم شاعری کا حصہ ہیں جس کی وسعتیں ملٹن اور بلیک تک پھیلی ہوئی ہیں۔

چند نمائندہ ادیبوں کی نظر میں ادب کے نوبیل انعام کے لیے باب ڈیلن کا انتخاب ایک خوش آئند عمل ہے۔ ان ادیبوں میں اینڈریو موشن، جاروس کوکر، جوائس کیرول آٹس، اسٹیفن کنگ اور سلمان رشدی جیسے نام آتے ہیں۔

جہاں کیمبرج یونیورسٹی باب ڈیلن کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں صاحبِ اسلوب شاعر گردانتی ہے تو وہیں آکسفورڈ بک آف امریکن پوئٹری نے ڈیلن کے ایک گیت کو 2002 کی اشاعت میں شامل کر رکھا ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی میں انگریزی زبان و ادب کے پروفیسر شیمس پیری کا ماننا ہے کہ ڈیلن کا موازنہ عظیم شعراء سے کیا جا سکتا ہے اور باب ڈیلن بلاشبہ ایک بڑے فنکار ہیں۔

بیشتر ادیبوں اور ماہرین ادب کا کہنا ہے کہ باب ڈیلن اس بات کے حقدار ہیں کہ اُنہیں محض گیت نگار یا موسیقار کے طور پر نہیں بلکہ بحیثیت شاعر تسلیم کیا جائے۔

پڑھیے: ایک 'نوبیل' پنگا

سوئیڈش اکیڈمی کی حمایت کے علاوہ ان کی مخالفت کرنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے۔ کافی لوگ اس فیصلے پر معترض بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اکیڈمی کا یہ عمل گمراہ کن ہے۔ باب ڈیلن کے بر عکس نوبیل ادب انعام کے انتخاب کے لیے کئی دوسرے خالص ادبی کارکن بھی تھے جنہیں یہ اعزاز بخشا جا سکتا تھا۔

لیکن سب کو نظر انداز کر کے موسیقی میں شہرت رکھنے والے باب ڈیلن کو اس انعام سے نوازنا میرٹ کے برعکس اور غیر منصفانہ رویہ ہے جس وجہ سے کئی ادیبوں کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔

ناول نگار ربیع علم الدين نے اپنے ٹوئٹ میں اس خبر پر یوں تبصرہ کیا کہ،"ڈیلن کو ادب انعام سے نوازنا یوں ہی مضحکہ خیز ہے جیسے اس انعام کے لیے ونسٹن چرچل کا انتخاب تھا۔"

جوڈی پیکالٹ کا کہنا تھا کہ, "میں باب ڈیلن کے لیے بہت خوش ہوں، لیکن کیا ناول نگاری پر میں گریمی ایوارڈ جیت سکتا ہوں؟ امریکن ادیب ویل سیلف نے تو باب ڈیلن کو یہ مشورہ دیا کہ وہ اس معاملے میں فرانسیسی فلاسفر ژاں پال سارتر کی پیروی کرتے ہوئے یہ ایوارڈ واپس کر دیں کیوں کہ ایک تخلیق کار کا منصب انعام و کرام اور ایوارڈز سے کہیں بالا ہوتا ہے۔

حاصل شدہ رائے کا موازنہ کریں تو یہ اُونٹ کسی ایک کروٹ بیٹھتا محسوس نہیں ہوتا۔ مدعا یہ ہے کہ ہم اس فیصلے کے معیاری ہونے کا فیصلہ کس نظر سے کر رہے ہیں۔ آیا ہم اس معاملے کو ایک ادیب کے طور پر دیکھتے ہیں یا ہمارا شمار موسیقی کے مداحوں میں ہوتا ہے؟

اور اگر ہم اعتدال کا رنگ اُوڑھے خود کو آرٹ لوور کہتے ہوئے یہ دلیل دیتے ہیں کہ ادب اور موسیقی میں گہرا ربط ہے تو کیا یہ حقیقت نہیں کہ یہ دونوں فنون اپنی الگ الگ پہچان رکھتے ہیں؟

لمحہ بھر کو یہ مان لیا جائے کہ باب ڈیلن کے گیتوں کا شمار اعلیٰ شاعری میں ہوتا ہے تو پھر وہ آج تک بطورِ شاعر اتنی شہرت و مقبولیت کیوں حاصل نہ کر سکے جو وہ گیت نگاری یا موسیقی میں رکھتے ہیں؟

اگر یہ پوشیدہ صفتِ خاص سوئیڈش اکیڈمی کی اٹھارہ رکنی ٹیم کو نظر آ گئی تو میدانِ ادب میں ان کا مقام و مرتبہ ادبی معیارات کی درجہ بندی کرنے والے ناقدین سے کیونکر چھپا رہا؟

ادب کی وسعتوں کو پھیلاتے ہوئے اکیڈمی سیاست و صحافت کے بعد گیت نگاری کو بھی 'ادب' ہونے کا شرف بخشتی ہے تو عین ممکن ہے کہ آئندہ سال ادب کا نوبیل انعام ہالی وڈ کے کسی اسکرپٹ رائٹر کو بھی دے دیا جائے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں