ایک بار کسی شخص نے ایک دانا سے سوال کیا کہ حماقت کی تعریف کیا ہے۔ انہوں نے جواب دیا، ’'اگر کوئی شخص ایک ہی نتیجہ حاصل کرنے کے لیے بار بار ایک ہی عمل کرتا رہے اور یہ توقع رکھے کہ نتیجہ بدل جائے گا، تو وہ شخص حماقت کا شکار ہے۔

عمران خان کے بار بار دھرنوں اور تھرڈ امپائرز کے مطالبوں پر یہ تعریف درست بیٹھتی ہے، مگر اس بار وہ اپنا عزم پورا کرنے میں پختہ نظر آ رہے ہیں۔

کیا اس بار نتیجہ مختلف ہوگا؟ اور سب سے زیادہ ضروری بات یہ کہ، کیا وہ قانون کے تحت قصوروار ہیں؟

شروعات اس بات سے کرتے ہیں کہ، حالیہ تمام احتجاجی مظاہروں کا مقصد وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے 'پانامہ گیٹ' لیکس، جو کہ عمران خان کی نظر میں کرپشن کا ایک ثبوت ہے، میں ملوث ہونے کے خلاف احتجاج ہے۔

تو جب تک وزیر اعظم ایک جائز تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے، تب تک یہ احتجاج معقول تھا۔ مگر اب یہ کیس سپریم کورٹ تک جا پہنچا ہے اور وزیر اعظم نے عدالت کو اپنے تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔ تو پھر بھی احتجاج جاری رکھنے کا کیا جواز ہے، اور وہ بھی اسلام آباد میں؟ مگر اس پر تفصیلی بات بعد میں کریں گے۔

عمران خان نے کئی ہفتوں پہلے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ اسلام آباد کو بند کریں گے، جس کی اصل تاریخ 30 اکتوبر مقرر کی اور بعد میں 2 نومبر مقرر کر دی۔

کوئی بھی سمجھدار حکومت اس صورت میں جلد سے جلد عدالتوں سے رجوع کرتی کہ آیا دارالحکومت کو، بھلے تھوڑے عرصے کے لیے ہی، بند کرنا کسی بھی حکومت کے خلاف ’احتجاج کے حق' میں شامل ہے یا نہیں۔ مگر دور اندیشی کا فقدان ہماری قیادت میں موجود سنگین کمزوریوں میں سے ہی ایک ہے۔

23 اکتوبر کو ایک عوامی جلسے کو خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ اگر اسلام آباد بند ہونے کے نتیجے میں ’تیسری قوت‘ (اس بار لفظ امپائر استعمال نہیں کیا) ’’جمہوریت کو ڈی ریل یا مداخلت کرتی ہے تو ذمہ دار وزیر اعظم ہوں گے۔‘‘ وہ اس حیران کن نتیجے پر کیسے پہنچے، یہ ہماری بحث کا محور نہیں۔

عمران خان نے بعد ازاں یہ بھی کہا کہ وہ مارشل لا کی حمایت نہیں کریں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’اگر لاک ڈاؤن کو روکنے کے لیے پولیس کا استعمال کیا گیا تو وزیرِ اعلیٰ پنجاب کو اس کی قیمت چکانی ہوگی۔‘‘

ایک طالب علم نے دارالحکومت کو بند کرنے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی۔ اس 'عام شہری کی درخواست‘ کے جواب میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے 27 اکتوبر کو (نافذالعمل) حکم جاری کیا کہ دارالحکومت کو بند کرنا احتجاج کے حق کا قانونی حصہ نہیں ہے، یہ کہ احتجاج ایسی جگہ تک محدود رہے جہاں عوام الناس کو کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے، اور یہ کہ کسی بھی فریق کی جانب سے دارالحکومت کے نہ داخلی اور نہ ہی خارجی راستوں کو بند کیا جائے۔

میرے نزدیک یہ واضح طور پر ایک منصفانہ فیصلہ ہے۔ بظاہر عمران خان نے ایسا نہیں سوچا اور اس فیصلے پر عمل نہ کرنے اور اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کے ارادے کا اظہار کیا۔ ان کا یہ اظہار ریکارڈ پر موجود ہے جبکہ اپیل تا حال دائر نہیں کی گئی۔

مگر اس کے بعد وہ کیا کہہ رہے ہیں؟

اگر ہم تمام نقطے ملائیں تو ہمیں یہ تحریر پڑھنے کو ملے گی: ’میں عمران خان، اسلام آباد کو زبردستی بند کروں گا۔ اگر اس کو روکنے میں پولیس کا استعمال کیا گیا تو ہم بھی طاقت کا استعمال کریں گے۔ اگر ان ہنگامہ آرائیوں میں کسی کا بھی خون بہا تو ذمہ داری حکومت کی ہوگی۔ اگر حالات قابو سے باہر ہو گئے اور اس کے نتیجے میں تیسری قوت (فوجی مداخلت کی جانب واضح حوالہ) مداخلت کرتی ہے اور جمہوریت کو ڈی ریل کر دیتی ہے تو اس کی بھی ذمہ داری میری نہیں ہوگی۔' اور عدالتی فیصلے کے بعد لگتا ہے کہ انہوں نے اس میں ایک اور عبارت کا اضافہ کر دیا ہے کہ، ’اگر عدالتیں ہمارے خلاف فیصلے سنائیں گی تو ہم ان کے احکامات کی خلاف ورزی کریں گے۔'

کوٹیشن میں موجود الفاظ شاید عمران خان کی پوزیشن کو بہتر انداز میں واضح کرتے ہیں اور اس میں کسی قسم کے ڈھکے چھپے اشارے کنایے نہیں ہیں۔

مگر پہلے، میرے ابتدائی سوال کی جانب لوٹتے ہیں کہ اب جب مسئلہ عدالت میں زیرِ سماعت ہے تو پھر بھی احتجاجی مظاہروں کو کیوں جاری رکھا جائے، اور وہ بھی اسلام آباد میں؟

میری قانون کی معلومات بنیادی ہیں اور جو علم حاصل ہوا وہ فوج پر پاکستان ملٹری لاء کے مینوئل کے تحت قانونِ عامہ کے اطلاق سے ہوا۔ مگر بنیادی اصولوں کے بارے میں میری فہم شاید تھوڑی بہتر ہے۔

یہاں حیرت انگیز طور پر عدالت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش دکھائی دے رہی ہے۔ اگر عمران خان کا اسلام آباد ہائی کورٹ کا مقابلہ کرنے کے اعلان کو اٹھا کر دیکھیں تو یہ بھی سپریم کورٹ پر ان کے حق میں فیصلہ دینے کے لیے دباؤ ڈالنے کے قریب ہے۔ چلیے آگے بڑھتے ہیں۔

23 اکتوبر کو عوامی جلسے سے خطاب کے دوران عمران خان کے الفاظ فوج کو مداخلت کرنے مگر مارشل لا نافذ نہ کرنے کی دعوت دینے (یا اکسانے) کا مفہوم پیدا کرسکتے ہیں؟ کیوں کہ اس بارے میں اگر معقول طور پر صرف یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے تو کیا اس کا مطلب منتخب حکومت کے خلاف ’’مسلح افواج کو بغاوت کے لیے اکسانے’’ کے برابر نہیں ہوگا؟

کیا یہ بغاوت کے زمرے میں نہیں آتا؟

اور آخر میں، بھلے ہی عمران خان کا اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کرنے کے ارادے کا اعلان توہینِ عدالت کے مترادف نہیں ہے، مگر جب وہ ایسا کریں گے تو کیا وہ ’توہین عدالت' نہیں ہوگی؟ اور اگر اشتعال انگیزی کے نتیجے میں خون بہا تو کیا اس کے ذمہ دار صرف اور صرف عمران خان نہیں ہوں گے؟

یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ کافی جامع ہے۔ اس فیصلے میں یہ الفاظ بھی شامل ہیں کہ، ’جرم صرف تب ہی ہوتا ہے جب اسے سر انجام دیا جائے۔ پر اگر یہ ناگزیر دکھائی دے، تو انتظامیہ اسے روکنے کا اختیار رکھتی ہے۔‘ اس طرح ریاست کو اختیار مل جاتا ہے کہ وہ اسلام آباد میں لاک ڈاؤن کو روکنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے۔

یہ مضمون 30 اکتوبر 2016 کو ڈان اخبار میں شایع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں