خزاں اور وادئ ہنزہ کا رومانس

خزاں اور وادئ ہنزہ کا رومانس

رمضان رفیق

ہم نے آج تک خزاں کو پیلے رنگ اور اُداسی کا استعارہ ہی سمجھا تھا، مگر موسم خزاں میں جب ہم ہنزہ، گلگت بلتستان پہنچے تو ہم پر یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ خزاں درحقیقت بے رنگ نہیں ہوتی بلکہ اِس کے اپنے ہی الگ رنگ ہوتے ہیں۔

زمین پر رنگوں کے اَن گنت خزینے دیکھ کر ہماری کوتاہ نظری شرمندہ تھی، اپنے کنوئیں سے نکل کر ہم نے دیکھا تو خزاں کو بہت خوبصورت پایا، وہ جو پتوں کا جھڑنا اور رنگ بدلنا تھا وہ سب نئے مفاہیم سے آشنا ہوا۔ ویسے تو سفر کا آغاز اسلام آباد سے ہوا، لیکن چلاس تک کا سفر ہم اِس شمار میں نہیں لاتے۔ دریائے سندھ کے کنارے کنارے چلتی قراقرم ہائی وے، جو اب سی پیک کا راستہ بھی ہے، کسی عجوبے سے کم نہیں، فلک بوس پہاڑوں کے دامن سے لپٹی ہوئی یہ ننہی مُنی سڑکیں دستِ قدرت کی شان و شکوہ کے سامنے ہیچ دکھائی دیتی ہیں، لیکن انسان کے لیے یہ بھی غنیمت ہے کہ اِس کی تدبیر ثمر بار ثابت ہوتی ہے اور چپکے چپکے انہی پہاڑوں کے دامن میں سے راستے پاتا جاتا ہے۔

ہنزہ وادی میں موسم خزاں کے رنگ —تصویر رمضان رفیق
ہنزہ وادی میں موسم خزاں کے رنگ —تصویر رمضان رفیق

یہاں آنے سے پہلے ہم نے تو خزاں کو تو فقط اُداسی کا استعارہ ہی سمجھا جاتا تھا—تصویر رمضان رفیق
یہاں آنے سے پہلے ہم نے تو خزاں کو تو فقط اُداسی کا استعارہ ہی سمجھا جاتا تھا—تصویر رمضان رفیق

خزاں اور وادی ہنزہ کا رومانس اپنے عروج پر دیکھا—تصویر رمضان رفیق
خزاں اور وادی ہنزہ کا رومانس اپنے عروج پر دیکھا—تصویر رمضان رفیق

وادی ہنزہ میں آکر خزاں کے رنگ دیکھنا کسی تجربے سے کم نہیں—تصویر رمضان رفیق
وادی ہنزہ میں آکر خزاں کے رنگ دیکھنا کسی تجربے سے کم نہیں—تصویر رمضان رفیق

وہ خزاں اور رنگ جسے دیکھنے کے لیے ہم نکلے تھے، اُس کا اصل موسم تو کچھ ایک ماہ پہلے ہی شروع ہوچکا تھا۔ کچھ دوستوں کا کہنا تھا کہ ہم تھوڑی تاخیر سے جارہے ہیں، لیکن اکتوبر کے آخری ہفتے کے یہ رنگ بھی ہم جیسے قدرت پسندوں کے لیے غنیمت سے کم نہ تھے۔

چلاس کے بعد کچھ جگہوں پر اُن رنگوں کی جھلک دکھائی دینے لگی تھی اور بالآخر شام ڈھلے ہم کریم آباد ہنزہ جا پہنچے تھے۔ یہاں ہمارا پہلا اسٹاپ التت نامی قلعہ تھا، قلعے کا راستہ فطرت دوست گاؤں اور خوبانیوں کے باغ سے ہوکر گزرتا تھا۔

ہم نے قلعے کے اندر جانے کی ٹکٹ خریدی جس کی قیمت ساڑھے تین سو روپے کے لگ بھگ تھی۔ بقول گائیڈ ٹکٹ سے جمع شدہ روپوں کو قلعے کی مرمت اور متعلقہ کاموں کے لیے خرچ کیا جاتا ہے، اِس بات کو سُن کر ایک گونا تسلی ہوتی ہے کہ آپ کی طرف سے دیے گئے کچھ روپے درست سمت میں خرچ کیے جا رہے ہیں۔

کریم آباد میں صبح کا پہر—تصویر رمضان رفیق
کریم آباد میں صبح کا پہر—تصویر رمضان رفیق

کریم آباد میں خزاں کی صبح—تصویر رمضان رفیق
کریم آباد میں خزاں کی صبح—تصویر رمضان رفیق

التت قلعے کے ساتھ واقع ایک گاؤں—تصویر رمضان رفیق
التت قلعے کے ساتھ واقع ایک گاؤں—تصویر رمضان رفیق

التت قلعے سے متصل باغ—تصویر رمضان رفیق
التت قلعے سے متصل باغ—تصویر رمضان رفیق

باغ کے اندر قلعے تک جانے والی پگ ڈنڈی کچی تھی اور اُس پر درختوں کا برادہ بچھایا گیا تھا، جس کی وجہ سے اُس چھوٹی سی پگڈنڈی پر چلنا اپنے آپ میں ایک تجربہ تھا۔ قلعے کے دروازے پر خوش لباس ایک گائیڈ نے روایتی انداز میں ہمارا استقبال کیا، اِس قلعے کی تاریخ ہزار سال کے لگ بھگ پرانی ہے، پرانے زمانے میں شاہراہِ ریشم پر نقل و حمل کو کنٹرول کرنے اور بیرونی حملہ آوروں سے شہر کو بچانے کے لیے یہ قلعہ تعمیر کروایا گیا تھا۔

اِس قلعے کے در و دیوار کو بطریق اصل دیکھ کر خوشی محسوس ہوئی، قلعے سے متصل گاؤں کو بھی اِس کی اصل حالت میں محفوظ رکھنے کے منصوبے پر بھی کام چل رہا ہے، قلعے کی چھت سے یہ گاؤں بہت ہی خوبصورت دکھائی دیا۔ دور ایک دالان میں گاؤں کی بوڑھیاں بیٹھک جمائے دکھائی دے رہی تھیں جبکہ کچھ چھتوں پر کٹے ہوئے سیب سکھانے کے لیے رکھے ہوئے تھے۔ ایک آدھ چھت پر پڑے کدو، پتھر کی چنائی سے بنے ہوئے پردے اور لکڑی کی سیڑھیاں، ایک عہدِ گم گشتہ کی تصویر کشی کر رہی تھیں، اور دور پیچھے خزاں کے رنگوں نے اس ماحول کو جادوئی سا بنا دیا تھا۔

قلعے سے واپس آتے ہوئے خوبانی کے باغ کے منفرد رنگ میں نے تصویر میں قید کرلیے۔ خواہش تو تھی کہ اِس گاؤں کی گلیاں بھی آپ کو دکھاؤں لیکن وہاں تصاویر لینے کی ممانعت کے نوٹس لگے دیکھ کر باز رہا۔ گاؤں کی گلی کے کونے پر ایک بورڈ پر نظر پڑی جس پر لکھا ہوا تھا کہ آپ ہنزہ کا ہوم فوڈ آرڈر کرسکتے ہیں۔ یہاں پر ایک کلچرل کیفے بھی ہے جہاں آرگینک خوبانی کا جوس دستیاب ہے، علاوہ ازیں مقامی جڑی بوٹیاں، خشک خوبانیاں بھی دستیاب ہیں۔ اِس پورے بورڈ میں کچھ بات ایسی تھی کہ جو پاکستان کے دیگر بازاروں میں تلاشنے سے بھی نہ ملے۔

وادی ہنزہ خزاں کے خمار میں ڈوبا پایا—تصویر رمضان رفیق
وادی ہنزہ خزاں کے خمار میں ڈوبا پایا—تصویر رمضان رفیق

کچھ خبر نہیں کہ وادئ ہنزہ کے یہ درخت پتوں کے جھڑنے کا سوگ مناتے ہیں یا پھر باخوشی نئے پتوں کا شدت انتظار کرتے ہیں—تصویر رمضان رفیق
کچھ خبر نہیں کہ وادئ ہنزہ کے یہ درخت پتوں کے جھڑنے کا سوگ مناتے ہیں یا پھر باخوشی نئے پتوں کا شدت انتظار کرتے ہیں—تصویر رمضان رفیق

خزاں ہو یا بہار، وادی کی خوبصورتی میں کوئی فرق نہیں آتا—تصویر رمضان رفیق
خزاں ہو یا بہار، وادی کی خوبصورتی میں کوئی فرق نہیں آتا—تصویر رمضان رفیق

ایسا لگا کہ جیسے خزاں کا موسم ہمیشہ سے اس وادی میں ہمارا منتظر تھا—تصویر رمضان رفیق
ایسا لگا کہ جیسے خزاں کا موسم ہمیشہ سے اس وادی میں ہمارا منتظر تھا—تصویر رمضان رفیق

قلعے سے آتے آتے شام بھیگ چکی تھی، اگلے تین روز ہمارا قیام کریم آباد ہُنزہ کے ایک ہوٹل میں ہی تھا، اِس لیے باقی کے کام اگلے دن پر چھوڑ کر ہوٹل چلے آئے۔ اگلی صبح ہوٹل کے پچھلے دروازے کی طرف سے ہوتے ہوئے میں نیچے وادی میں اتر آیا، جہاں کھیتوں کی حدیں شروع ہو رہی تھیں۔ سامنے دور وادی میں رنگوں کی حکومت تھی، سُنہری رنگ، زرد رنگ، پیلے رنگ، آتشی رنگ اور اُسی نسل کے رنگوں کے مختلف شیڈز کو محسوس کیا جا سکتا تھا، ایسی خزاں اِس سے پہلے میں نے تصاویر میں ہی دیکھ رکھی تھی، اب پہلی بار اتنے رنگوں کی بارات اردگرد دیکھی تو مبہوت کھڑا دیکھتا رہا۔

اگلے تین دنوں کی صبحیں ٹؤر والے ساتھیوں سے نظر بچا کر ایک آدھ گھنٹے کے لیے اُن دلکش مناظر سے ہمکلام ہونے چلا آتا رہا۔ آخری دن کی صبح سب سے شاندار تھی، اُس صبح ہمیں ایگل نیسٹ نامی منزل کا بتایا گیا تھا۔ یہ کریم آباد کے سامنے ایک پہاڑی پر اونچی جگہ ہے، جہاں پر سورج نکلنے اور ڈوبنے کا منظر انتہائی قابل دید ہے۔ پچھلے دو دنوں میں ایک دو دکانداروں نے مجھ سے پوچھا بھی کہ ایگل نیسٹ ہو آئے لیکن میں نے اُنہیں بتایا کہ آخری دن وہاں جانا ہوگا، اِس لیے میرا اشتیاق اور اشتہا زوروں پر تھا۔

ایگل نیسٹ سے التت کا نظارہ—تصویر رمضان رفیق
ایگل نیسٹ سے التت کا نظارہ—تصویر رمضان رفیق

ایگل نیسٹ کے سفر کے دوران قید کیا گیا ایک منظر—تصویر رمضان رفیق
ایگل نیسٹ کے سفر کے دوران قید کیا گیا ایک منظر—تصویر رمضان رفیق

صبح 5 بجے ہمارا گروپ رخت سفر بندھ چکا تھا، سورج نکلنے کا وقت سوا 6 کے قریب تھا، ہم ساڑھے پانچ بجے ہی اُس پہاڑی پر جا پہنچے، لیکن یہ کیا کہ اُس پہاڑی پر چڑھتے ہی ایک بورڈ پر نظر پڑی جس پر لکھا تھا کہ اِس پہاڑی پر چڑھنا منع ہے۔ اُس بورڈ کو دیکھ کر دل بُجھ سا گیا، سوچا کہ ہوسکتا کہ ہم راستہ بھول گئے ہیں، لیکن دور پہاڑی کی چوٹی کی طرف چار پانچ سائے نظر آئے، لگ رہا تھا کہ کوئی ہم سے پہلے بھی اِس جگہ پر موجود ہے۔

احباب سے مشورہ ہوا، دوستوں نے کہا کہ یہ قصور ٹؤر کمپنی کا ہے جس نے ٹؤر پلان میں اِس جگہ کا نام لکھا ہوا ہے اور جب اِس پہاڑی پر چڑھنا منع ہے تو اہلیانِ شہر ہم سے پوچھ ہی کیوں رہے تھے کہ آپ ایگل نیسٹ ہو آئے کہ نہیں؟

ایگل نیسٹ سے طلوع آفتاب کا نظارہ—تصویر رمضان رفیق
ایگل نیسٹ سے طلوع آفتاب کا نظارہ—تصویر رمضان رفیق

یہ معمہ کون حل کرے گا کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ اتنے میں چائینز سیاحوں کی ایک اور کھیپ آ پہنچی۔ ہم بھی نظریں چُراتے اُوپر چوٹی تک جا پہنچے، طلوعِ آفتاب کے وقت تک 30 سے 40 افراد وہاں تک آچکے تھے، جن میں زیادہ تعداد غیر ملکی سیاحوں کی تھی۔ میرے قریب کھڑے چند غیر ملکی افراد کی تصاویر بنانے والے شخص کی گفتگو کانوں میں پڑی جو اپنا سلسلہ یہاں کی اشرافیہ سے جوڑ رہا تھا، اِسی اثناء میں سورج کی پہلی کرن پہاڑیوں کے پیچھے سے نمودار ہونا شروع ہوئیں۔ آسمان پر ایک خوبصورت پینٹنگ تخلیق پانے لگی، ایک کرن نے راکا پوشی کے ماتھے پر بوسہ دیا، جیسے ماں صبح صبح بچوں کو اٹھاتے ہوئے ہر ایک کی پیشانی چومتی ہے، اِس لمس نے برفیلی چوٹی کا رنگ ایک لمحے میں تبدیل کردیا تھا، بالکل ایسے کہ جس طرح کوئی بچہ اپنی ماں سے ملنے پر نہال ہوجاتا ہے۔

راکاپوشی پر سورج کی پہلی کرن—تصویر رمضان رفیق
راکاپوشی پر سورج کی پہلی کرن—تصویر رمضان رفیق

سورج کی کرنوں کی شدت بڑھنے لگی اور یوں رنگ مزید گہرے ہونے لگے، یوں میرے آگے فطری کینواس پر پینٹنگ کے رنگ مزید سنہری ہو رہے تھے، ایک دو کرنوں نے لیڈی فنگر کو بھی گُدگُدی کی اور اُس کی پیشانی بھی جگمگانے لگی۔

ایسے میں نجانے کہاں سے بادل کے شریر ٹکڑے کرنوں کے راستے میں حائل ہوگئے اور پورا منظر یکسر تبدیل ہوگیا، اب دن کی روشنی کا آغاز تو ہو رہا تھا لیکن چُوٹیوں پر کِرنوں کی اٹکھیلیاں ختم ہوگئی تھیں، باوجود خواہش کے یہ جادوئی لمحے چند ثانیوں میں ختم ہوگئے، کچھ ایک آدھ گھنٹے مزید اِن بادلوں کے چھٹنے کا انتظار کیا، لیکن آج سورج کی پہلی کرنوں کا یہ ناچ ہمارے نصیب میں نہ تھا، لیکن پھر بھی جتنا نظارا ہم نے کیا وہ بھی غنیمت تھا۔

لیڈی فنگر کی چوٹی اور خزاں کا موسم—تصویر رمضان رفیق
لیڈی فنگر کی چوٹی اور خزاں کا موسم—تصویر رمضان رفیق

واپسی پر اُس راستے سے آتے ہوئے ہنزہ کی خزاں کو اور بھی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ہمارے دوست حفیظ صاحب جو گاڑی چلا رہے تھے اور اُس علاقے سے بخوبی آشنا تھے، انہوں نے بہت خوبصورت موڑوں پر گاڑی روک روک کر فوٹو گرافی کرنے میں ہماری بھرپور مدد کی اور سچ میں ایسی جگہوں کی نشاندہی کوئی بار بار آنے والا ہی کرسکتا تھا۔

صبح ناشتے کے بعد بالتِت نامی قلعے پر جانے کا پروگرام بنایا گیا، جس مفہوم پر زیادہ لوگوں کا اتفاق پایا گیا وہ یہ تھا کہ بالِتت کا مطلب بالائی قلعہ یعنی اُونچا قلعہ اور التِت کا مطلب زیریں قلعہ یعنی اترائی والا قلعہ ہے۔ ہمارا ہوٹل بلتِت نامی قلعے سے 6 سے 7 سو میٹر کے فاصلے پر تھا، لہٰذا ناشتے کے بعد اُسی جانب چل پڑے۔ قلعہ کا دروازہ ابھی کُھلا ہی گیا تھا کہ ہم وہاں جا پہنچے، وہاں موجود ہمارے گائیڈ نے قلعے کے بننے اور بگڑنے کی کہانی سنائی۔ اُس قلعے کی ساخت اور اسٹرکچر کو محفوظ حالت میں دیکھ کر اطمینان ہوا کہ اگر ہم طے کرلیں تو ہم اپنی ثقافت کو محفوظ کرنے کی ذمہ داری بطریق احسن نبھا سکتے ہیں۔

کریم آباد سے بلتت قلعے کا نظارہ—تصویر رمضان رفیق
کریم آباد سے بلتت قلعے کا نظارہ—تصویر رمضان رفیق

بلتت قلعے سے وادی کا نظارہ —تصویر رمضان رفیق
بلتت قلعے سے وادی کا نظارہ —تصویر رمضان رفیق

خزاں میں کریم آباد کے رنگ —تصویر رمضان رفیق
خزاں میں کریم آباد کے رنگ —تصویر رمضان رفیق

کریم آباد ہنزہ کا دل ہے، اِس کے اردگرد خزاں کے بکھرے رنگ الِتت اور بالتِت قلعوں کو آتے جاتے یوں نظروں کو گھیرے ہوئے تھے کہ اِس ساری تصویر میں ایک جان سی پڑگئی تھی۔ اِس بے جان منظر میں ایسی روح اُمڈ آئی تھی کہ آپ خود بھی اُن رنگ برنگ پتوں، پودوں اور درختوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ ہنزہ کی خزاں کا نقطہ عروج ایگل نیسٹ سے واپسی کا راستہ تھا، جہاں پیلے، زرد، سنہری پڑ جانے والے پتوں کو بہت قریب سے دیکھا جاسکتا تھا۔

میرے لیے اِس سے بڑھ کر خوش کن بات کوئی اور نہ تھی کہ اِس رنگ و نور کی برسات نے مجھ سمیت میرے شریک سفر دوستوں کو ایک نئی خوشی سے آشنا کیا تھا۔ ایسی خوشی جو ہر سال ہنزہ اور اُس کے اِرد گِرد اترتی ہے اور چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہے۔ اگر آپ کو بھی زندگی موقع دے تو اِن خزاں رنگوں کی بہار دیکھنے ضرور جائیے گا اور ہاں ہنزہ کے لوگ، اُن کی خوش اخلاقی، ملنساری، مہمان نوازی، اُٹھنا بیٹھنا ایک الگ باب کی متقاضی ہے، بس اتنا کہوں گا کہ اگر آپ کے پاس دل ہے تو اہل ہنزہ دل موہ لینے کا ہنر جانتے ہیں۔


رمضان رفیق کوپن ہیگن میں رہتے ہیں، اور ایگری ہنٹ نامی ویب سائٹ چلاتے ہیں۔

انہیں فیس بک پر یہاں فالو کریں


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔