واشنگٹن: ٹرمپ انتظامیہ نے نئی جوہری حکمت عملی متعارف کرادی جس کے تحت امریکا نئے ٹیکٹکل جوہری ہتھیار بنانے کے ساتھ ساتھ ایٹمی اور غیر ایٹمی حملے کے فوری جواب کا ارتکاب کر سکتا ہے۔

’نیوکلیئر پوسچر ری ویو 2018‘ کے نام سے سامنے آنے والی نئی امریکی حکمت عملی میں چین اور روس کو امریکا کے اہم جوہری حریف قرار دیا گیا ہے کیونکہ دونوں ممالک ہی ٹیکٹکل جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں مصروف ہیں۔

امریکی حکام کے مطابق مذکورہ حکمت عملی تمام ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کو خبردار کرتی ہے کہ اگر جوہری ہتھیار دہشت گردوں کی دسترس میں پہنچ گئے تو واشنگٹن اس کے احتساب کا ذمہ دار ہوگا۔

امریکا کے ریاستی سیاسی امور کے اسسٹنٹ سیکریٹری تھامس شینن نے کہا کہ امریکا کے لیے مزاحمت کے حوالے سے ضروری ہے کہ وہ اپنے دفاع کے لیے اپنی صلاحیتوں کو برقرار رکھے جبکہ امریکا ایٹمی حملے کے خطرے کے پیش نظر جوہری اور غیر جوہری پناہ گاہوں کو پوری قوت کے ساتھ نشانہ بنا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا کیلئے چین، روس سے بڑا خطرہ قرار

انہوں نے کسی بھی جوہری حملے کے پیشِ نظر امریکا کے ردِ عمل کو مسترد نہیں کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ امریکا انتہائی نامساعد حالات میں اپنے اور اتحادیوں کے دفاع کے لیے جوہری ہتھیار استعمال کرنے پر غور کرسکتا ہے۔

تھامس شینن کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ نئی حکمت عملی میں ذمہ داری لی گئی ہے کہ کسی بھی جوہری دہشت گردی کے بارے میں معلوم حاصل کرنے کے لیے، اس سے بچنے اور جوابی کارروائی کرنے کی کوششوں کو مزید بہتر کیا جائے گا۔

انہوں نے امریکا کی اس پوزیشن پر وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ امریکا دہشت گردوں کی معاونت کرنے والوں یا جوہری ہتھیار رکھنے والے ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کا احتساب کرے گا۔

خیال رہے کہ تھامس شینن امریکا کے ان چند اعلیٰ حکام میں سے ایک ہیں جنہوں نے اس پالیسی کے بارے میں میڈیا کو آگاہ کیا جبکہ جوہری دہشت گردی کو امریکا کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا : ٹرمپ کی کامیابی کے پیچھے روس کا کردار

ان کا کہنا تھا کہ ’غیر ریاستی عناصر کا جوہری ہتھیاروں تک پہنچنے کا خطرہ ہمارے دماغ میں موجود ہے، تاہم ہمیں اس خطرے کو ختم کرنے کے لیے ہر موقع پر کام کرنا ہے‘۔

نئی امریکی حکمت عملی امریکا کو نئی ٹیکٹکل جوہری ہتھیار بنانے کی اجازت دیتی ہے جبکہ امریکی حکام کا ماننا ہے کہ یہ ہتھیار واشنگٹن کے دفاع میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

مذکورہ حکمت عملی میں چین اور روس کو اپنا مرکزی جوہری حریف اور خطرہ سمجھا گیا ہے، اور دعویٰ کیا گیا کہ بیجنگ اور ماسکو اپنے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے میں ٹیکٹکل ہتھیاروں کا اضافہ کر رہے ہیں۔

امریکی حکمت عملی میں شمالی کوریا کا بھی تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پیانگ یانگ کا غیر قانونی طور پر نیوکلیئر میزائل ٹیکنالوجی حاصل کرنا اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی براہِ راست خلاف ورزی ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا، یوکرین کو ہتھیار دینے سے باز رہے: روس

بعدِ ازاں ایران کا بھی ذکر کیا گیا جس نے امریکا سمیت دیگر طاقت ور ریاستوں سے دو سال قبل اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے لیے معاہدے کیے تھے۔

تاہم نئی حکمت عملی میں دعویٰ کیا گیا کہ معاہدوں کے باوجود ایران نے اپنی جوہری صلاحیت کو برقرار رکھا ہوا ہے۔

اپنے ایک بیان میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بین الاقوامی برادری کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کی نئی حکمت عملی جوہری ہتھیاروں کے استعمال کو کم کرتی ہے جبکہ امریکا اور اتحادی مملک کے خلاف جوہری حملے کے دفاع کو مزید بہتر بناتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چین اور روس ‘دہشت گردی’ سے بڑھ کر خطرہ ہیں، امریکا

ان کا مزید کہنا تھا کہ نئی حکمت عملی واشنگٹن کے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے حوالے سے عزم کو مضبوط کرتی ہے اور جوہری تجربے کی پابندی کو برقرار رکھتی ہے۔

دوسری جانب روسی وزیر خارجہ سرگئی لورو کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ روس کو امریکی کی نئی ’محاذ آرائی‘ کرنے والی جوہری حکمت عملی سے بہت مایوسی ہوئی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پالیسی کو پڑھنے کی ابتدا میں ہی روس مخالف محاذ آرا کردار ابھر کے سامنے آتا ہے۔


یہ خبر 04 فروری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں