بدھا پیسٹ کی خوبصورتی کسی مصرعہ تر کی طرح دل میں اترتی ہے

بدھا پیسٹ کی خوبصورتی کسی مصرعہ تر کی طرح دل میں اترتی ہے

رمضان رفیق

بدھا پیسٹ ہنگری کا دارالحکومت ہے اور میرے روڈ ٹرپ کی آخری منزل۔ یہ شہر بلاشبہ ایک پوسٹ کارڈ کی طرح خوبصورت ہے، دریا ڈینیوپ کے کنارے کھڑے ہو کر بدھا یا پیسٹ کی طرف دیکھیں تو شہر کے دونوں حصوں کو ملانے والا پل اور پس منظر میں عمارتوں کے نقش ایک ایسی پینٹنگ بناتے ہیں کہ آدمی خود کو کسی تصویر کا حصہ سمجھنے لگے۔

جیسا کے نام سے بھی ظاہر ہے کہ دریا کے دونوں کناروں پر بدھا اور پیسٹ نامی 2 علاقے آباد ہیں جن کا نام بدھا اور پیسٹ ہے، انہی ناموں کے ملاپ سے شہر کا نام بدھا پیسٹ بنا ہے۔ لفظ بدھا رومن زبان میں پانی کے لیے استعمال ہوتا ہے، اس کا ہمارے والے مہاتما بدھا صاحب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ شہر کا بلندی پر واقع حصہ ہے اور زیادہ تر پوش لوگوں کا مسکن، جبکہ مشرقی حصہ پیسٹ ہے اور سلواکی زبان میں پیسٹ کا لفظ مشرق کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ ہموار حصہ ہے اور شہر کی زیادہ آبادی اسی طرف ہی بستی ہے۔

پچھلے ہفتے ہی بدھا پیسٹ سے 2 خط موصول ہوئے ہیں کہ آپ کی گاڑی کو ملک میں داخل ہونے کا قانونی اجازت نامہ حاصل نہیں تھا اس لیے آپ کو 580 ڈینش کرون جرمانہ کیا جاتا ہے، اور یہ جرمانہ داخل ہوتے ہوئے اور نکلتے ہوئے گاڑی کی تصویر کے ساتھ بھیجا گیا ہے۔ میرے علم میں نہ تھا کہ ہنگری میں داخل ہونے کے لیے بھی کسی پرمٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔

بدھا پیسٹ ہنگری کا دارلحکومت ہے—تصویر رمضان رفیق
بدھا پیسٹ ہنگری کا دارلحکومت ہے—تصویر رمضان رفیق

شہر کے 2 حصوں کو ملانے والا پل—تصویر رمضان رفیق
شہر کے 2 حصوں کو ملانے والا پل—تصویر رمضان رفیق

بدھا پیسٹ میں دریا کنارے—تصویر رمضان رفیق
بدھا پیسٹ میں دریا کنارے—تصویر رمضان رفیق

بدھا پیسٹ —تصویر رمضان رفیق
بدھا پیسٹ —تصویر رمضان رفیق

آسٹریا کی موٹر وے پر سفر کرنے کے لیے ایک ہفتے کا ایک پاس جو ایک اسٹکر کی صورت ہوتا ہے، درکار ہوتا ہے جو میں نے آسٹریا میں داخل ہونے سے پہلے ہی ایک پٹرول پمپ سے خرید لیا تھا، اس کی قیمت 12 یورو تھی۔ ایسا ہی داخلہ ٹکٹ آپ کو سوئس موٹر وے کے لیے بھی درکار ہوتا ہے جس کی قیمت غالباً 40 یورو کے لگ بھگ ہوتی ہے، لیکن میرے علم میں یہ بات نہیں تھی اس لیے اب جرمانہ بھرچکا ہوں اور بدھا پیسٹ کی یادوں کے ساتھ 1160 کرون یعنی لگ بھگ 24 ہزار پاکستانی روپے کا جرمانہ بھی شامل ہوگیا ہے۔

ویانا سے براستہ براٹسلاوا ہم بدھا پیسٹ پہنچے تھے۔ گاڑی پر تقریباً 4 گھنٹے کا یہ سفر ہم نے چھوٹے چھوٹے شہروں اور ہائی ویز کے ذریعے طے کیا تھا۔ قانون کی پاسداری، شاندار سڑکیں، لوگوں کا نظم و ضبط عمومی طور پر یورپ کے سبھی حصوں میں دکھائی دیتا ہے۔ ہم نے اپنی گاڑی ہوٹل کی پارکنگ میں کھڑی کی اور شہر کو عوامی ٹرانسپورٹ پر ہی دیکھنے کا فیصلہ کیا۔

پچھلے 7 دن کے مسلسل سفر نے سیر کی لذت کچھ کم کردی تھی لیکن پھر بھی ایک نیا شہر کھوجنے کی جستجو من پر چھائی ہوئی تھی۔ ہوٹل کے استقبالیے پر موجود فرد سے شہر جانے والے راستے کا پوچھا اور بس پر جا چڑھے۔ بس والے کو کچھ یورو پیش کیے لیکن وہ کرایہ اپنی کرنسی میں لینے کا خواہشمند تھا۔ اب مسئلہ ایک اور یہ بھی تھا کہ انگریزی زبان سے وہ ناآشنا تھا اور ہمیں اس کی زبان نہیں آتی تھی، لیکن وہاں آس پاس کچھ اور مسافر بھی تھے مگر کسی نے ہماری مشکل کو کم کرنے کے لیے آگے آنے کی زحمت نہیں کیا، جس کا بظاہر مطلب تو یہ تھا کہ انگریزی کی طرف سے کئی لوگوں کا ہاتھ تنگ ہی تھا۔ خیر ڈرائیور نے ہماری طرف سے دیے جانے والے چند یورو کے سکے رکھ لیے اور ہم بس میں انجانی سمت کی طرف چل پڑے۔ اپنے اندازے سے ہی ایک اسٹاپ پر اتر گئے، یہاں پر سامنے ہی ایک میوزیم طرز کی عمارت اور سیاحوں کو سیر کروانے والی گاڑی نظر آ رہی تھی۔

یہ جگہ بدھا محل کا پچھلا حصہ تھا، یہاں پر سامنے ہی ایک بلند و بالا عمارت کے سامنے بہت خوبصورت مجسمے سجائے گئے تھے اور ان عمارتوں اور مجسموں کو دیکھ کر مجھے لگا کہ یہاں اترجانا چاہیے۔ یہ غالباً نیشنل گیلری کا حصہ ہے، یہاں سے ہم سیرسپاٹے کرتے ہوئے دریائے ڈینیوب کے کنارے تک چلے آئے۔

بدھا محل—تصویر رمضان رفیق
بدھا محل—تصویر رمضان رفیق

شہر کی سیر کروانے والا ایک جہاز—تصویر رمضان رفیق
شہر کی سیر کروانے والا ایک جہاز—تصویر رمضان رفیق

نیشنل گیلری کے باہر ایستادہ مجسمے—تصویر رمضان رفیق
نیشنل گیلری کے باہر ایستادہ مجسمے—تصویر رمضان رفیق

پارلیمنٹ کا پچھلا حصہ—تصویر رمضان رفیق
پارلیمنٹ کا پچھلا حصہ—تصویر رمضان رفیق

دریا کے دونوں کناروں پر بسا ہوا شہر کتاب کی ایک تصویر کی طرح محسوس ہوتا ہے، بلند و بالا عمارتیں، ان کے درمیان سے گزرتا ہوا دریا، اور پانی پر ایک پل، دریا میں چلتی ہوئی کشتیاں اور جہاز، کناروں پر دوڑتے بھاگتے لوگ، اطراف کی سڑکوں پر رواں دواں گاڑیاں، ابھی شہر کی طرف نگاہ سے ہٹی تو بائیں جانب ایک میوزیم کے باہر لگے دیو ہیکل مجسموں نے توجہ اپنی جانب مبذول کروائی۔ یہ جنگِ عظیم کی یادگار کے مجسمے ہیں، جن میں ایک سپاہی کے ہاتھوں میں دوسرا سپاہی دم توڑ رہا ہے، مرنے والے کا جھولتا ہوا بدن اور سنبھالنے والے کے چہرے کا کرب مجسمہ ساز کے ہنر کو داد دیتا دکھائی دیتا ہے۔

یہاں سے ہم دریا کے کنارے چلتے چلتے چین پل یا زنجیر پل کی طرف چل پڑے۔ دریا کے کنارے کنارے میٹرو ٹرین کا ٹریک بھی ہے، ساتھ ہی پیدل چلنے والوں، سائیکل والوں اور جاگنگ کرنے والوں کے لیے بھی راستہ بنایا گیا ہے۔ ہم ایسے اجنبی شہر کی عمارتوں میں تصویریں ڈھونڈھ رہے تھے جبکہ جن کا یہ اپنا شہر ہے وہ ہم جیسے پردیسیوں سے بے نیاز جاگنگ کرنے اور دوڑ لگانے میں مصروف تھے۔

جنگ کے یادگاری مجسمے—تصویر رمضان رفیق
جنگ کے یادگاری مجسمے—تصویر رمضان رفیق

چین پل، بدھا پیسٹ—تصویر رمضان رفیق
چین پل، بدھا پیسٹ—تصویر رمضان رفیق

بلاشبہ یہاں اس کنارے پر کھڑے ہو کر زندگی کی بھرپور روانی کا احساس ہو رہا تھا، بائیں طرف نیشنل گیلری اور قلعے کو جانے والوں کا رش تھا، کچھ آگے جا کر چین پل کے سامنے بنے چوراہے کے پیچھے ایک چئیر لفٹ طرز کی سہولت لوگوں کو نیچے سے اوپر لے جاتی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔ ہم پل کے ذریعے شہر کے ایک حصے سے دوسرے میں چلے آئے، دونوں کناروں کی گہما گہمی میں کوئی خاص فرق نہیں تھا۔ یہاں سے ہماری اگلی منزل پارلیمنٹ کی خوبصورت عمارت تھی اور ہم دریا کے دوسرے کنارے چلتے چلتے اس طرف جا رہے تھے۔

دریا میں چلنے والے اس سائز کے بڑے بڑے سیاحتی کروز میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے۔ شاید یہاں دریا کا پانی گہرا ہوگا یا سیاحوں کی بڑی تعداد کے پیش نظر ایسا ہوگا۔ یہ کروز پانی کے سینے پر تیرتے ہوئے لائیو کیفے بھی ہیں، جہاں میوزک اور کھانے پینے کا اہتمام کیا جاتا ہے، لیکن ہمیں شام ڈھلنے سے پہلے باقی کا شہر بھی دیکھنا تھا، اس لیے ہم کروز پر سفر کرنے کے بجائے آگے بڑھ گئے۔ اس کنارے پر دریائے ڈینوب کے کنارے پڑے ہوئے جوتے دیکھنے والوں کی خاصی تعداد موجود تھی۔ یہاں یہ جوتے 45ء-1944ء میں دریا کے کنارے قتل کردیے جانے والے لوگوں کی یادگار کے طور پر رکھے گئے ہیں۔ لوہے سے بنائے گئے جوتے اور دریا کا کنارا، ایسے طاقتور استعارے ہیں کہ شام قتل کی ساری واردات کی تصویر کشی کرتے نظر آتے ہیں۔

پارلیمنٹ کی عمارت—تصویر رمضان رفیق
پارلیمنٹ کی عمارت—تصویر رمضان رفیق

45ء-1944ء میں دریا کے کنارے قتل کردیے جانے والے لوگوں کی یادگار کے طور پر لوہے سے بنائے گئے جوتے—تصویر رمضان رفیق
45ء-1944ء میں دریا کے کنارے قتل کردیے جانے والے لوگوں کی یادگار کے طور پر لوہے سے بنائے گئے جوتے—تصویر رمضان رفیق

پارلیمنٹ کے سامنے واقع چوراہا—تصویر رمضان رفیق
پارلیمنٹ کے سامنے واقع چوراہا—تصویر رمضان رفیق

پارلیمنٹ کے سامنے کا حصہ—تصویر رمضان رفیق
پارلیمنٹ کے سامنے کا حصہ—تصویر رمضان رفیق

اسی کنارے سے پیچھے بدھا پیسٹ کی نمائندہ عمارت ہنگرین پارلیمنٹ واقع ہے، یہاں سے چند سیڑھیاں چڑھ کر ایک بڑے اسکوائر پہنچ جائیں گے، اس چوراہے کا نام ’کوسست اسکوائر‘ ہے اور پارلیمنٹ کی عمارت بھی اسی اسکوائر کا حصہ ہے۔ یہ علاقہ بہت خوبصورت طرز تعمیر کا حامل ہے اور جب ہم یہاں پہنچے تو اس وسیع و عریض اسکوائر کے سامنے چند لوگ اپنے مطالبات لیے احتجاج کے لیے آئے ہوئے تھے۔

ایک خاتون ماؤتھ پیس میں بول کر اپنے جذبات سے لوگوں کا لہو گرمانے اور عوامی شعور بیدار کرنے کی کوشش کر رہی تھی، مجھے تو اس زبان کی سمجھ بوجھ نہ تھی لیکن پاس سے گزرتے ہوئے لوگ بھی ایک آدھ ساعت کے لیے اس کی طرف دیکھتے اور آگے بڑھ جاتے۔ کچھ فاصلے پر پولیس کے 2 نوجوان آپس میں اس انداز میں گپ شپ کر رہے تھے کہ جیسے اس عورت کا احتجاج یہاں روز چلتا ہو اور اپنے گھر کی لڑائی کی طرح سنی ان سنی کرکے اپنی زندگی میں مصروف دکھائی دے رہے تھے،

ہم ابھی اسکوائر کے دوسرے کونے تک ہی پہنچے ہوں گے کہ اسکوائر کے فرش سے فوارے ابل پڑے، گرمی کے موسم میں پھوار کی ٹھنڈک اردگرد موجود لوگوں کو بھا رہی تھی۔ سارا ہجوم اس پھوار اور فواروں کی طرف بڑھ آیا، بچے، بڑے اس پھوار میں کھیلنے لگے اور احتجاج کرنے والوں کی آواز دب سی گئی۔ ویسے یہ آئیڈیا مجھے بڑا پسند آیا کہ پارلیمنٹ کے باہر فرش میں ہی ایسے مستقل فوارے لگا دیے جائیں تاکہ کوئی احتجاج کرنے آئے تو نہا کر ہی واپس جائیں، یہ واٹر گنوں کے استعمال والی ترکیب اب مجھے پرانی لگنے لگی تھی۔

پارلیمنٹ کی عمارت—تصویر رمضان رفیق
پارلیمنٹ کی عمارت—تصویر رمضان رفیق

پارلیمنٹ کے باہر احتجاج کرتے لوگ—تصویر رمضان رفیق
پارلیمنٹ کے باہر احتجاج کرتے لوگ—تصویر رمضان رفیق

گرمی کے موسم میں پھوار کی ٹھنڈک اردگرد موجود لوگوں کو بھا رہی تھی—تصویر رمضان رفیق
گرمی کے موسم میں پھوار کی ٹھنڈک اردگرد موجود لوگوں کو بھا رہی تھی—تصویر رمضان رفیق

ایک مجسمے کی انگلی تھامے ایک معصوم بچی تصویر کھنچوانا چاہ رہی تھی—تصویر رمضان رفیق
ایک مجسمے کی انگلی تھامے ایک معصوم بچی تصویر کھنچوانا چاہ رہی تھی—تصویر رمضان رفیق

یہاں سے ہم پیسٹ کے مرکزی حصے کی طرف چلے آئے۔ ایک مختصر سی گلی کے بعد ایک دوسرا خوبصورت چوراہا آیا۔ یہاں چند بچے فٹ بال سے کرتب کرنے میں مصروف تھے، ایک مجسمے کی انگلی تھامے ایک معصوم بچی تصویر کھنچوانا چاہ رہی تھی، ایک پرانی یادگار اور ماضی آنکھوں میں سمیٹے چند پرشکوہ عمارتیں تھیں۔

یہاں سے چلتے چلتے اب ہم شہر کی گلیوں میں نکل آئے، یورپ کے متعدد شہروں کی طرح تقریباً ایک جیسی عمارتیں نظر آئیں۔ قطار میں چلتی ہوئی گاڑیاں، ٹائروں کی رگڑ سے پیدا ہونے والی آواز خاموشی پر غالب، کبھی کبھار کہیں دور سے آتی ہوئی ہارن کی اجنبی سی آواز، اپنے کام سے کام رکھنے والے لوگ، اپنی چھوٹی سی دنیا میں خوش باش خوشگوار جوڑے، اپنے بچوں میں مگن والدین، کہیں کافی کلب کی کھڑکیوں سے سڑک پر دیکھنے والے مقامی لوگ، یوں کہیے کہ یہاں بھی زندگی ایک ترتیب میں چلتی دکھائی دے رہی تھی۔

ہم ایک عمارت کے نیچے راہ گیروں کے تحفظ کے لیے بنائی ہوئی چھوٹی سی ٹنل سے گزر کر گلیوں میں آگے ہی آگے چلتے آئے، اب ہمارے سامنے منزل کوئی نہ تھی، بس شہر کے نظارے کرنے تھے اور اس کی گلیوں میں گھومنا تھا۔

انہی گلیوں سے گزرتے ہوئے ہم ایک بار پھر ایک اسکوائر آ پہنچے، یہاں پر ایک عالیشان چرچ تھا، لوگوں کی آمدورفت بتا رہی تھی کہ یہ کوئی مشہور چرچ ہے، ہم نے بھی نام دیکھے بنا ایک 2 تصاویر بنائیں اور اپنی سیر میں لکھی باقیوں گلیوں کی خاک چھاننے میں مصروف ہوگئے۔

بدھا پیسٹ میں آوارہ گردی—تصویر رمضان رفیق
بدھا پیسٹ میں آوارہ گردی—تصویر رمضان رفیق

یورپ کے متعدد شہروں کی طرح تقریباً ایک جیسی عمارتیں نظر آئیں—تصویر رمضان رفیق
یورپ کے متعدد شہروں کی طرح تقریباً ایک جیسی عمارتیں نظر آئیں—تصویر رمضان رفیق

ہوٹل کی کھڑکی سے شہر کا نظارہ—تصویر رمضان رفیق
ہوٹل کی کھڑکی سے شہر کا نظارہ—تصویر رمضان رفیق

شہر کا خوب سیر سپاٹا کرنے کے بعد دیوانہ پن سا ہی سفر کا حاصل معلوم ہوتا ہے، شہر کی گمنام گلیاں جن کی شہرت دنیا والوں تک نہیں پہنچتی، شہر کی اصل باسی تو یہی ہوتی ہیں، اصلی اور سچی تصویر جو اجنبی کے لیے بننے سنورنے کا تردد نہیں کرتیں۔ ایسے ہی چلتے چلتے ساری شام ڈھل گئی اور اندھیرے کی آمد ہوئی۔

واپسی کا سوچا اور کھانے کی بھوک نے آخری خواہش کی طرح دل کا دامن تھام لیا، گوگل بھائی سے پوچھا کہ حلال کھانا کہاں ملے گا؟ اس نے ہماری انگلی تھامی اور ایک ترکش شوارمے والی جگہ پر لے آیا، یہاں پر آ کر ہم نے خواہش کو پورا کیا، 2 سے 3 قہوے کے کپ اڑائے، اور پھر ہلکی ہلکی بارش برسنے لگی۔

کھانے کے بوجھ سے تھکاوٹ کا بھی میٹھا میٹھا احساس جاگا، بس اب بستر میں جانے کی جلدی تھی، اگلی صبح واپسی کا سفر درپیش تھا، اس لیے جلدی سونا بھی کاموں میں شامل تھا۔ اب اس ہلکی بارش میں کس سے پوچھا جائے کہ بس کہاں سے ملے گی لہٰذا ایک ٹیکسی والے کو اشارہ کیا اور اپنا ایڈریس دکھایا اور پوچھا کہ یورو میں کرایہ کتنا ہوگا؟ ابھی اس نے جمع تفریق میں وقت ضائع کرنا ہی تھا کہ میں نے اسے کہا 10 یورو کے ایک نوٹ میں یہاں تک جاسکتے ہو، اس نے فوراً ہاں کردی میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہوگا کہ یورپ کے کئی ممالک میں بھی بارگیننگ کا رواج موجود ہے۔

بدھا پیسٹ کی خوبصورتی کسی مصرعہ تر کی طرح دل میں اترتی ہے۔ یہاں گزاری ہوئی ایک شام کسی خوبصورت ملاقات سے کم نہیں تھی، جیسے کسی نے ہمیں چائے پر ایک داستان سنائی ہو اور اس کے کرداروں کا تعارف کروایا ہو۔ بے اختیار رب تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ جس نے داستان کے کرداروں کو زندگی میں دیکھنے کا موقع دیا۔


رمضان رفیق دنیا گھومنے کے خواہشمند ہیں اور اسی آرزو کی تکمیل کے لیے آج کل کوپن ہیگن میں پائے جاتے ہیں۔ وہ پاکستان میں شجر کاری اور مفت تعلیم کے ایک منصوبے سے منسلک ہیں۔ انہیں فیس بک پر یہاں فالو کریں اور ان کا یوٹیوب چینل یہاں سبسکرائب کریں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔