پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے آڈیو لیکس کو جے آئی ٹی تحقیقات کو سبوتاژ کرنے کی سازش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدلیہ سے معاملے کا نوٹس لینے اور اس معاملے کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کیا ہے۔

عمران خان نے ڈاکٹر یاسمین راشد کے ہمراہ ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں آج کل سامنے آنے والی آڈیو ٹیپ کے اہم معاملے پر بات کرنا چاہتا ہوں، پاکستان کے شہریوں اور سیاستدانوں کے فون کو ٹیپ کیا جاتا ہے اور یہ کام صرف تین قسم کے ایجنسیاں کر سکتی ہیں، وہ اسے پاکستان کی بہتری کے لیے نہیں بلکہ جب بھی انہیں کسی کو بلیک میل کرنا ہو تو اس کے لیے ان ٹیپ کو استعمال کیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان ایجنسیوں کو جب بھی کوئی سیاسی مقصد حاصل کرنا ہوتا ہے تو یہ آڈیوٹیپ منظرعام پر آ جاتی ہیں، کل ڈاکٹر یاسمین کی ایک آڈیو ٹیپ نکلی ہے جس میں یہ پرانے سی سی پی او ڈوگر صاحب کے ساتھ بات کررہی تھیں، ان کی آڈیو ٹیپ ایکدم ریلیز ہو گئی، میں یہ چاہوں گا یہ پہلے بتائیں کہ یہ کیوں ریلیز کی گئی اور یہ کیوں بات کررہی تھیں جس کے بعد میں موجودہ صورتحال پر بات کروں گا جس میں لوگوں کی جعلی ویڈیوز بن رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قانون یہ کہتا ہے کہ کوئی ایجنسی یا پولیس کسی کا فون ٹیپ نہیں کر سکتی جب تک یہ وزیر داخلہ سے نہ کہیں اور پھر وزیر داخلہ عدالت میں جائیں اور عدالت کا جج انہیں اجازت دے کہ یہ ملک کی ضرورت ہے یا اس سے دہشت گردی سے بچ سکتے ہیں یا کسی قومی مفاد کی حفاظت ہوسکتی ہے، تو پھر وہ فون ٹیپ کر سکتے ہیں، اس کے علاوہ وہ کسی کا فون ٹیپ نہیں کر سکتے۔

چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ جب 1996 میں بے نظیر بھٹو میں جب ہٹائی گئی تھی تو ایک وجہ سپریم کورٹ میں یہ دی گئی تھی کہ بے نظیر کی حکومت کے دوران بڑی بڑی شخصیات، ججز اور سیاسی مخالفین کے فون ٹیپ کیے جاتے تھے، رچرڈ نکسن امریکا کے بہت طاقتور صدر تھے جن کا واٹر گیٹ اسکینڈل سامنے آیا تھا جس میں وہ مخالفین کے فون ٹیپ کررہے تھے اور اسی وجہ سے ان کو صدارت سے استعفیٰ دینا پڑا تھا لیکن ہمارے ہاں یہ آج کھلے عام ہو رہا ہے۔

اس موقع پر تحریک انصاف کی رہنما یاسمین راشد نے کہا کہ کل دوپہر میں جب یہ آڈیو لیک ہوئی تو مجھے فوری احساس ہو گیا کہ یہ کس مقصد کے تحت لیک کی گئی ہے، وجہ یہ تھی کہ میں خان صاحب کے اوپر ہوئے قاتلانہ حملے کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی کو پچھلے چار ماہ سے فالو کررہی تھی بالخصوص گوجرنوالہ کے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیروی کررہی تھی۔

انہوں نے کہا کہ یہ آڈیو لیک اس لیے کی گئی کہ جب جے آئی ٹی بنے تو اس کے کنوینر اس وقت کے سی سی پی او ڈوگر صاحب تھے اور ڈوگر صاحب نے حکومت کے سامنے اس بات کا انکشاف کردیا تھا کہ اس حملے میں تین لوگ ملوث ہیں، یعنی یہ قاتلانہ حملہ ایک طے شدہ منصوبہ تھا اور ایک شخص نہیں بلکہ اس میں کم از کم تین لوگ ملوث تھے اور انہوں نے اس کا ثبوت عدالت میں دے دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت میں ثبوت جانے کے بعد افسروں کو بلیک میل کیا گیا، بلیک میل ہو کر کچھ افسروں نے استعفیٰ دے دیا لیکن سی سی پی او اپنے موقف پر ڈٹے رہے، یہ ساری باتیں میرے علم میں اس وقت آئیں جب ہم گوجرانوالہ کی انسداد دہشت گردی کی عدالت گئے، جب سی سی پی او کو ہٹایا گیا تو ان کا عہدہ ڈی جی اینٹی کرپشن کو دے دیا گیا۔

یاسمین راشد نے دعویٰ کیا کہ عمران خان پر قاتلانہ حملے کے چیف انویسٹی گیشن افسر انور شاہ کو ایس ٹی کردیا اور ڈی جی نے سارا ریکارڈ سیل کر کے اس پر تالا لگا دیا، ہم نے جب عدالت کو بار بار کہا کہ ثبوت منگوائیں تو بتایا گیا کہ ڈی جی بدل دیا گیا ہے اور رانا ثنااللہ کے رائٹ ہینڈ مین چٹھا صاحب کو نیا ڈی جی اینٹی کرپشن لگا دیا گیا ہے اور اب وہ ریکارڈ دے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس پر جج نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب میں اپنے پراسیکیوٹنگ آفیسر بھیجوں گا، انہوں نے افسر بھیجے اور جب انہوں نے تالا کھولا تو دیکھا کہ ثبوت سارا غائب ہو چکا ہے اور محض 11 صفحات رہ گئے تھے ، باقی سارا کچھ چوری ہو گیا، اس بات کا انکشاف خود ڈی جی نے بھی کیا اور اعلان بھی کردیا کہ میں اب اس پر انکوائری کروں گا یعنی خود ہی چوری کر کے منصف بننے کا ارادہ ظاہر کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے یہ سارا ثبوت غائب ہونا بڑا سانحہ تھا اور جب عدالت نے سی سی پی او کو دوبارہ لگایا تو میں نے مناسب پوچھا کہ میں ان سے پوچھوں کہ کب سے آپ کی اپائنٹمنٹ ہوئی ہے اور آپ کب تک جوائن کررہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ابھی آرڈر نہیں آئے۔

تحریک انصاف کی خاتون رہنما نے مزید کہا کہ آپ نے آڈیو سنی جس میں کوئی ایسی بات نہیں پوچھی گئی، مجھ سے پوچھا جا رہا ہے کہ آپ کا کیا لینا دینا تھا، مجھے کیوں تحفظات نہیں ہوں گے، خان صاحب پر حملہ ہوا، آپ نے تحقیقات کرنے والے سارے بندے بھی غائب کردیے اور ثبوت بھی غائب کررہے ہیں، اس لیے ہمیں کسی اور پر بھروسہ نہیں تھا اور ڈوگر کے واپس آنے سے امید تھی کہ ہم اپنی جے آئی ٹی دوبارہ شروع کردیں گے۔

انہوں نے سوال کیا کہ فیئر ٹرائل ایکٹ کے تحت یہ ہمارے فون کیسے ٹیپ کر سکتے تھے، کیا انہوں نے اجازت لی تھی، کیا وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کسی جج کے پاس گئے تھے اور ان سے اجازت لی تھی، میں اس بارے میں جاننا چاہتی ہوں اور میں عدالت جا رہی ہوں اور عدالت میں جا کر سوالوں کے جواب دوں گی کہ یہ آئی ایس آئی، آئی بی اور پولیس میں سے کس نے ٹیپ کیا اور کس طرح سے ریلیز کیا کیونکہ میں سمجھتی ہوں کہ میرے بنیادی انسانی حقوق پر بہت بڑا حملہ ہوا ہے۔

اس کے بعد چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا کہ میری اور میری بیوی بشریٰ بی بی کے فون ٹیپ کیے گئے لیکن اس سے بڑھ کر اگر وزیراعظم اپنی آفیشل لائن سے اپنے پرنسپل سیکریٹری سے بات کررہا ہے، اگر وہ ٹیپ ہو رہا ہے اور اس کو ریلیز کررہے ہیں تو یہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے خلاف ہے، اگر میں محفوظ لائن سے کوئی بھی بات کروں اور وہ اس طرح سے نکل جائے تو یہ ملک کے لیے انتہائی خطرناک بات ہے، چاہے کسی بھی وزیر اعظم کی اس طرح سے لیک کرنا غلط ہے، اس طرح تو شہباز شریف اور مریم کی بھی کوئی آڈیو ٹیپ نکلیں گی۔

انہوں نے کہا کہ اس لیے ہماری عدلیہ کو اس پر ایکشن لینا چاہیے، یہ ہمارے معاشرے میں ایک بیماری پھیل گئی ہے کہ جب کسی کو بلیک میل کرنا ہوتا ہے تو اس کی ٹیپ نکل آتی ہے، سپریم کورٹ کے جج پر پرویز الٰہی کی کوئی ٹیپ نکل آئی ہے اور وہ صرف بلیک میل کرنے کے لیے ہے کیونکہ اس وقت 90دن میں الیکشن کرانا پاکستان کی تاریخ کا بہت اہم مسئلہ ہے اور ساری قوم دیکھ رہی ہے کہ کیا ہماری عدلیہ 90دن میں الیکشن کروا سکے گی یا نہیں کرا سکے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک کا وزیر داخلہ خود بیٹھ کر ایک فون ٹیپ کی بات کررہا ہے حالانکہ یہ خود اس کی ذمے داری ہے کہ یہ ہوا کیسے ہے، کیا اس نے کسی عدلیہ سے اس کی اجازت لی تھی، بات اس سے بھی آگے چلی گئی ہے اور ہمارے ملک میں جعلی ویڈیوز بنی ہوئی ہیں جس کی بنیاد پر بلیک میل کیا جا رہا ہے ، خود ہمارے تین سینئر پارٹی رہنماؤں کو بلیک میل کیا جا رہا ہے۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ پہلے مریم نواز نے کہا تھا کہ میرے پاس ویڈیوز ہیں، اب تو جنرل باجوہ نے بھی کہہ دیا ہے کہ میرے پاس ویڈیوز ہیں، کیا اس ملک میں لوگوں کو کنٹرول اور بلیک کرنے کے لیے یہ سب ہو رہا ہے، اس لیے میں اپنی عدلیہ سے درخواست کروں گا کہ چار مہینے پہلے میں نے بطور سابق وزیر اعظم ایک درخواست دائر کی تھی کہ میری سیکیور لائن کو ٹیپ کرنے کے بعد اس کو تبدیل کرکے عوام میں دکھایا گیا، عدالت اس معاملے کا نوٹس لیں۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد کی آڈیو لیکس کا واقعہ اس لیے ہوا کیونکہ یہ میرے اوپر قاتلانہ حملے کی جے آئی ٹی کے تحقیقات کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں، انہوں نے جے آئی ٹی کے سارے افسران کو ڈرا دھمکا کر پیچھے ہٹا دیا ہے، جو دو آفیسرز رہ گئے تھے ان میں سے ایک سی سی پی او ڈوگر تھے اور عدالت میں تمام تحقیقات کے بارے میں بتا رہے تھے کہ تین شوٹرز تھے اور اب ڈوگر کو ہٹانے کے لیے یہ آڈیوز سامنے لائی گئی ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ جو لوگ ان تحقیقات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہی لوگ میرے اوپر حملوں میں ملوث تھے، عدلیہ سے درخواست ہے کہ میری پٹیشن سنی جائے اور ڈاکٹر یاسمین راشد فیئر ٹرائل ایکٹ کی خلاف ورزی پر کل عدالت جا کر کیس کریں گی۔

تبصرے (0) بند ہیں