ہمارے سیاسی قیدیوں کو دہشت گردوں کی طرح رکھا جا رہا ہے، عمران خان

اپ ڈیٹ 23 فروری 2023
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا کہ صرف الیکشن سے بچنے کے لیے عدلیہ پر پورا دباؤ ڈالا جا رہا ہے— فوٹو: ڈان نیوز
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا کہ صرف الیکشن سے بچنے کے لیے عدلیہ پر پورا دباؤ ڈالا جا رہا ہے— فوٹو: ڈان نیوز

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ ہمارے جن لوگوں نے کل لاہور میں گرفتاری دی تھی، ان سیاسی قیدیوں کو ایسے رکھا جا رہا ہے جیسے وہ کوئی دہشت گرد ہیں، شاہ محمود اور اسد عمر کو دوسری جیلوں میں منتقل کردیا گیا، یہ کیا ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ لوگ اس سے ڈریں گے، اگر لوگ ڈر رہے ہوتے تو کیا پشاور میں نکلتے، اب لوگوں کو خوف نہیں ہے

عمران خان نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج پشاور میں جس طرح ہماری قیادت اور کارکنان گرفتاری کے لیے نکلے تو اس سے سب کو سمجھ آ جانی چاہیے کہ قوم کدھر کھڑی ہے، ہمارے ملک کی تاریخ میں اس طرح کے مناظر کبھی نہیں دیکھے گئے۔

انہوں نے 70 کی دہائی میں چلائی گی پی این اے کی تحریک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت بھی چار یا پانچ لوگ جا کر گرفتاری دیتے تھے، ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ اپنی قیادت کے ساتھ آئیں اور میں اپنی قیادت اور کارکنوں کو خراج تحسین پیش کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ احتجاج کا پرامن طریقہ ہے، ہم یہ سامنے لانا چاہتے ہیں کہ جس طرح کے ہتھکنڈے اس حکومت نے ہمارے خلاف استعمال کیے ہیں، پچھلے سال 10اپریل کے بعد جب سے ہماری حکومت گئی، جو ہمارے لوگوں کے ساتھ انہوں نے کیا ہے، میں نے جنرل مشرف کے مارشل لا میں بھی ایسا ظلم نہیں دیکھا۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اعظم سواتی اور شہباز گل کو گرفتار کر کے تشدد اور تضحیک کا نشانہ بنایا گیا، شیخ رشید کو اٹھا لیا، فواد چوہدری کو اٹھایا، ہمارے سب لوگوں پر ایف آئی آر ہے، میرے اوپر 70ایف آئی آر ہیں، دہش گردی کے کیسز بنا دیے، عمران خان کو الیکشن کمیشن نااہل کردیتی ہے تو اس کے باہر احتجاج ہوتا ہے تو میرے اوپر دہشت گردی کا پرچہ کٹ جاتا ہے، میں وہاں تھا بھی نہیں۔

انہوں نے کہا کہ اخلاقی طور پر کرپٹ الیکشن کمیشن مسلم لیگ(ن) اور پی ڈی ایم کا حصہ بن کر ہر فیصلہ ہمارے خلاف دیتا ہے، مہم چلاتا ہے، فارن فنڈنگ کیس میں پتہ چلا کہ وہ فارن فنڈنگ ہی نہیں تھی، وہ ممنوعہ فنڈنگ تھی، میں لکھ کر دیتا ہوں کہ وہ کیس کسی بھی عدالت میں جائے گا تو وہ باہر پھینک دیں گے کیونکہ کیس ہی کوئی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی کیس ایف آئی اے میرے خلاف وارنٹ نکال دیتی ہے اور اسی کیس میں باقی سب کی عدالت ضمانت دے دیتی ہے اور عمران خان کو جیل میں ڈالنے اور قیادت پر دباؤ ڈالنے کی ہر قسم کی کوشش کی جا رہی ہے، جو لوگ کہتے ہیں کہ انہوں مسلم لیگ(ق) پر دباؤ ڈالا کہ مسلم لیگ(ن) کی وزارت اعلیٰ لے لیں، ہمارے اراکین اسمبلی پر تحریک عدم اعتماد سے قبل دباؤ ڈالا گیا اور پیسوں کی بھی پیشکش کی گئی، میں چوہدری پرویز الٰہی اور ان کے بیٹے مونس الٰہی کو داد دیتا ہوں جنہوں نے تمام دباؤ کے باوجود ہمارا ساتھ دیا اور انہوں نے پوری کوشش کی تھی کہ وہ حکومت نہ تحلیل کریں، اسی لیے ہم نے ان کو اپنی پارٹی کا صدر بنایا۔

عمران خان نے کہا کہ یہ پنجاب میں عبوری حکومت ایسی لائیں ہیں جسے شہباز شریف کنٹرول کر رہا ہے، یہ سارے وہ لوگ ہیں جو انہوں نے حمزہ شریف کے دور میں رکھے ہوئے تھے اور خیبر پختونخوا میں ساری مولانا فضل الرحمٰن کی کابینہ ہے اور ان کے کہنے پر سب کچھ ہو رہا ہے، الیکشن کمیشن اور عبوری حکومت کے یہ سارے اقدامات تحریک انصاف کے خلاف ہیں۔

انہوں نے مریم نواز جس طرح کی تقریریں کر رہی ہیں تو میں یہ سوال پوچھتا ہوں کہ جب کیسز عدالت میں زیر سماعت ہو تو کیا سپریم کورٹ کے ججز کے خلاف اس طرح کی زبان استعمال کرنے کی اجازت ہے کیونکہ آپ صرف الیکشن سے بھاگ رہے ہیں، آپ جانتے ہیں کہ عوام آپ کے ساتھ نہیں ہیں، صرف الیکشن سے بچنے کے لیے عدلیہ پر پورا دباؤ ڈالا ہوا ہے اور ان کا صرف ایک مقصد ہے کہ 90دن میں الیکشن نہ ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ قرارداد مقاصد میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہو گی اور اللہ کے بعد فیصلے عوام کے نمائندے کریں گے جو عوام نے منتخب کیے ہیں، جو عبوری حکومت بٹھا دی گئی ہیں، ایسی جانبدار حکومت کبھی نہیں آئی، کیا اب 90دن کے بعد یہ حکومت کریں گی جن کا ایجنڈا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کو جتوانے کے لیے تحریک انصاف کو ختم کیا جائے یا ہم پر مقدمات کیے جائیں، یہ کس طرح 90دن کے بعد بیٹھ سکتے ہیں کیونکہ عوامی نمائندے نہیں ہیں، ان عبوری حکومتوں کا کام تو صف اور شفاف الیکشن کرانا تھا لیکن یہ اس کے سوا سب کچھ کر رہے ہیں۔

چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ یہ عدلیہ پر جو حملے کررہے ہیں اور انہیں ڈرانے، دھماکے کا صرف ایک مقصد ہے کہ کہیں وہ اس دباؤ میں آ کر آئین میں جو 90دن کی بندش دی ہوئی ہے، وہ اس سے پیچھے ہٹ جائیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے جن لوگوں نے کل لاہور میں گرفتاری دی تھی، ان سیاسی قیدیوں کو ایسے رکھا جا رہا ہے جیسے وہ کوئی دہشت گرد ہیں، ان کو کبھی کسی شہر بھجوا رہے ہیں، شاہ محمود کو اٹک بھجوا دیا، اسد عمر کو لیہ بھجوا دیا، یہ کیا ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ لوگ اس سے ڈریں گے، اگر لوگ ڈر رہے ہوتے تو کیا آج جو پشاور میں عوام نکلے، وہ ایسے نکل رہی ہوتی، کل آپ راولپنڈی میں دیکھیں گے کہ لوگ کہیں گے کہ ہمیں جیلوں میں ڈالو، اب لوگوں کو خوف نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں یاد دلادوں کہ سری لنکا میں انہی حالات میں عوام سڑکوں پر نکلے تھے اور انہوں نے گھر جلائے تھے، وزیراعظم کا گھر جلا دیا تھا، عوام خود سڑکوں پر آگئے تھے، اگر تحریک انصاف اس وقت نہ ہو تو یہ عوام اسی طرح سڑکوں پر نکلیں گے، پاکستان کے جیسے حالات ہو گئے ہیں تو اس وقت تو عوام خود سڑکوں پر نکلنے کے لیے تیار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم احتجاج کا پرامن طریقہ اختیار نہ کریں تو یہ قوم وہ راستہ اختیار کرے گی جس سے اس ملک میں تباہی مچے گی، اس کو روکنے کے لیے پرامن احتجاج ہے اور میرے احتجاج کی دوسری وجہ شہباز شریف کی کل کی گئی تقریر ہے کہ قوم کو ابھی مزید قربانیاں دینی پڑیں گی۔

عمران خان نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے اپنے 1100ارب کے یسز معاف کروا لیے اور قوم سے کہتے ہیں کہ ابھی آپ کا امتحان ختم نہیں ہوا اور ابھی مزید مہنگائی آنے والی ہے، جب پچھلے سال اپریل میں آپ نے ہماری حکومت گرائی تھی تو اس وقت 30ہزار کی چیزیں خریدنے والا آج صرف 20ہزار کی چیزیں خرید سکتا ہے، جو ایک لاکھ روہے کماتا تھا اس کی قوت خرید صرف 70ہزار رہ گئی ہے اور جب آپ مزید مہنگائی کریں گے تو ان کی تنخواہوں میں پورا ہی نہیں ہو سکے گا اور آپ کہہ رہے ہیں کہ مزید مہنگائی ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ میں ججز سے کہنا چاہتا ہوں کہ یہ پاکستان کا فیصلہ کن وقت ہے، صرف آئین کا آرٹیکل 224پڑھ لیں اور مجھے سمجھا دیں کہ کیسے 90دن سے آگے الیکشن جائے، قوم کو پتا ہے کہ اس ملک کو اس دلدل سے نکالنے کا صرف ایک طریقہ ہے اور وہ الیکشنز ہیں، جتنی دیر یہ بیٹھے رہیں گے، یہ ملک مزید دلدل میں دھنستا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنی حکومتیں اسی لیے قربان کی تھیں کہ ملک کو اس تباہی سے بچایا جائے اور الیکشنز کروائے جائیں کیونکہ اسی طریقے سے ملک میں سیاسی استحکام آئے گا اور سیاسی استحکام آئے گا تو معاشی استحکام بھی آئے گا، اس کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں