قانونی ماہرین کی رائے ہے کہ اقلیتی فیصلہ حکام پر مسلط نہیں ہونا چاہیے، وزیرقانون

06 اپريل 2023
وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے غیرملکی صحافیوں کو بریفنگ دی—فوٹو: پی آئی ڈی
وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے غیرملکی صحافیوں کو بریفنگ دی—فوٹو: پی آئی ڈی

وفاقی وزیر قانون نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تاریخ دینے کے فیصلے کے حوالے سے حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے قانونی ماہرین نے کابینہ کو بتایا کہ اقلیتی فیصلہ حکام پر مسلط نہیں کرنا چاہیے۔

اسلام آباد میں غیرملکی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ملک کی صورت حال پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں اور اسی طرح دو صوبوں میں انتخابات کی تاریخ کے اعلان سے جو حالات بنے ہیں، اس پر بات ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کی صورت میں آئین پاکستان مذکورہ علاقوں میں 90 روز کے اندر عام انتخابات کے لیے ایک منصوبہ دیتا ہے تاہم آئین ایک مکمل اسکیم دیتا ہے کہ ملک میں انتخابات نگران حکومت کی سرپرستی میں ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئین کا آرٹیکل 217 کہتا ہے کہ ملک میں عام انتخابات الیکشن کمیشن کی براہ راست سربراہی میں ایک ہی دن ہوں گے، الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے اور اس کو انتخابات کے معاملے پر مکمل اختیارات حاصل ہیں۔

اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے غیرجانب دار اور شفاف انتخابات کرائے اور اس حوالے سے کئی فیصلے بھی موجود ہیں لیکن تنازع اس وقت شروع ہوا جب الیکشن کمیشن نے انتخابات کے لیے تاریخ دی۔

انہوں نے کہا کہ یہاں کنفیوژن ہے کہ جب وزیراعظم کی تجویز پر اسمبلی تحلیل ہوتی ہے تو تاریخ کا اعلان کون کرے گا کیونکہ گورنر کی توثیق نہ ہو جیسا کہ پنجاب میں ہوا جہاں وزیراعلیٰ نے اسمبلی تحلیل کی جبکہ آئین کا متعلقہ آرٹیکل کہتا ہے کہ گورنر اسمبلی تحلیل کرے گا لیکن ایسا نہیں ہوا تو 48 گھنٹوں میں اسمبلی ازخود تحلیل ہوجائے گی اور یہی سے سارا قانونی پینڈورا کھل گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گورنر پنجاب نے اسمبلی تحلیل کرنے کی منظوری نہیں دی تو انتخابات کی تاریخ کا معاملہ سب سے پہلے لاہور ہائی کورٹ میں گیا جہاں فریقین کو سننے کے بعد الیکشن کمیشن کو حکم دیا گیا کہ وہ انتخابات کی تاریک کا اعلان کرے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ گورنر پنجاب نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جو زیر التوا ہے اور اسی طرح گورنر خیبرپختونخوا مشاورتی عمل میں تھے اور ان کی درخواست بھی ہائی کورٹ میں ہے لیکن سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے ایک پولیس افسر کے تبادلے یا معطلی کے حوالے سے سماعت کے دوران انہوں نے اس معاملے کو اٹھایا اور سمجھا کہ 90 روز کی مدت میں انتخابات ہونے چاہیئں۔

انہوں نے کہا کہ جسٹ اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے بینچ نے معاملہ چیف جسٹس کو بھیج دیا اور کہا کہ جائزہ لے کر از خود نوٹس کے تحت بینچ تشکیل دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے 9 رکنی بینچ تشکیل دیا تو ابتدائی سماعتوں میں ہی دو ججوں نے جوڈیشل آرڈر جاری کیا اور کہا کہ معاملہ ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے لہٰذا آئین کا آرٹیکل 184 تھری کے تحت ازخود نوٹس ہائی کورٹ کی سماعتوں سے متصادم ہے اس لیے ناقابل سماعت ہے کیونکہ عدالت عالیہ معاملے کو دیکھ رہی ہیں اور وہ سماعت جاری رکھیں۔

انہوں نے کہا کہ اس دوران چیف جسٹس نے بینچ دوبارہ تشکیل دیا کیونکہ ججوں کے کنڈکت کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے اعتراض پر دو جج صاحبان بینچ سے الگ ہوگئے تھے، جنہوں نے بنیادی طور پر معاملہ چیف جسٹس کو بھیج دیا تھا اور اسی دوران مزید دو ججوں نے الگ حکم دے دیا تھا، جس کے بعد سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

’فیصلے پر اختلاف‘

وزیرقانون نے کہا کہ فیصلے پر اختلاف ہے جہاں ایک نکتہ نظر ہے کہ درخواست 2 کے مقابلے میں 3 کی اکثریت سے منظور کرلی گئی اور الیکشن کمیشن کو صدر مملکت سے مشاورت انتخابات کی تاریخ کی ہدایت کی گئی جبکہ دوسرا نکتہ ہے کہ 4 ججوں نے درخواست ناقابل سماعت قرار دیا ہے لہٰذا فیصلہ 3 کے مقابلے میں 4 کی اکثریت سے آیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیرقانون کی حیثیت سے میں نے اور اس وقت کے اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ درخواستیں مسترد ہوئی ہیں۔

اعظم تارڑ نے کہا کہ بعد ازاں چیف جسٹس اور دیگر دو ججوں کا فیصلہ تنازع کا باعث بن گیا، جس کے بارے میں حکومت اور پارلیمان نے یہ مؤقف اپنایا کہ فیصلہ 4 ججوں کا اکثریتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تنازع سے بچنے کے لیے اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ فل کورٹ تشکیل دیا جائے تاکہ اس معاملے پر فیصلہ کیا جائے لیکن وہ درخواست قبول نہیں کی گئی، پاکستان پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام نے سیاسی جماعت کی حیثیت سے درخواست دی اور وہ اپنے حلقوں کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن حیران کن طور پر ان کی درخواستوں کو نہیں سنا گیا۔

انہوں نے کہا کہ جہاں 5 رکنی بینچ کی جانب سے سماعت شروع کیے جانے کے باوجود ایک اور معاملہ سامنے آیا کہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ایک حکم دیا کہ 184 تھری کے تحت ازخود نوٹس کا معاملہ زیر بحث ہے اس لیے سماعت روک دی جائیں لیکن وہ حکم رجسٹرار کی جانب سے سرکلر کے ذریعے معطل کردیا گیا۔

’دو قانونی سوال‘

ان کا کہنا تھا کہ کیس میں دو قانونی مسائل تھے کہ آیا فیصلہ 3 کے مقابلے میں 4 کا اکثریتی تھا یا 2 کے مقابلے میں 3 کا اکثریتی فیصلہ تھا اور اس کے حل کے لیے درخواست کی گئی کہ سپریم کورٹ دیگر 6 ججوں نے یہ معاملہ نہیں سنا لہٰذا فل کورٹ سنے اور معاملے پر فیصلہ دے لیکن اس کو رد کردیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ دوسرا قانونی نکتہ یہ تھا کہ سینئر ترین جج نے 184 تھری کے تحت مقدمات سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے کا فیصلہ دیا لیکن اس کو دوسرے بینچ نے نمٹا دیا، جس کے بعد اٹھنے والے سوالات پر فل کورٹ تشکیل دیا جائے جو فیصلہ کرے۔

وزیرقانون نے کہا کہ 3 رکنی بینچ نے یہ تمام درخواستیں مسترد کردیں اور 14 مئی کو انتخابات کی تاریخ مقرر کی جبکہ دیگر اداروں نے حالات انتخابات کے لیے موزوں نہ ہونے کی رپورٹ دی تھی اور بجٹ کے حوالے سے بھی بتایا گیا تھا۔

’کابینہ کو قانونی ماہرین نے رائے گی‘

ان کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان نے اس معاملے کو اٹھایا اور کابینہ کو تمام سیاسی جماعتوں کے قانونی ماہرین، پرنسپل لا افسر اور اٹارنی جنرل نے رائے دی کہ 4 ججوں کے فیصلے سے متعلق سنجیدہ قانونی سوالات کھڑے ہوگئے ہیں، جنہوں نے درخواست مسترد کر دی تھی۔

انہوں نے کہا کہ قانونی ماہرین نے کابینہ کو بتایا کہ اقلیتی فیصلہ نافذالعمل نہیں ہوسکتا اور حکام پر مسلط نہیں کیا جاسکتا جبکہ عدالت نے فل کورٹ کی درخواست مسترد کردی تھی اور اس دوران پارلیمنٹ نے قرارداد کے ذریعے سپریم کورٹ سے درخواست کی تھی لیکن اس کوبھی نظرانداز کیا گیا۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اس معاملے کا حل آئین میں موجود ہے، جہاں آرٹیکل 254 کہتا ہے مخصوص وقت میں جب کوئی ایکٹ یا قانون بنایا جارہا ہے اور وہ معاملہ اس مخصوص مدت میں مکمل نہیں ہوا ہے تو وہ غیرآئینی نہیں ہوگا۔

’کے پی کا معاملہ متعلقہ عدالت جبکہ پنجاب کا نہیں، ایسا کیوں‘

ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں پنجاب کے انتخابات اب ہوتے ہیں اور خیبرپختونخوا میں اگست یا اس دوران ہوتے ہیں جبکہ ہم فیصلے کو دیکھیں تو 90 روز کی خلاف ورزی وہاں بھی ہو رہی ہے۔

وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ عدالت اس معاملے پر خاموش کیوں ہے، عدالت نے خیبرپختونخوا کا معاملہ متعلقہ ہائی کورٹ کو کیوں منتقل کیا، پنجاب میں ایسا کیوں نہیں ہوا، اس طرح کے سوالوں کے جواب ضروری ہیں اور اس کے لیے فل کورٹ بیٹھے۔

ان کا کہنا تھا کہ پنجاب کے بعد خیبرپختونخوا اگست میں اور اس کے بعد قومی اسمبلی کے ساتھ سندھ اور بلوچستان کے 12 اکتوبر سے پہلے ہوں گے تو ایسے میں معاملہ بہت بکھرا ہوا ہے اور کنفیوژن ہے جبکہ معاشی حوالے سے ملک بحرانی حالات سے گزر رہا ہے۔

’مردم شماری چند روز میں مکمل ہوگی‘

انہوں نے کہا کہ صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد حکومت اور تمام اتحادی سیاسی جماعتوں کا مؤقف ہے مردم شماری جاری ہے جو بذات خود ایک اہم معاملہ ہے اور ہم نے ڈیجیٹل مردم شماری کے لیے 35 ارب روپے خرچ کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مردم شماری چند دنوں میں مکمل ہوجائے گی تو ایسے میں دو صوبوں میں پرانی مردم شماری جبکہ دیگر ملک میں نئی مردم شماری کے تحت انتخابات ہوں گے جہاں نئی حلقہ بندیاں ہوں گی اور یہ سب کچھ آنے والے انتخابات سے قبل ہو رہا ہے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئین آرٹیکل 254 کے تحت ان تمام معاملات ٹھیک کرنے کے لیے گنجائش فراہم کر رہا ہے اور بہتر حل ایک ساتھ انتخابات ہے، لیکن بدقسمتی سے معاملہ عدالت میں گیا جہاں حکومت، سیاسی جماعتیں بار کونسلز نے فل کورٹ بنانے کی درخواست کی۔

تبصرے (0) بند ہیں