سعودیہ، عمان کے وفد کی حوثی باغیوں سے مذاکرات کیلئے آئندہ ہفتے یمن روانگی کا امکان

07 اپريل 2023
سعودی عرب اور عمان کا وفد یمن میں حوثی باغیوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے روانہ ہوگا—فائل فوٹو
سعودی عرب اور عمان کا وفد یمن میں حوثی باغیوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے روانہ ہوگا—فائل فوٹو

سعودی عرب اور عمان کے وفد کی حوثی باغیوں کے ساتھ جنگ بندی پر مذاکرات کے لیے آئندہ ہفتے یمن روانگی کا امکان ہے۔

العربیہ اردو کی رپورٹ کے مطابق مذاکرات میں شامل دو اہم ذرائع نے بتایا کہ سعودی-عمانی وفد حوثی حکام سے ملاقات کرے گا تاکہ یمن میں مستقل جنگ بندی کا معاہدہ کیا جا سکے اور آٹھ سالہ خانہ جنگی کو ختم کیا جا سکے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر مذاکرات کامیاب ہوجاتے ہیں تو یمن کے متحارب فریق 20 اپریل سے شروع ہونے والی عید الفطر کی تعطیلات سے قبل کسی معاہدے کا اعلان کر سکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ بات چیت یمن کی بندرگاہوں اور ہوائی اڈوں کو دوبارہ مکمل طور پر کھولنے، سرکاری ملازمین کے لیے اجرتوں کی ادائیگی، تعمیر نو کے عمل اور سیاسی منتقلی جیسے موضوعات پر مرکوز ہوگی۔

یمن کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت نے کہا کہ عرب اتحاد کی طرف سے یمن کی جنوبی بندرگاہوں کے لیے درآمدات پر آٹھ سال پرانی پابندیاں ہٹانا اس سلسلے میں پیشرفت کی جانب اہم اشارہ ہے۔

واضح رہے کہ فروری میں حوثیوں کے زیر قبضہ مغربی بندرگاہ الحدیدہ میں داخل ہونے والے تجارتی سامان پر پابندیوں میں نرمی کی گئی تھی جو ملک کی اہم بندرگاہ ہے۔

گزشتہ روز یمنی حکومت نے کہا کہ تجارتی بحری جہازوں کو عدن سمیت جنوبی بندرگاہوں پر براہ راست جانے کی اجازت ہوگی اور کچھ استثنا کے ساتھ تمام سامان کو کلیئر کر دیا جائے گا۔

خیال رہے کہ 2015 کے بعد سے یہ پہلی ایسی پیش رفت ہے۔

’یمن کے بندرگاہوں کی طرف جانے والی درآمدات پر آٹھ سال پرانی پابندیاں ختم‘

قبل ازیں سعودی عرب کی زیرقیادت فوجی اتحاد نے امن کی جانب پیش قدمی جاری رکھتے ہوئے یمن کے جنوبی بندرگاہوں کی طرف جانے والی درآمدات پر آٹھ سال پرانی پابندیاں ختم کردیں۔

قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق سعودی حکومت کی طرف سے ایسا اعلان حوثی باغیوں کے ساتھ امن مذاکرات کی طرف پیش قدمی ہے جو کہ حوثیوں کے زیر قبضہ مغربی بندرگاہ الحدیدہ میں تجارتی سامان کے داخلے پر پابندیوں میں نرمی لانے سے سامنے آیا ہے۔

یمن کے جنوبی بندرگاہوں کی طرف جانے والی درآمدات پر آٹھ سال پرانی پابندیاں ختم —فوٹو: رائٹرز
یمن کے جنوبی بندرگاہوں کی طرف جانے والی درآمدات پر آٹھ سال پرانی پابندیاں ختم —فوٹو: رائٹرز

رپورٹ کے مطابق یہ پیش قدمی اس وقت سامنے آئی ہے جب یمن کے فریق اقوام متحدہ کی ثالثی میں ختم ہونے والی جنگ بندی کو بحال کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

گزشتہ روز ملک کے جنوب میں سعودی حمایت یافتہ حکومت نے ایک بیان میں کہا کہ تجارتی بحری جہازوں کو عدن سمیت جنوبی بندرگاہوں پر براہ راست لنگر انداز ہونے کی اجازت دی جائے گی اور کچھ استثنا کے ساتھ تمام سامان کو کلیئر کر دیا جائے گا۔

یمن چیمبر آف کامرس کے سربراہ ابو بکر عدید نے کہا کہ 2015 میں یمن میں سعودی زیرقیادت اتحاد کی مداخلت کے بعد یہ پہلی بار ہوگا کہ بحری جہازوں کو جدہ کی سعودی بحیرہ احمر کی بندرگاہ پر سیکیورٹی کلیئرنس کے لیے نہیں رکنا پڑے گا۔

ابوبکر عدید نے کہا کہ ممنوعہ مصنوعات کی فہرست سے خارج ہونے کے بعد کھاد اور بیٹریوں سمیت 500 سے زائد قسم کی مصنوعات دوبارہ یمن میں آنا شروع ہوں گی۔

تاہم سعودی حکومت کی طرف سے اس معاملے پر فوری طور پر کوائی جواب نہیں دیا گیا۔

ملک بھر کی بندرگاہوں پر سامان کی آمدورفت کو بڑھانے کے اقدامات سعودی عرب اور ایران سے منسلک حوثی باغیوں کے درمیان براہ راست مذاکرات میں پیش رفت کی ایک کڑی ہیں جو کہ اقوام متحدہ کی امن کوششوں کے متوازی چلتے ہیں۔

واضح رہے کہ حوثی باغیوں نے 2014 میں عالمی تسلیم شدہ حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا جو کہ شمالی یمن اثر رسوخ رکھتے ہیں جن کا کہنا ہے کہ وہ کرپٹ نظام اور بیرونی جارحیت کے خلاف لڑ رہے ہیں۔

 فائل فوٹو: الجزیرہ
فائل فوٹو: الجزیرہ

خیال رہے کہ حوثی باغیوں کی تحریک کو خطے میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان پراکسی جنگ کے طور پر دیکھا جاتا ہے جبکہ دونوں ممالک نے حال ہی میں 2016 میں منقطع ہونے والے تعلقات کو بحال کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق سعودی اور حوثی باغیوں کے درمیان مذاکرات کا توجہ صنعا کا ہوائی اڈا اور حوثیوں کے زیر اثر علاقوں میں بندرگاہوں کو دوبارہ کھولنے، سرکاری ملازمین کے لیے اجرت کی ادائیگی، اور غیر یمنی افواج کے لیے ملک سے نکلنے کے لیے ایک ٹائم لائن پر مرکوز ہے۔

سعودی زیرقیادت حکومت نے 2015 سے درآمداد پر انحصار کرنے والے ملک یمن پر اشیا کی درآمداد پر متعدد پابندیاں عائد کر رکھی تھیں جہاں جنگ کی وجہ سے معیشت تباہی کے دہانے پر آگئی جس کو اقوام متحدہ نے دنیا کے بدترین ’انسانی بحران‘ قرار دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں