یونان کشتی حادثہ: پاکستان کو 82 افراد کی لاشیں موصول ہوچکیں، اموات میں اضافے کا خدشہ ہے، رانا ثنا اللہ

اپ ڈیٹ 23 جون 2023
رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے اعلیٰ سطح کی انکوائری کمیٹی مقرر کی ہے — فوٹو: ڈان نیوز
رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے اعلیٰ سطح کی انکوائری کمیٹی مقرر کی ہے — فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے یونان میں کشتی کے حادثے کے بارے میں اپ ڈیٹ فراہم کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ جاں بحق ہونے والے 82 پاکستانی افراد کی لاشیں مل چکی ہیں، ان کے نمونے حاصل کر لیے گئے ہیں اور نادرا کے ذریعے شناخت کا جاری عمل جاری ہے۔

قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ 10 جون کو چار سو افراد کی استعداد کی حامل کشتی 700 افراد کو لے جا رہی تھی، جو یونان کے ساحل کے قریب سمندر میں حادثے کا شکار ہو گئی، اس میں سوار پاکستانیوں کی تعداد 350 تھی، اس کشتی میں سوار 104 افراد زندہ بچے ہیں، ان میں صرف 12 پاکستانی ہیں، یہ انسانی جانوں کا اتنا بڑا نقصان ہے جتنا دہشت گردی کے واقعات میں بھی نہیں ہوا، اتنا نمبر شاید کسی حادثے میں بھی نہ ہو، جو اندازہ کیا جارہا ہے، اللہ کرے کہ باقی لوگ مل جائیں لیکن اموات بہت زیادہ ہوسکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ابھی تک 82 پاکستانی شہریوں کی لاشیں مل چکی ہیں، ان کے نمونے حاصل کر لیے گئے ہیں اور فرانزک لیبارٹری اور نادرا کے ذریعے سے ان کی شناخت کی کوشش کی جارہی ہے۔

رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ابھی تک پاکستان میں 281 فیملیز نے رابطہ کرکے بتایا ہے کہ ان کے پیارے اس حادثے کا شکار ہو سکتے ہیں، اس سلسلے میں باقاعدہ ڈیسک قائم کر دی گئی ہے، تمام فیمیلز کے ساتھ رابطہ قائم کیا جاچکا ہے، ان کے ڈی این ایز حاصل کر لیے گئے ہیں، بھرپور کوشش ہور ہی ہے کہ جیسے جیسے شناخت کا عمل مکمل ہو تو ان افراد کے جسد خاکی کو لایا جاسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب تک 193 کے قریب ڈی این اے کے نمونے حاصل کرچکے ہیں، اس سلسلے میں اعلیٰ سطح کی انکوائری کمیٹی وزیر اعظم نے مقرر کی ہے، ایک گریڈ 22 کے افسر اس کے سربراہ ہیں، وہ کمیٹی تین ایریاز میں کام کر رہی ہے، ایک تو جو لوگ انسانی اسمگلنگ کے اس گھناؤنے جرم میں ملوث ہیں، ان کے خلاف کارروائی کی جائے، اور اس بارے میں جو قانون موجود ہے، کیونکہ گزشتہ 5 برس کا جو ڈیٹا حاصل کیا گیا ہے، اس میں شاذ و نادر ہی کسی کو سزا ہوئی ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ مقدمات اگر درج بھی ہوئے ہیں تو لوگ بعد میں رہا ہوگئے، متاثرین صلح کرکے بیان جاری کردیتے ہیں، جس کی بنیاد پر سزا کا عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک تو قانون میں ترامیم کی تجویز دی جارہی ہے تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ کس طرح سے اس مکروہ دھندے میں ملوث مافیاز ہیں، ان کو سزا دی جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ دوسرا یہ ہے کہ جتنے بھی لوگ گئے ہیں، ان میں سے 99 فیصد لوگ قانونی طریقے سے گئے ہیں، (یعنی یہ تین روٹس ہیں، مصر، لیبیا اور یو اے ای)، پاکستان سے جب یہ گئے ہیں، تو یہ قانونی ویزے سے گئے ہیں، وہاں سے جا کر یہ غیر قانونی ہو جاتے ہیں، وہاں سے اس طرح کے راستوں سے یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

’بغیر بزنس کس طرح ان ممالک نے ہزاروں کی تعداد میں ویزے دیے‘

رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ ایک لڑکا جس کی عمر 18، 20 سال ہے اور اس کا کوئی بزنس بھی نہیں ہے، اور کوئی معاملہ بھی نہیں ہے تو کس طرح سے ہزاروں کی تعداد میں ان ممالک سے ویزے دیے گئے، اور وہ گروپس کی شکل میں چلے گئے، ہم ان ممالک سے بھی یہ معاملہ اٹھا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں بھی کوئی قدغن ہونی چاہیے، کوئی معیار ہونا چاہیے اور اس کے مطابق ویزے جاری ہونے چاہئیں۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں کوئی کوتاہی نہیں رکھی جائے گی، ان شا اللہ تعالیٰ اس معاملے میں جامع اور تفصیلی تجاویز کمیٹی لے کر آئے گی، جس کو حکومت منظور کرے گی، اس وقت بھی جو حکام ہیں، ان کا بھی اور جو ملوث مجرموں پر بھی کریک ڈاؤن کیا جارہا ہے، اور ان سب کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو پاکستانی تحقیقاتی ایجنسی کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے جائزے کے بعد پتا چلا کہ گزشتہ ہفتے یونان کے قریب سمندر میں گنجائش سے زیادہ افراد لے کر ڈوبنے والی کشتی پر کم از کم 209 پاکستانی ’متاثرین‘ سوار تھے۔

گزشتہ ہفتے یونان کے قریب بحیرہ روم میں تقریباً 400 پاکستانیوں سمیت 800 تارکین وطن پر مشتمل کشتی ڈوب گئی تھی جن میں سے محض 104 افراد کو زندہ ریسکیو کیا جاسکا، سیکڑوں افراد تاحال لاپتا ہیں اور مزید لوگوں کو زندہ حالت میں ڈھونڈ نکالنے کے امکانات تقریباً صفر ہیں۔

’عدالت عظمی میں ڈرامائی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں‘

رانا ثنااللہ نے کہا کہ اس وقت ہمارے ہمسایے میں جو انصاف کا سب سے بڑا ایوان ہے، عدالت عظمیٰ ہے، اس میں کل جو واقعات ہوئے ہیں، جس کے متعلق میڈیا میں اس قسم کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں لیکن سویلین کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کا معاملہ زیر غور تھا، وہاں پر ڈرامائی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہاں پر جو صورتحال ہے، اس کے پیش نظر کس قسم کے الفاظ اور کس قسم کے تبصرے ہو رہے ہیں، کل وہاں پر 9 رکنی بینچ جب سماعت کے لیے بیٹھا تو چیف جسٹس کے بعد جو سینئر ترین جج ہیں، جو کہ نامزد چیف جسٹس ہیں، انہوں نے یہ کہا کہ میں اس عدالت کو نہیں مانتا، جناب ڈپٹی اسپیکر، اگر یہ بات میں کہوں تو شاید فوری طور پر میں توہین عدالت کا مرتکب ہو جاؤں۔

’عدالت کا یہ اختیار نہیں کہ وہ قانون کے اوپر بیٹھے‘

وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ یہ بات سپریم کورٹ کا سینئر ترین جج کہہ رہا ہے، وہ کہتے ہیں کہ اس عدالت (بینچ) کی کوئی قانونی اور آئینی حیثیت نہیں ہے، اس کی وجہ یہ بتا رہے ہیں کہ پارلیمان نے جو قانون منظور کیا ہے، انہوں نے کہا کہ اس قانون کے منظور ہونے کے بعد اس عدالت کا فرض ہے کہ یہ آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرے، عدالت کا یہ اختیار نہیں کہ وہ قانون کے اوپر بیٹھے، وہ قانون کے خلاف فیصلے کرے، وہ آئین کے برعکس فیصلہ کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس (عدالت) نے جو فیصلہ کرنا ہے وہ قانون کے مطابق کرنا ہے، قانون کہتا ہے کہ بینچ وہ تین سینئر ممبرز کی کمیٹی بنائے گی، اور وہ کمیٹی جو بینچ بنائے گی، وہ بینچ آئینی اور قانونی طور پر درست ہوگا، سینئر جج صاحب کا یہ مؤقف ہے کہ 9 رکنی بینچ کو اس کمیٹی نے نہیں بنایا، اور آئین میں کہیں درج نہیں ہے کہ پارلیمنٹ ابھی قانون بنانے کا سوچ رہی ہو اور اس پر امتناع دے دیا جائے بلکہ کسی قانون کو معطل یا اسٹے کرنا عدالت کا اختیار نہیں ہے۔

’پٹیشن لانے والے دو سینئر وکلا زمان پارک میں عمران خان سے ملے‘

رانا ثنااللہ نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جو بات کل بینچ میں ہوئی ہے، اسے اگر آپ اس تناظر میں دیکھیں کہ اس سے پہلے ہمارے دو معزز سینئر ترین وکلا جو پٹیشن لے کر آئے ہیں، انہوں نے وکالت اور سیاست میں بہت اچھا کام کیا ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ وہ اپنی اننگز کھیل چکے ہیں اور ان کی جسمانی اور ذہنی صحت وہ اتنی اچھی نہیں ہے اور وہ ایسے معاملات کر کے اپنا جنازہ ہی خراب کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ مصدقہ خبر ہے کہ اس پٹیشن کو دائر کرنے سے پہلے یہ دونوں صاحبان عمران فتنے سے لاہور کے زمان پارک میں ملے ہیں اور اس کے بعد یہ چیف جسٹس آف پاکستان کو ملے اور اس کے بعد یہ پیشرفت ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات ایسے ثابت ہوتی ہے کہ جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بینچ میں بیٹھنے سے انکار کیا تو اس کے بعد دونوں وکلا نے ان کی منتیں شروع کردیں کہ آپ ضرور بیٹھیں، آپ کی اس میں رائے آنی چاہیے تاہم انہوں نے کہا کہ میں یہ معاملہ ان اعتراضات کی بنیاد پر نہیں سننا چاہتا تو ایک دم ان کے منہ سے نکلا کہ چیف جسٹس صاحب ہم نے تو آپ کو پہلے ہی کہا تھا کہ فل بینچ بنا دیں۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ اس ملاقات میں مبینہ طور پر یہ بات ڈسکس ہوئی کہ کونسا بینچ بنایا جائے اور اس ملاقات میں یہ بھی ڈسکس ہوا کہ کیونکہ قاضی فائز عیسیٰ کی فوجی عدالتوں کے بارے میں ایک رائے پائی جاتی ہے لہٰذا ان کو بھی شامل کر لیا جائے ورنہ پچھلے ایک سال میں انہیں کسی بینچ میں شامل نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب نے کبھی یہ مناسب نہیں سمجھا کہ وہ انہیں اپنے ساتھ بیٹھنے کی اجازت بھی دیں، یہ بات اس وقت بہت سنجیدہ ہو جاتی ہے جب آپ اس حقیقت کی طرف دیکھتے ہیں کہ ایک گفتگو خواجہ طارق رحیم اور صحافی عبدالقیوم کے درمیان بھی ہوئی تھی، جب 10 یا 11 مئی کو عمران خان کو عدالت میں پیش کر کے رہا کیا گیا تھا تو اس گفتگو میں خواجہ طارق رحیم نے فیصلہ فرمایا کہ کل اس طرح سے فیصلہ ہوگا، اگلے روز سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے وہی فیصلہ سنایا، تو پھر قوم اس بات پر تشویش کا اظہار کیوں نہ کرے۔

’عدلیہ کے فیصلوں کی طاقت شفاف اور غیر جانبدار فیصلوں میں ہے‘

ان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کا فیصلہ ہوا، سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل ہونا چاہیے اور اس پر عمل ہونے سے ہی انصاف کا بول بالا اور معاشرہ مضبوط ہو سکتا ہے لیکن جب ان فیصلوں کے پیچھے اس قسم کے عوامل ہوں گے، جب مرضی کے بینچ بنا کر مرضی کے فیصلے کیے اور کروائے جائیں گے تو ان فیصلوں کی اخلاقی قوت نہیں ہوتی۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ عدلیہ کے فیصلوں کی طاقت شفافیت، غیر جانبداری اور انصاف کی بنیاد پر کیے گئے فیصلوں میں ہے، اگر انصاف کی بنیاد پر وہ فیصلے نہ ہو رہے ہوں تو نہ تو ان فیصلوں کی کوئی طاقت ہوتی ہے اور نہ ہی ان پر عمل ہوتا ہے، مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کے فیصلے پر عمل نہیں ہو سکا اورہ وہ فیصلہ تاریخ کا حصہ ہے لیکن اس فیصلے کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سی چیزیں تاریخ کا حصہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ یہ فیصلہ ہونے سے پہلے پورے ملک کے تمام اداروں، پاکستان بار کونسل سمیت تمام بار نے، تمام بار ایسوسی ایشنز نے چیف جسٹس سے کہا تھا کہ فل بینچ بنا دیں، جب فل بینچ کا فیصلہ آئے گا اور اجتماعی دانش کارفرما ہوگی تو اس سے معاملات حل ہوں گے، اس پارلیمان نے قرارداد کے ذریعے کہا کہ فل بینچ بنا دیا جائے اور فل بینچ میں جو بھی فیصلہ کیا جائے گا اس کو پوری قوم تسلیم کرے گی، پارلیمنٹ تسلیم کرے گی، بار کونسل تسلیم کریں گی لیکن فل بینچ نہیں بنایا گیا اور پھر وہی بینچ جو پہلے سات رکنی تھا، سات سے پانچ ہوا، پھر تین رکنی بینچ رہ گیا اور اس نے فیصلہ کیا جسے مسلط اور عملدرآمد کی کوشش کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ کل جب 9 ممبرز کا بینچ بیٹھا تو دو سینئر ممبرز نے اعتراض کیا اور انہوں نے کہا کہ ہم یہ کیس سننے سے انکار نہیں کر رہے، ہم اپنے آپ کو بینچ سے دستبردار نہیں کر رہے، ہمارا یہ اعتراض ہے کہ جب پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ نہیں کیا جاتا، اس وقت یا تو اس قانون پر عمل کیا جائے اور اس کے مطابق کمیٹی بینچ مقرر کرے اور اگر کمیٹی بینچ مقرر نہیں کرتی تو ہم اس بینچ کا حصہ نہیں بنیں گے۔

’چیف جسٹس بینچ سے کسی جج کو مائنس نہیں کر سکتے‘

رانا ثنااللہ نے کہا کہ اس کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ اس پر کوئی فیصلہ کیا جاتا لیکن ٹھیک 31 منٹ بعد ان دو کو مائنس کر کے سات رکنی بینچ بنا کر سماعت شروع کردی گئی، سپریم کورٹ کے رولز کے مطابق جب ایک دفعہ چیف جسٹس بینچ مقرر کردیں، تو اس بینچ سے وہ کسی جج کو مائنس نہیں کر سکتے تاوقتیکہ وہ جج خود سماعت سے انکار نہ کردے لیکن کل یہ بھی کیا گیا اور اس بات میں کس بات کی جلدی ہے، یہ بات پوری قوم کو سمجھ آرہی ہے لیکن اس میں جس قسم کے رویے اپنائے جا رہے ہیں، اس کا آخری نتائج اچھے نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آپ دیکھیں بابا رحمتے اس وقت عبرت کا نشان ہے، اس وقت نفرت اور ذلت کا نشان بن کر پھر رہا ہے، کوئی اسے منہ لگانے کو تیار نہیں ہے، کوئی اس کے ساتھ ہاتھ ملانے کا تیار نہیں ہے، اب وہ ایک سیاسی جماعت کے ٹکٹوں کی دلالی کر رہا ہے اور اس کا بیٹا لوگوں کو کہہ رہا ہے کہ تم کو ٹکٹ دے دیا ہے، اگر ڈیڑھ کروڑ سے کم دیا تو میں تمہاری ٹانگیں توڑ دوں گا اور پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی اسے طلب کرتی ہے تو اس کے دفاع میں حکم امتناع جاری کردیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم آج جس بحران سے دوچار ہیں، اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری عدالتیں اور جج صاحبان وہ انصاف نہیں کر رہے بلکہ وہ سیاست کر رہے ہیں، ابھی ایک سینئر جج نے بھی اپنے فیصلے میں یہی لکھا ہے کہ ججوں کے لباس میں سیاستدان نظر آرہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان تمام معاملات کے بعد یہ بات کی جائے کہ فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل نہیں ہو سکتا، اگر آرمی ایکٹ اس کے تحت کسی کا ٹرائل نہیں ہو سکتا، اس کے تحت کے خلاف مقدمہ درج نہیں ہو سکتا تو پھر اس کو کالعدم قرار دیں، وہ پچھلے 70 سال اسی لیے موجود ہے کہ فوجی یونیفارم یا شہری لباس میں اگر کوئی ایسے ممنوعہ علاقے میں دفاعی تنصیبات یا دفاعی نظام پر حملہ آور ہو گا تو پھر اس کا ٹرائل کسی ٹریفک لا کے تحت نہیں بلکہ آرمی ایکٹ کے تحت ہی ہو گا اور آرمی ایکٹ کے تحت یہ ملٹری کورٹ کے تحت ہوگا۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ یہ ایسا نہیں ہے انہوں نے مال روڈ پر کسی ایمبولینس سے مریض کو نکال کر اس کو آگ لگا دی ہو، یہ ان دفاعی تنصیبات پر گئے ہیں، آرمی ہاؤس صرف رہائش گاہ نہیں تھی بلکہ وہاں کیمپ آفس بھی تھا اور اس درجے کے افسر کے دفتر میں کونسی حساس معلومات موجود نہیں ہوں گی، انہوں نے وہاں موجود آلات کو جلایا تو اس کو ریکور اللہ دتا تھانیدار کرے گا؟ اس کی تفتیش عام تھانے میں ہوگی، اس کی تفتیش آرمی کے لوگ ہی کریں گے، ریکوری آرمی کے لوگ ہی کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ کیا انسانی حقوق صرف ان لوگوں کے لیے ہیں جو شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی کریں، شہدا کے اہلخانہ کو آنسوؤں سے رلائیں اور پھر کہیں کہ ہمارے انسانی حقوق ہیں اس لیے ہمیں ہاتھ نہ لگایا جائے، 9 مئی کے واقعات کے بعد پوری قوم کا عزم ہے کہ جس نے ان واقعات کا ارتکاب کیا ہے، جس نے پاکستان کے دفاع اور دفاعی تنصیبات پر حملہ کیا ہے، اس بدبخت ٹولے کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے اور انصاف کے کٹہرے میں ہر قیمت پر لایا جائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں