وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کے مطابق پاکستان میں پائریسی، کاپی رائٹس اور دیگر مسائل سے نمٹنے کے لیے پہلی میوزک پالیسی تیار کر لی گئی ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پیر کو ایک اعلان میں انہوں نے کہا کہ مسودے کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور اسے صنعت کے لیے بڑی خبر قرار دیا۔

پالیسی کا مسودہ منظوری کے لیے عیدالاضحیٰ کے بعد وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کیے جانے کا امکان ہے، کابینہ کی منظوری کے بعد وزارت پالیسی کا نفاذ کرے گی۔

نئی پالیسی موسیقی کی صنعت کے فروغ اور پاکستان میں کاپی رائٹ کے غیر مؤثر قوانین کے بارے میں اسٹیک ہولڈرز کے خدشات کو دور کرنے کے لیے مراعات اور اقدامات کا خاکہ پیش کرتی ہے۔

وفاقی وزیر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 1970 کی دہائی سے موسیقی کی صنعت کے لیے قانون سازی سمیت کوئی بھی پالیسی متعارف نہیں کرائے گئے ہیں۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ پاکستان اور اس کی موسیقی کی صنعت کو دانشورانہ املاک کی چوری کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑا، لیکن نئی پالیسی موسیقی اور موسیقاروں کے حقوق کا مکمل تحفظ کرے گی۔

پالیسی کا مسودہ بین الاقوامی معیارات کے مطابق تیار کیا گیا ہے، اس پالیسی کے ساتھ، فنکاروں کی عوامی کارکردگی، پیداوار، تقسیم، موافقت، مدت اور مکینیکل اور کمیونیکیشن کے حقوق کے تحفظ کو قانونی فریم ورک میں لایا گیا ہے۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ اس طرح کے اقدامات کے ذریعے صارفین اور لائسنس حاصل کرنے والوں کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ موسیقی کو پاکستانی معاشرے کی روح کہا جا سکتا ہے بلکہ یہ ایک قومی اور ثقافتی شناخت ہے جسے نسل در نسل آگے لایا جا رہا ہے۔

یہ پالیسی صنعت میں اجارہ داری کو مؤثر طریقے سے ختم کرے گی اور فنکاروں کے بنیادی قانونی حقوق پر احتجاج کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ کاپی رائٹس سمیت موسیقی کے اسٹیک ہولڈرز کے تمام مسائل اور مطالبات کو حل کیا جائے گا۔

یہ پالیسی میوزک پروڈیوسرز، گلوکاروں، ادیبوں اور گیت نگاروں کے حقوق کو قانونی تحفظ فراہم کرے گی، اس کے علاوہ سیلز اور پائریسی سے متعلق انڈسٹری کے دیرینہ مسائل کو حل کرے گی۔

پالیسی کے مطابق کلاسیکی موسیقی کے تحفظ، مقامی اور لوک موسیقی اور علاقائی گلوکاروں کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے، پالیسی کے تحت پاکستان کے موسیقی کے ورثے کو نہ صرف محفوظ رکھنے بلکہ اسے فروغ دینے کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں گے جو کہ کلاسک اور جدید موسیقی کے ساتھ صوفی شاعری کے منفرد امتزاج کا بھرپور شاہکار تھا۔

ایک طویل عرصے سے شوبز فنکاروں اور موسیقاروں نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ دانشورانہ املاک کے حقوق کو نافذ کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ انہیں ان کے فن کی رائلٹی کی ادائیگی کی جائے۔

رائلٹیز فنکاروں کو دی جانے والی وہ ادائیگیاں ہوتی ہیں جو اس وقت دی جاتی ہے جب ایک پروجیکٹ جس پر انہوں نے کام کیا ہے، اسے دوبارہ چلایا جاتا ہے یا اسے کسی بھی طرح سے دوبارہ استعمال کیا جاتا ہے۔

اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک قدم اس سال کے اوائل میں اٹھایا گیا جب پی ٹی آئی کے سینیٹر فیصل جاوید نے اعلان کیا تھا کہ ملک کے فنکاروں کے لیے رائلٹی کا بل سینیٹ میں پیش کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ فنکاروں کو متعلقہ قوانین کی فالتو اور فرسودہ دفعات کی وجہ سے ایک طویل عرصے سے جائز اور منصفانہ رائلٹی کے مسئلے کا سامنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کاپی رائٹ آرڈیننس 1962 میں ترمیم کا مقصد کاپی رائٹ بورڈ کو لائسنسنگ اور اسائنمنٹ کے کام کے لیے رائلٹی طے کرنے کے لیے بااختیار بنانا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں