ملازمہ تشدد کیس: متاثرہ لڑکی کا بیان ریکارڈ کر لیا گیا

اپ ڈیٹ 28 جولائ 2023
بیان میں مزید کہا گیا کہ اسلام آباد پولیس کو مصدقہ میڈیکل رپورٹ تاحال موصول نہیں ہوئی ہے — فائل فوٹو: اے این پی
بیان میں مزید کہا گیا کہ اسلام آباد پولیس کو مصدقہ میڈیکل رپورٹ تاحال موصول نہیں ہوئی ہے — فائل فوٹو: اے این پی

اسلام آباد پولیس نے کہا ہے کہ سول جج کی اہلیہ کی جانب سے مبینہ طور پر شدید تشدد کا نشانہ بنائی گئی نوعمر ملازمہ کا بیان ریکارڈ کر لیا گیا ہے۔

سرگودھا کی رہائشی نوعمر لڑکی کو پیر کے روز لاہور جنرل ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جب کہ اسلام آباد کے سول جج اور ان کی اہلیہ پر تشدد کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔

لڑکی کے میڈیکو لیگل سرٹیفکیٹ کے مطابق لڑکی کے سر، پیشانی، بھنووں کے اوپر دائیں جانب زخموں کے نشانات تھے، ہونٹوں پر سوجن تھی، ناک سے خون نکلنے، ٹانگ پر ایک سے زیادہ زخم، دائیں بازو پر فریکچر، کھوپڑی، پیٹھ پر زخموں کے متعدد نشانات سمیت گلا گھونٹنے کی کوشش کے نشانات بھی پائے گئے۔

ابتدائی طور پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرنے کے بعد اسلام آباد پولیس نے 26 جولائی کو مقدمے کی ایف آئی آر درج کی تھی، پولیس نے ایف آئی آر میں جسمانی تشدد کا ذکر کیے بغیر جج کی اہلیہ کے خلاف دھمکیاں دینے اور حبس بے جا میں رکھنے کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا۔

گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے جج کی اہلیہ کی یکم اگست تک حفاظتی ضمانت منظور کر لی تھی۔

اسلام آباد پولیس نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں کہا کہ متاثرہ لڑکی اور اس کے والد کے بیانات قلمبند کر لیے گئے ہیں لیکن میڈیکل رپورٹ تاحال موصول نہیں ہوئی۔

اسلام آباد پولیس نے کہا کہ مضروب بچی اور اس کے والد کا بیان قلمبند کرلیا گیا ہے، ملزمہ نے یکم اگست تک ضمانت حاصل کر رکھی ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ اسلام آباد پولیس کو مصدقہ میڈیکل رپورٹ تاحال موصول نہیں ہوئی ہے، جرم میں شریک تمام افراد کی چھان بین کی جارہی ہے، تمام کارروائی قانون کے مطابق عمل میں لائی جارہی ہے۔

اسلام آباد پولیس نے کہا کہ چائلڈ لیبر قانوناً جرم ہے، ایسے کسی بھی واقعے کا کسی کو علم ہو تو پُکار 15 پر پولیس کو اطلاع دیں۔

قبل ازیں ایک پولیس افسر نے ڈان کو بتایا کہ کیپٹل پولیس نے کیس کی تحقیقات کا آغاز کردیا ہے، ملزمان کی گرفتاری کے لیے ٹیم لاہور اور دیگر شہروں کو روانہ کردی گئی ہیں۔

اینٹی ریپ (انویسٹی گیشن اینڈ ٹرائل) ایکٹ 2021 کے تحت تفتیشی ونگ کے اسپیشل سیکسوئل آفنس یونٹ کے بجائے متعلقہ تھانے کی جانب سے کیس کی تفتیش کی جا رہی ہے، ایس ایس او آئی یو کو ایکٹ کے تحت نابالغوں کے خلاف جرائم کی تحقیقات کا مینڈیٹ حاصل ہے۔

افسر نے بتایا کہ پولیس ٹیم نے ملزمان کی گرفتاری کے لیے راولپنڈی، لاہور اور گوجرانوالہ میں ان کے گھروں پر چھاپے مارے لیکن گرفتاری میں ناکام رہی، ٹیم کے نگران افسران کو بتایا گیا کہ ملزمان نے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کر لی ہے۔

افسر نے کہا کہ ضمانت کے بارے میں معلومات کے بعد ٹیم کو لاہور منتقل ہونے، متاثرہ لڑکی اور اس کے اہل خانہ سے ملنے کا کہا گیا جس پر ٹیم نے لڑکی اور اس کے اہل خانہ سے ہسپتال میں ملاقات کی اور ان کے بیانات قلمبند کیے۔

مقدمہ

مقدمہ ہمک پولیس اسٹیشن میں لڑکی کے والد کی شکایت پر درج کیا گیا، شکایت کنندہ پیشے کے لحاظ سے مزدور ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق اس نے اپنی بیٹی کو 10 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر ایک جاننے والے کے ذریعے زرتاج ہاؤسنگ سوسائٹی میں جج کے گھر بھیجا۔

23 جولائی کو وہ اپنی بیوی اور ایک رشتے دار کے ہمراہ بیٹی سے ملنے جج کے گھر گیا تو بیٹی کو زخمی حالت میں ایک کمرے میں روتے ہوئے پایا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ اس کے سر پر نظر آنے والے زخموں کے علاوہ چہرے، بازوؤں اور ٹانگوں پر بھی زخم تھے، اس کا دانت ٹوٹا ہوا تھا، ہونٹ اور آنکھوں پر سوجن تھی۔

پوچھنے پر لڑکی نے اپنے گھر والوں کو بتایا کہ جج کی اہلیہ اسے روزانہ ڈنڈے اور چمچے سے مارتی تھی اور رات کا کھانا نہیں دیتی تھی۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ لڑکی کو ایک کمرے میں نظر بند رکھا گیا تھا، بعد ازاں اہل خانہ اسے سرگودھا ڈی ایچ کیو ہسپتال لے گئے جہاں لڑکی کی حالت بگڑنے پر اسے لاہور ریفر کر دیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں