فلسطینیوں کو کیڑے مکوڑے نہیں کہا جاسکتا۔ وہ تیل کی دولت سے مالا مال نہیں ہیں لیکن انہوں نے بار بار ثابت کیا ہے کہ وہ بہت مضبوط لوگ ہیں۔ انہوں نے 7 اکتوبر کو جو کیا اس نے دنیا کو دنگ کر دیا۔ اس حوالے سے ڈان اخبار کی سرخی بھی شاندار تھی کہ ’بے مثال کارروائی نے اسرائیلی جالوت کو دنگ کر دیا‘۔ سرخی میں جو چیز پوشیدہ تھی وہ داؤد کا ذکر تھا۔

اس وقت سب سے زیادہ پریشان اور گھبراہٹ کا شکار امریکی صدر جو بائیڈن ہیں۔ ان کی دوسری مدت صدارت ہی خطرے میں نہیں بلکہ موجودہ صدارت اور پوری امریکی اسٹیبلشمنٹ بھی خوفزدہ نظر آئی۔ مسئلہ اسرائیل کی مدد کرنا نہیں تھا بلکہ بن یامین نیتن یاہو کو یقین دلانا تھا کہ بائیڈن ہمیشہ کی طرح اسرائیل کے وفادار ہیں اور اگر اسرائیلی انٹیلی جنس فلسطینیوں کے حملے سے بے خبر رہی تو امریکا کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہیے۔

اسرائیل کو امریکی حمایت کا یقین دلانا ایک بےکار کام تھا خاص طور پر امریکی صدر کے خصوصی اختیار کے ہوتے ہوئے جسے ’ڈرا ڈاؤن اتھارٹی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے تحت امریکی صدر کانگریس کی اجازت کے بغیر کسی بھی ملک کی فوجی امداد کرسکتا ہے۔ اگر امریکی صدر کو محسوس ہو کہ کسی بحرانی صورتحال میں فوری مدد کی ضرورت ہے تو وہ فوجی یا غیر فوجی امداد کی فوری منتقلی کرسکتا ہے تاہم سیکریٹری دفاع کو باضابطہ طور پر کانگریس کو مطلع کرنا ہوتا ہے۔

امریکا کے امداد دینے کے عمل کو یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مختصراً جان لیجیے کہ غیر ملکی امداد کے پروگرام کی ایک ایک پائی پر دونوں ایوانوں اور ان کی خصوصی کمیٹیوں کے ذریعے کارروائی ہونی چاہیے جس کے بعد بل صدر کے پاس دستخط کے لیے جاتا ہے۔ صدر کو آئین کے تحت یہ حق حاصل ہے کہ وہ بل کو ’پاکٹ ویٹو‘ کے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے مسترد کردے۔ صدر کی منظوری ملنے کے بعد بھی کوئی امریکی شہری اس کی درستگی کو چیلنج کرنے کے لیے عدالت میں جاسکتا ہے۔

تاہم، انتظامیہ کے پاس موجود اختیارات میں سے ایک اختیار ’ڈرا ڈاؤن اتھارٹی‘ کا بھی ہے۔ اس کے تحت، سیکریٹری آف اسٹیٹ ہنگامی صورت حال میں کسی ملک کو امداد فراہم کرنے کے اختیار کو استعمال کرنے کے فیصلے سے کانگریس کو بس آگاہ کردیتے ہیں اور معاملہ چلتا رہتا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے حکام کی طرف سے کانگریس کو دی گئی معلومات کے مطابق 1994ء میں کلنٹن انتظامیہ نے اعلان کیا تھا کہ وہ اسرائیل کو 50 ایف 16 طیارے مفت فراہم کرنے جا رہی ہے۔ امریکی فضائیہ کے پاس کوئی ’اضافی‘ ایف 16 طیارے نہیں تھے لیکن چونکہ اسرائیل کو ان کی ضرورت تھی تو امریکا نے ’موجودہ اسٹاک‘ میں سے طیارے فراہم کرنے کا فیصلہ کیا، کانگریس میں ہونے والی سماعت کی روداد ہمیں یہی بتاتی ہے۔

ہاؤس فارن ریلیشن کمیٹی کی ذیلی کمیٹی برائے یورپ اور مشرق وسطیٰ کی سماعت کے دوران، چیئرمین لی ہیملٹن نے یو ایس ایڈ کے ڈپٹی ڈائریکٹر کے علاوہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے حکام سے اس بارے میں سوال کیا تو انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیل کو 50 ایف 16 طیارے خصوصی ’ڈرا ڈاؤن اتھارٹی‘ کے تحت دیے جائیں گے۔

اسسٹنٹ ڈیفینس سیکریٹری فریڈ اسمتھ نے کمیٹی کو بتایا کہ یہ خصوصی اختیار صرف اسرائیل کے لیے استعمال ہوا ہے۔ ہیملٹن نے یہ سوال پوچھا کہ کیا اس سے اسرائیل کی اضافی امداد بھی ہوسکتی ہے تو جواب میں کہا گیا کہ ’ہمیں اس کی اجازت ہے کہ ہم امریکا کے موجودہ فعال اسٹاک سے براہ راست اثاثے حاصل کریں اور کانگریس کو اطلاع دینے کے بعد انہیں اسرائیل منتقل کردیں‘۔

جب ہیملٹن نے پوچھا کہ اس پروگرام سے کن دوسرے ممالک کو امداد بھیجی گئی ہے تو جواب ملا کہ ’کسی دوسرے ملک کو امداد نہیں بھیجی گئی‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ کوئی ایف 16 طیارہ اضافی نہیں تھا اور ہر وہ چیز جو ’ڈرا ڈاؤن‘ کے تحت منتقل کی گئی تھی وہ موجودہ اسٹاک سے حاصل کی گئی تھی۔

تاہم اسرائیل کو جیٹ طیارے فراہم کرنے کے فیصلے کے بعد سے اب حالات بدل گئے ہیں۔ حال ہی میں بائیڈن انتظامیہ نے یوکرین کو 6.2 ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کی فوجی امداد فراہم کرنے کے لیے 40 سے زائد مرتبہ ’ڈرا ڈاؤن اتھارٹی‘ کا استعمال کیا ہے۔

اس خصوصی اختیار سے قطع نظر، اسرائیل کے پاس نیتن یاہو کی جانب سے دی گئی انتقام لینے دھمکی کو عملی جامہ پہنانے اور ایسی کارروائی کرنے کے لیے کافی قوت موجود ہے جو ’مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدل دے گی‘۔ مشرق وسطیٰ کا یہ نیا نقشہ کیا ہو سکتا ہے؟ اسرائیل غالباً، غزہ، مغربی کنارے اور گولان کی پہاڑیوں کو ضم کر لے گا (اسرائیل نے پہلے ہی گولان کی پہاڑیوں کا ’الحاق‘ کر لیا ہے، حالانکہ اس اقدام کو بین الاقوامی توثیق حاصل نہیں ہوئی)، یوں ایک گریٹر اسرائیل کی تشکیل ہوجائے گی جس کا خواب صہیونیوں نے ہمیشہ دیکھا ہے۔

نیتن یاہو نے بارہا اعلان کیا ہے کہ دو ریاستی حل اب ناکارہ ہوچکا ہے اور مغربی کنارے پر کبھی بھی فلسطینی ریاست نہیں بنے گی۔ اب نیتن یاہو نے 3 لاکھ ریزرو فوجیوں کو متحرک کردیا ہے اور ممکنہ طور پر اب وہ فلسطینیوں کی نسل کشی کریں گے۔

جاری تنازع میں شاید حماس کو شکست ہوجائے لیکن اسے شدید مشکلات کے باوجود مزاحمت کے لیے یاد رکھا جائے گا۔ سرنگوں میں رہتے ہوئے اور کام کرتے ہوئے، حماس کے جنگجو اسٹریٹجک منصوبہ بندی اور حکمت عملی میں ان لوگوں سے آگے نکل گئے ہیں جو تمغے سجائے ہوئے فوجی ہیڈکوارٹر میں جنگ کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔

پاکستان نے بھی ’تحمل کا مظاہرہ‘ کرنے کی ہی بات کی ہے۔ پاکستان کے پاس اورانتخاب تھا بھی کیا؟ خاص طور پر اس تلخ حقیقت کو دیکھتے ہوئے کہ بہت سی عرب ریاستیں اسرائیل کی فوجی اتحادی کے طور پر دیکھی جاتی ہیں، وہ فلسطینی عوام تک پہنچنے کے بجائے ایران کے خلاف اتحاد بنانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ دریں اثنا، بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ حماس کس چیز کا مخفف ہے۔ حماس کا مطلب حرکت المقاوۃ الاسلامیہ (اسلامی مزاحمتی تحریک) ہے۔


یہ مضمون 18 اکتوبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں