موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے100 ارب ڈالر معاونت کے وعدوں پرفوری عمل درآمد ہونا چاہیے، وزیراعظم

02 دسمبر 2023
نگران وزیر اعظم نے کہا ترقی یافتہ ممالک کو پیرس معاہدے کے تحت اپنے مالیاتی وعدوں میں خامیوں کو فوری طور پر دور کرنا چاہیے—  فوٹو:ریڈیو پاکستان
نگران وزیر اعظم نے کہا ترقی یافتہ ممالک کو پیرس معاہدے کے تحت اپنے مالیاتی وعدوں میں خامیوں کو فوری طور پر دور کرنا چاہیے— فوٹو:ریڈیو پاکستان

نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے 100 ارب ڈالر کے معاونت کے وعدوں پر فوری عمل درآمدکی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے اقدامات پر عمل درآمد کے لیے اس معاونت کی ضرورت ہے۔

ہفتہ کو دبئی میں کوپ 28 کانفرنس کے دوران قومی بیان دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ 100ارب ڈالر کی معاونت ڈیولپمنٹ فنانس اور پہلے سے قرضوں کے بوجھ تلے رہنے والے ترقی پذیر ممالک کے قرضوں میں مزید اضافہ کی قیمت پر نہیں ہونا چاہیے۔

وزیراعظم نے کہاکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات میں کمی کے لیے ترقی یافتہ ممالک کو اپنی اقتصادی حیثیت اور تاریخی ذمہ داری سے ہم آہنگ قائدانہ کردارادا کرتے ہوئے اسی طرح کے اقدامات کے لیے ترقی پذیر ممالک کی مدد کرنی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے عالمگیر استقامت کے حصول کے لیے موسمیاتی موافقت کے واضح عالمی اہداف واشاریوں بشمول باقاعدہ نگرانی وپیش رفت پر مبنی ایک فریم ورک کی صورت میں نتیجہ کے حصول کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ کوپ 28 کانفرنس سے بہت زیادہ توقعات وابستہ ہیں جو حقیقت پسندانہ ہے اورہمیں امید ہے کہ اس سے عملی اقدامات کی راہ ہموار ہو گی۔

انوار الحق کاکڑ نے موسمیاتی تبدیلیوں کے بڑھتے ہوئے چیلنجوں اور مسائل پر قابو پانے اور اس ضمن میں اقدامات پر عمل درآمد کے لیے ترقی پذیر ممالک کے لیے موسمیاتی مالیاتی معاونت، استعدادکار میں بہتری اور ٹیکنالوجی کی فراہمی پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے اور اس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کو عالمی برادری کی جانب سے کیے گئے 100 ارب ڈالر کے معاونت کے وعدوں پرفوری عمل درآمد کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال پاکستان بدترین سیلاب سے متاثرہوا جبکہ جاری سال ریکارڈ شدہ تاریخ میں سب سے گرم ترین سال ہوگا۔

وزیراعظم نے کہاکہ گلاسکو میں کوپ 26 کے موقع پر پاکستان نے 2030 تک ماحول کو نقصان پہنچانے والی گیسوں کے اخراج میں مجموعی طورپر60 فیصد کمی کے پرجوش ہدف پر مبنی نظرثانی شدہ نیشنلی ڈیٹرمنڈ کنٹری بیوشن (این ڈی سی) پیش کیا تھا، اس سال پاکستان نے ایک جامع قومی موافقت پلان پیش کیا ہے جبکہ اختراقی لیونگ انڈس انیشئٹو کا آغاز بھی کردیاگیا ہے جس سے موسمیاتی تبدیلیوں اور فطرت کے لیے ہماری توجہ اورعزم کی عکاسی ہورہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ سال پاکستان نے گلوبل لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ کی کوشش میں قائدانہ کردارادا کیا تھا جبکہ اس سال ہم نے لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ اور فنڈنگ کے لیے مناسب انتظامات کو فعال بنانے کے لیے کام کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ موسمیاتی انصاف کا تقاضا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے کے قابل بنایا جائے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے ضمن میں ترقی پذیرممالک کو اضافی مالیاتی گرانٹس ضروری ہے۔

ترقی پذیر ممالک کی مالی ضروریات 100 ارب ڈالرز سے کہیں زیادہ ہیں، انوار الحق کاکڑ

دبئی میں ورلڈ کلائمیٹ ایکشن سمٹ میں مینز آف امپلی مینٹیشن گلوبل اسٹاک ٹیک(جی ایس ٹی) پر گول میز سے خطاب کرتے ہوئے نگران وزیر اعظم نے زور دیا کہ کوپ28 سربراہی اجلاس کو مالیات کو متحرک کرنے اور ترقی پذیر ممالک کی ضروریات کے درمیان بہت زیادہ فرق کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ترقی یافتہ ممالک کو پیرس معاہدے کے تحت اپنے مالیاتی وعدوں میں خامیوں کو فوری طور پر دور کرنا چاہیے۔

سربراہی اجلاس کے پہلے دن لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ کی تشکیل کا قدرتی آفات سے نمٹنے میں جدوجہد کرنے والی غریب قوموں کی طرف سے خیرمقدم کیا گیا جس میں 40 کروڑ سے زیادہ کے وعدے کیے گئے ہیں۔

انوار الحق کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ پاکستان جیسے ممالک کے لیے بڑی تشویشناک بات بار بار آنے والی قدرتی آفات ہیں، جس کو پانی، قومی سرمائے اور انسانی صحت کے شعبوں میں موافقت کی ضروریات کے ذریعے پورا کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ مالیاتی، ٹیکنالوجی اور صلاحیت سازی کی مدد موسمیاتی موافقت کے حوالے سے انتہائی اہم ہو گی۔

انہوں نےمالی وعدوں اور ترقی پذیر ممالک کی مالی ضروریات کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کی طرف توجہ مبذول کروائی۔

نگران وزیر اعظم نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کی مالی ضروریات 100 ارب ڈالرز سے کہیں زیادہ ہیں اور ترقی پذیر ممالک کے لیے قابلیت سازی کی بہتر فراہمی کے ساتھ ساتھ ثابت شدہ موسمیاتی ٹیکنالوجیز کی منتقلی پر بھی زور دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ترقی پذیر ممالک کو بتایا جاتا ہے کہ ان کے اشاریے بلند نظر نہیں ہیں، لیکن صرف ان کی موافقت کی ضروریات 2030 تک سالانہ 387 ارب ڈالر ہیں۔

انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ جی ایس ٹی کو ثابت شدہ موسمیاتی ٹیکنالوجی کو بڑھانے، ترقی دینے اور منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک کے لیے بہتر صلاحیت کی تعمیر کے لیے ٹیکنالوجی میکانزم کی تاثیر کو مضبوط کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی مالیاتی ڈھانچے میں اصلاحات کی ضرورت پر بھی زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

نگران وزیر اعظم نے اقوام متحدہ پرزور دیا کہ وہ ترقی پذیر ممالک کی صلاحیت سازی میں مدد کے حوالے سے زیادہ ہم آہنگی فراہم کرے تاکہ وہ مناسب آلات تیار کر سکیں اور خاص طور پر پائیدار بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے لیے قابل بینکاری منصوبے بنا سکیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ نجی شعبوں کی صلاحیتوں کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نبردآزما ہونے کے لیے درکار اقدامات کے لیے استعمال کیا جائے۔

انہوں نے کہا مجھے امید ہے کہ یہاں کوپ 28 کے دوران ہماری بات چیت کے نتیجے میں نفاذ کے ذرائع پر ایک نتیجہ نکل سکتا ہے جو ترقی پذیر ممالک کی ضروریات کے لیے منصفانہ اور کار آمد ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں