بندوقوں کے سائے تلے....

20 نومبر 2013
فائل فوٹو۔۔۔۔
فائل فوٹو۔۔۔۔

آج میں نے ایک گن خریدنے کا فیصلہ کیا ہے- میں نے ڈان کی ایک رپورٹ میں پڑھا تھا کہ پاکستان میں ایک سو اسی ملین کی آبادی کے بیچ بیس ملین گنیں موجود ہیں- اس کا مطلب ہر نویں شخص کے پاس ایک گن موجود ہے-

بڑی حوصلہ افزا بات ہے کہ ریاست پاکستان ایک عام شہری کی جان و مال کی حفاظت کے لئے اتنی فکر مند ہے کہ اس نے انہیں اپنی حفاظت کے لئے ہتھیار رکھنے کا اختیار دے دیا ہے- چناچہ جیسی کہ کہاوت ہے، “خدا بھی ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں-” میں نے بھی یہ فیصلہ کر لیا کہ گن رکھنے کے قومی رجحان کی پیروی کروں گا-

میں نے اپنے آٹھ قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کو گنا جن کے پاس کسی قسم کا اسلحہ نہیں تھا، ظاہر ہے اس بیقاعدگی سے بھی نمٹنا ضروری تھا چناچہ میں ایک ذمہ دار شہری کی طرح گن خریدنے نکل پڑا-

ہتھیار کے معاملے میں بالکل اناڑی نہیں ہوں- سات سال جیسی کم سن عمر میں، میں ایک مکمل کاؤ بواۓ سیٹ کا مالک تھا بمعہ ماسک، ہیٹ اور شیرف سلور بیج- انتہائی خراب پلاسٹک کے بنے اس سمتھ اینڈ ویسن پینتیس ایم ایم والی نقلی گن سے مسلح ہو کر میں اپنے جنگلی بھائی بہنوں کو قابو میں رکھتا-

برے لوگوں کو انجام تک پنہچانے اور وائلڈ وائلڈ ویسٹ میں امن قائم ہو جانے کے بعد سمتھ اینڈ ویسن کی جگہ واٹر گن نے لے لی، جس کے ذریعہ میں اپنے خلاف احتجاج کرنے والے بھائی بہنوں کو بھگایا کرتا تھا-

اور اب میں ‘زمزمہ کے آخری مظاہرے’ کے لئے تیار تھا، جو پورے مشرق کو ملک کے قانون کی عملداری کے تحت لے آۓ-

کام سے گھر واپسی پر، ہاتھ میں بریف کیس لئے میں اپنے محلے ہی میں موجود “حاجی شریف آرمز مرچنٹ” کی دکان میں داخل ہوا- ایک جوان آدمی جو نا کہیں سے حاجی لگتا تھا اور نا ہی شریف، ایک کونے میں آرام کرسی پر پڑا خراٹے لے رہا تھا- میں نے اس کے کاندھے ہلا کر جگایا- اس نے کاہلی کی ساتھ آنکھیں کھولیں اور بیزاری کے ساتھ پوچھا، ” کیا چاہیے؟’

“دو درجن سفید گلاب اور ایک محبت نامہ”، میں نے چڑ کر جواب دیا- اب وہ شخص چوکنا ہو گیا اور مشکوک نظروں سے میرے بریف کیس کی طرف دیکھنے لگا- “لیکن صاحب یہ اسلحے کی دکان ہے پھولوں کی نہیں”-

“تو پھر تم نے مجھ سے کیوں پوچھا کیا چاہیے”، میں نے کہا- یہ سن کر اس کا دماغ ٹھکانے پر آگیا اور ایک دکان دار اور گاہک کے بیچ طاقت کا ایک مضطرب سا توازن قائم ہو گیا- “لیکن جناب آپ تو دیکھنے میں ایک شریف ایماندار قسم کے آدمی لگتے ہیں، تو پھر آپ کو گن کیوں چاہیے؟”

صاف ظاہر ہے کہ میرا آفس کا لباس اور کھچڑی بال ان سوالات کا باعث بنے- “سنو! بھولے نوجوان، میں ایک ایماندار، قانون کا پابند شہری ہوں اسی لئے مجھے خود کو مسلح کرنے کی ضرورت ہے”-

ہتھیاروں کے ذخیرے کے اتنے نزدیک کھڑا میں طاقت کے احساس سے مخمور ہو رہا تھا- “اب اپنی بک بک بند کرو اور مجھے دکھاؤ کیا بیچتے ہو!” ”خیر، یہ تو اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کتنوں کو مارنا چاہتے ہیں-” اس کا سوال جائز تھا- میں نے اپنے ممکنہ شکاروں کو گننا شروع کیا مگر اعداد خطرناک حد تک قابو سے باہر ہونے لگے- “خیر، کوئی ایسی چیز دکھاؤ جو کچھ کا تو بالکل خاتمہ کردے اور جو باقی بچیں کسی اور کام کے لائق نہ رہیں-”

اس نے میری انسانیت پر سر ہلا کر تائید کی اور ایک گن اٹھا کر میرے ہاتھ میں دے دی- یہ گلوک نائن ایم ایم ہے، اس کی وجہ شہرت پاکستان کے عظیم امریکی دوست ریمونڈ ڈیوس ہیں- یہ آپ کے بریف کیس میں آرام سے آجاۓ گی-

میں نے اپنے ہونے والے نۓ ساتھی کو ہاتھ میں لیا- کئی سالوں میں پہلی مرتبہ مجھے تھوڑا اچھا محسوس ہو رہا تھا- دکان دار نے مجھے پوری دنیا بشمول ہمارے پڑوسی اسلامک ریپبلک آف درہ آدم خیل کی ہینڈ گنز دکھائیں-

“اگر آپ کسی ممنوعہ ہتھیار کی تلاش میں ہیں تو میں آپ کا رابطہ سہراب گوٹھ میں حاجی صاحب کے بڑے بھائی سے کروا سکتا ہوں- ماشا الله سے بڑے حاجی صاحب کے پاس کلاشنکوف سے لے کر گرینیڈ پھینکنے والے راکٹ اور سٹنگر گن تک موجود ہے-” میں رعب میں آگیا-

“بس نیوکلیئر بم نہیں ہے وہ بھی انشا الله جلد ہی آجاۓ گا- اسپ اپنا موبائل نمبر دے جائیں، جب بھی حاجی صاحب کے پاس اسٹاک میں سامان آجاۓ گا میں آپ کو ایک مس بیل دے دوں گا-”

جیسا کہ میرا بجٹ محدود تھا چناچہ میں نے پچاس ہزار کی دو نمبر چینی نائن ایم ایم گلوک پر ہی اکتفا کیا-

“جناب، میرے خیال سے آپ کے پاس گن لائسنس تو ہوگا؟”

دکان دار پھر سے اپنے احمقانہ سوالات پر آگیا-

“لڑکے تم گن لائسنس کا پوچھ رہے ہو؟ میں پاکستانی شہری ہوں، میرے پاس قتل کا لائسنس موجود ہے، دیکھو یہ رہا میرا نادرا کا اصلی شناختی کارڈ- اور اس کے ساتھ ہی تھوڑی گولیوں کے راؤنڈ بھی ڈال دینا-”

تو جناب پوری طرح سے مسلح میں خود کو ایک مستند پاکستانی شہری محسوس کرتا ہوا اسٹور سے باہر آگیا- گھر جاتے ہوۓ میں راستے میں عبدللہ شاہ غازی کے مزار پر رکا- میں ایک درجن پھول خریدے اور بزرگ کے قدموں میں رکھتے ہوۓ دل میں نے دعا کی کہ مجھے کبھی اپنا یہ ہتھیار استعمال کرنے کی ضرورت نہ پڑے-

ٹھیک اسی وقت، سڑک پار کرتی بوڑھی عورتوں اور بچوں پر تقریباً چڑھائی کرتے ہوۓ، کالے شیشوں سے مزین، درجن بھر مسلح افراد سے بھرے تین پک اپ ٹرک تیز رفتاری کے ساتھ مزار میں داخل ہوۓ- میں نے اپنی گن کو ٹٹولا، لیکن پھر ایک غیبی ہاتھ نے نرمی مگر مضبوطی کے ساتھ مجھے روک دیا- صاف ظاہر ہے کہ بزرگ نے میری دعا سن لی تھی-

لیکن میرا نذرانہ کب تک باقی رہے گا، ایک دن یہ پھول سوکھ کر مرجھا جائیں گے- اور پھر کیا ہوگا کون جانے-

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں