ایران، عالمی طاقتوں کے درمیان معاہدہ

اپ ڈیٹ 25 نومبر 2013
جینیوا: سوئٹزر لینڈ کے وزیر خارجہ اپنے ایرانی ہم منصب کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے۔— اے پی
جینیوا: سوئٹزر لینڈ کے وزیر خارجہ اپنے ایرانی ہم منصب کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے۔— اے پی

جنیوا: ایرانی جوہری پروگرام کے خاتمہ اور اس کے بدلے میں پابندیوں میں نرمی کے لیے کل بروز اتوار کو ایران اور دنیا کی چھ عالمی طاقتوں کے درمیان کامیاب مذاکرات کے بعد طے پانے والے معاہدے نے مشرقی وسطٰی میں جنگ کے خطرات کو کم کرنے اور وسیع تر مفاہمتی عمل کی ایک نئی راہ ہموار کی ہے۔

پانبدیوں میں نرمی کے مقصد سے ایران اور امریکا کے علاوہ فرانس، جرمنی، برطانیہ، چین اور روس کے درمیان ایک اہم عبوری معاہدہ کامیابی سے طے پایا گیا۔

تہران کا کہنا ہے کہ اس معاہدے میں یورینیم کی افزودگی کے لیے اس کا حق تسلیم کیا گیا ہے، لیکن واشنگٹن نے اس طرح کے کسی بھی معاہدے کی ترید کی ہے۔

ادھر اسرائیل نے اس معاہدے کو تاریخ کی ایک غلطی قرار دیا ہے، کیونکہ ایران اس بات کی یقین دہانی کروانے میں ناکام ہوا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار حاصل نہیں کر سکتا۔

اس سے پہلے چھ عالمی طاقتوں کے درمیان مذاکراتی عمل جاری رہا، جس کے بعد ان کے درمیان ایک ابتدائی معاہدہ طے پایا جو کچھ ماہ قبل بظاہر ناقابلِ تصور محسوس ہوتا تھا۔

واضح رہے کہ ایران کے جوہری ہتھیاروں کی مبینہ تیاری پر سب سے زیادہ شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے اور اس معاہدے کے تحت ایران اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرے گا۔

جینوا میں میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا کہ امریکہ ایران پر اقتصادی پابندیوں کو نرم کرے گا اور اس معاہدے کی کامیابی کے لیے امریکی صدر اور ایرانی وزیر خارجہ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

کیری نے کہا کہ معاہدے کے تحت ایران اپنا بیس فیصد یورینیم کا ذخیرہ کم کرے گا اور اسے چھ ماہ تک کسی اقتصادی پابندی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

معاہدے کے تحت امریکا اور اس کے اتحادی ایران کو سات بلین ڈالرز کے برابر اقتصادی امداد بھی فراہم کریں گے۔

اس معاہدے کا اعلان عالمی طاقتوں کے نمائندوں، یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کیتھرین ایشٹن اور ایران کے وزیر خارجہ جواز ظریف نے اتوار کو سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

امریکی صدر باراک اوباما نے اس معاہدے کے بعد اپنے خصوصی خطاب میں کہا کہ اس معاہدے سے دنیا مزید محفوظ ہو جائے گی۔

انہوں نے کہا ‘ایران سمیت تمام ملکوں کو پرامن ایٹمی ٹیکنالوجی کا حق حاصل ہے۔ ہمارا مقصد مسئلے کا پرامن حل تلاش کرنا تھا’۔

امریکی صدر نے کہا کہ معاہدے سے ایران کو تجارتی سرگرمیاں جاری رکھنے کا موقع ملے گا۔

معاہدے کے تحت ایران نئے سینٹری فیوجز نصب نہیں کرسکے گا اور اگر اس کی خلاف ورزی پر ایران سے ریلیف واپس لے لیا جائے گا۔

امریکی صدر نے ایران پر زور دیتے ہوئے کہ وہ معاہدے پر عمل درآمد کرتے ہوئے آئندہ چھ ماہ میں اپنے ایٹمی پروگرام پر خدشات کو دور کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ معاہدے سے ایران کو عالمی برادری میں دوبارہ سے شامل ہونے کا موقع ملے گا۔

امریکی صدر نے کہا کہ معاہدے کے تحت ایران ایٹمی مذاکراتی اہلکاروں کو اپنے ایٹمی پروگرام تک رسائی دے گا۔

دوسری جانب، ایران کے صدر حسن روحانی نے سوشل میڈیا کی ویب سائٹ پر اس معاہدے کے حوالے سے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ مذاکرات کاروں کی انتھک کوششوں اور روشن خیال ایرانی عوام کی وجہ سے ممکن ہوسکا ہے۔

حسن روحانی جو رواں سال جون میں ہونے والے ایرانی صدارتی انتخابات کے میں کامیاب ہوئے تھے، اس معاہدے کے بعد مغرب کے ساتھ کشیدگی کو ختم کرنے کی ایک امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی سرزمین سے یورینیم کی افزودگی اس کا حق ہے جس کو اس معاہدے میں عالمی طاقتوں نے قبول کیا ہے۔

لیکن، امریکی وزیر خارجہ جان کیری اس بات پر قائم ہیں کہ ایسا کچھ نہیں کہا گیا کہ یورینیم کی افزودگی ایران کا حق ہے۔

حسن روحانی کے مطابق ایٹمی معاہدے سے ایران میں نئے دور کا آغاز ہوگا۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے اس معاہدے پر کہا کہ یہ لوگوں اور مشرقِ وسطٰی کے عوام کو آگے کی سمت لے جانے کا ایک معاہدہ ثابت ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ڈیل دنیا کو محفوظ بنانے کی جانب ایک اچھا قدم ہے، لیکن اسرائیل نے اس ڈیل پر تنقید کی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ اس بات کی ضمانت دے کہ وہ جوہری ہتھیار نہیں بنائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں