قانون ہاتھ میں

30 نومبر 2013
سپریم کورٹ، فائل فوٹو۔۔۔
سپریم کورٹ، فائل فوٹو۔۔۔

سپریم کورٹ میں گذشتہ روز کی ہنگامہ آرائی نے ثابت کردیا کہ سولہ برس گذرنے کے باوجود پاکستان کے اندر کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔

فرق صرف اتنا ہے کہ سن اُنیّس سو ستانوے میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی عدالت پر پاکستان مسلم لیگ ۔ نون کے حامیوں نے دھاوا بولہ تھا اور اس بار پنجاب کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے وکلا نے قوم کے سب سے اعلیٰ منصبِ انصاف پر حملہ کیا ہے۔

حالات کی ستم ظریفی تو صاف ظاہر ہے: تب سیاسی کارکن اس لیے بپھرے تھے کہ سپریم کورٹ نے اُس وقت کے بھی وزیرِ اعظم نواز شریف پر توہینِ عدالت کی فردِ جرم عائد کردی تھی۔ منگل کو حملہ آور وہ وکلا تھے جو ابھی کچھ عرصہ پہلے تک ملک میں قانون کی 'بالادستی' اور برطرف چیف جسٹس کی بحالی کے لیے تحریک چلارہے تھے۔

یاد داشتوں میں محفوظ، حالیہ عرصے میں پیش آنے والے متعدد واقعات میں سے یہ بھی ایک ہے جو اشارہ کرتے ہیں کہ وکلا کا ایک گروپ خدائی فوجدار میں تبدیل ہوچکا ہے۔

بظاہر یہ وکلا پنجاب کے مختلف شہروں میں ہائی کورٹ بنچ قائم نہ کرنے کے خلاف احتجاج کررہے تھے لیکن جیسا کہ ماضی میں پیش آنے والے واقعات بھی ثابت کرچکے کہ اگر معاملات اُن کی مرضی کے مطابق نہ ہوں تو اکثر کالے کوٹوں والے تشدد پر اتر آتے ہیں۔ یہاں وکلا نے الزام عائد کیا کہ پولیس نے منتشر کرنے کے لیے ان پر بُری طرح تشدد کیا ہے۔

اگرچہ پولیس کی طرف سے غیر ضروری طور پر طاقت کے استعمال کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن سپریم کورٹ کے سامنے وکلا کی مشتعل تقاریر بھی صورتِ حال کو قابو میں رکھنے کے لیے معاون نہیں تھیں۔

چیف جسٹس کی بحالی کے لیے ان تھک تحریک چلا کر وکلا نے جو نیک نامی حاصل کی تھی، وہ ان کی صفوں میں موجود بعض لوگوں کے بدمعاش رویوں کے سبب مٹی میں مل چکی۔

قانون کی برادری کے یہ کالے کوٹ والے پولیس سے ٹکرائے، صحافیوں سے جھگڑے اور کچھ وکلا سن دو ہزار سات سے ہی ججوں کو پریشان کیے جارہے ہیں لیکن اپنی برادری والوں کی جانب سے قانون کی خلاف ورزی پر بار کونسلز اور سینئر وکلا کی خاموشی پریشان کُن ہے۔

چاہے بار کونسلز بدستورخاموشی اختیار رکھیں یا مشتعل رویہ اپنانے والوں کی کلائی پر زور دار تھپڑ رسید کریں، جب تک رویے تبدیل نہیں ہوتے، تب تک ایسے ناخوشگوار واقعات کا سلسلہ ختم ہونا ممکن نہیں۔

اس اداریہ کو انگریزی میں پڑھیں.

تبصرے (0) بند ہیں