امریکا نے پاکستان کے راستے نیٹو سپلائی روک دی

04 دسمبر 2013
پینٹا گون کے ترجمان مارک رٹ نے ایک بیان میں کہا کہ ”ہم نے کراچی سے طورخم تک زمینی راستوں کے ذریعے امریکی سازوسامان کی ترسیل ازخود روک دی ہے"۔ —. فائل فوٹو
پینٹا گون کے ترجمان مارک رٹ نے ایک بیان میں کہا کہ ”ہم نے کراچی سے طورخم تک زمینی راستوں کے ذریعے امریکی سازوسامان کی ترسیل ازخود روک دی ہے"۔ —. فائل فوٹو
نیٹو افواج کے سازوسامان سے لدے ٹرک افغانستان روانہ ہونے کے انتظار میں کھڑے ہیں۔ —. فائل فوٹو
نیٹو افواج کے سازوسامان سے لدے ٹرک افغانستان روانہ ہونے کے انتظار میں کھڑے ہیں۔ —. فائل فوٹو

واشنگٹن: امریکی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی فوج نے منگل چار دسمبر سے نیٹو سپلائی کے خلاف احتجاج کو ٹرک ڈرائیوروں کے لیے ایک خطرہ قرار دیتے ہوئے پاکستان کے راستے افغانستان کو سامان کی ترسیل معطل کردی۔

پاکستان کے شمال مغربی علاقے میں ڈنڈا بردار احتجاجی کارکنوں کی جانب سے نیٹو سپلائی کے ٹرکوں کی زبردستی تلاشی لینے کے بعد یہ اقدام سامنے آیا، قبائلی علاقے میں امریکی ڈرون حملوں کے یہ احتجاج خلاف کیا جارہا ہے۔

پینٹا گون کے ترجمان مارک رٹ نے ایک بیان میں کہا کہ ”ہم نے کراچی سے طورخم تک زمینی راستوں کے ذریعے امریکی سازوسامان کی ترسیل ازخود روک دی ہے۔“

انہوں نے اشارہ دیا کہ امریکی اور نیٹو افواج کے فوجی سازوسامان کو افغانستان سے نکالنے کے لیے اس مرکزی زمینی راستے کو استعمال کیا جانا تھا، جو 2014ء کے اختتام تک فوجیوں کے واپسی کے پروگرام کا ایک حصہ ہے۔

مذکورہ ترجمان نے بتایا کہ ان ٹرکوں کو افغانستان کے علاقوں میں روک کر انتظار کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔

مارک رٹ نے کہا ”ہم اُمید رکھتے ہیں کہ مستقبل قریب میں ہم اس راستے سے اپنی ترسیل دوبارہ بحال کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔“

ایک دفاعی اہلکار نے کہا کہ واشنگٹن کو یقین ہے کہ اس راستے کے استعمال میں اسلام آباد حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے اور وہ اس علاقے میں جلد ازجلدسیکیورٹی بحال کردے گی۔

مذکورہ دفاعی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ ”وہ کمپنیاں جن کے ساتھ ہمارے معاہدے ہیں، خود پریشان ہیں۔ اور یہ احتجاج ٹرک ڈرائیوروں کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے۔“

امریکا کے لیے شمال میں وسطی ایشیا کے ذریعے اپنے سامان کی ترسیل کے لیے متبادل راستے موجود ہیں، اگرچہ یہ راستہ طویل ہے اور اس کو استعمال کرنے سے اخراجات بھی بڑھ جاتے ہیں۔

مارک رٹ نے کہا کہ ”ہم پاکستان کے راستے اپنے سامان کی ترسیل کے حق میں ہیں اس لیے کہ یہ کم خرچ ہے، ہم نے فضائی، سمندری اور زمینی راستوں کے ذریعے افغانستان سے سامان باہر لے جانے کے لیے تیاری کرلی ہے۔“

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکا کی حکومتوں نے حال ہی میں ایک مشترکہ بیان میں کہا تھا کہ اسلام آباد اور واشنگٹن کے ساتھ ساتھ نیٹو اتحادی پاکستان کے ذریعے زمینی راستے کو اہم سمجھتے ہیں۔

امریکی سامان کا تقریباً نصف حصہ پاکستان کے راستے طورخم کی سرحد کے ذریعے لے جایا جارہا ہے، بقایا سامان ہوائی جہاز کے ذریعے علاقائی بندرگاہوں تک پہنچایا جارہا ہے۔

پاکستان میں سی آئی اے کے ڈرون حملے اسلام آباد کے ساتھ کشیدگی کا سبب بنے ہوئے ہیں، اور عوام کو مشتعل کررہے ہیں۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ خودکار ڈرون طیارے القاعدہ کے دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے لیے استعمال کیے جارہے ہیں۔

اور پاکستانی حکام عوامی سطح پر ان حملوں کی مذمت کرتے ہیں، جبکہ خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستانی حکومت خاموشی کے ساتھ کئی سالوں سے ان میں سے کچھ حملوں کی حمایت کی ہے۔

پاکستان کے ذریعے نیٹو کے سازو سامان کی ترسیل ماضی میں بھی سیاسی تناؤ کی وجہ سے رکاوٹ آئی تھی۔ اسلام آباد نے امریکی ہیلی کاپٹر کے حملے میں چوبیس پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد سات مہینے تک اتحادی ٹرکوں کے لیے اپنی سرحدیں بند کردی تھیں۔

واشنگٹن کی طرف سے معذرت کیے جانے بعد جولائی 2012ء میں ٹرکوں کے ذریعے سپلائی کے لیے سرحد دوبارہ کھول دی گئی تھی۔

ستمبر میں پینٹاگون نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ بارہ برس کی جنگ کے بعدچوبیس ہزار گاڑیاں اور بیس ہزار شپنگ کنٹینرز امریکہ واپس بھیجنے ہیں۔

پینٹاگون کو ہتھیار اور حساس آلات افغانستان سے باہر نکالنے ہیں۔ پینٹاگون حکام کے مطابق مکمل انخلاء پر اُٹھنے والے اخراجات کا اندازہ سات ارب ڈالرز لگایا گیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں