چیئرمین نادرا نے حکومت کو حساس ریکارڈ دینے سے انکار کر دیا تھا

10 دسمبر 2013
نادرا کے چیئرمین طارق ملک نے ووٹروں کے نشانات سمیت انتخابات کے حساس ریکارڈ فراہم کرنے سے انکار کردیا، اس لیے کہ الیکشن ٹریبیونلز کی ہدایات کے مطابق وہ کسی فرد، حکومتی شعبے یا پھر یہاں تک الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ساتھ بھی اس طرح کی تفصیلات کا اشتراک نہیں
نادرا کے چیئرمین طارق ملک نے ووٹروں کے نشانات سمیت انتخابات کے حساس ریکارڈ فراہم کرنے سے انکار کردیا، اس لیے کہ الیکشن ٹریبیونلز کی ہدایات کے مطابق وہ کسی فرد، حکومتی شعبے یا پھر یہاں تک الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ساتھ بھی اس طرح کی تفصیلات کا اشتراک نہیں

اسلام آباد: ڈان کو دستیاب ہونے والی ایک دستاویز سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) سے کچھ حساس معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تھی، جس میں ووٹروں کے انگوٹھے نشانات کی تصدیق کی مکمل رپورٹ بھی شامل ہے، یہ بعد میں حکومت اور نادرا کے درمیان فساد کی جڑ بن گئی۔

گیارہ مئی کے انتخابات کے دو ماہ بعد آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کے ایک آڈٹ آفیسر نے ایک خط آٹھ جولائی کو تحریر کیا تھا، اس خط کا مقصد نادرا کے انتظامی اور مالی معاملات کی تفصیلات کے ساتھ ساتھ انتخابات کے حوالے سے ایک رپورٹ حاصل کرنا تھا۔

مذکورہ دستاویز کے مطابق آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے جانب سے مکمل آڈٹ ہوجانے کے باوجود وزارت داخلہ ایک آڈیٹر وقار عالم کے ذریعے نادرا کا ایک اضافی آڈٹ کروانا چاہتی تھی۔

یہ خیال کیا جارہا ہے کہ حکومت اس اضافی آڈٹ کے ذریعے عام انتخابات پر تیار کی گئی نادراکی رپورٹ تک رسائی حاصل کرنا چاہتی تھی۔

تاہم نادرا کے چیئرمین طارق ملک نے ووٹروں کے نشانات سمیت انتخابات کے حساس ریکارڈ فراہم کرنے سے انکار کردیا، اس لیے کہ الیکشن ٹریبیونلز کی ہدایات کے مطابق وہ کسی فرد، حکومتی شعبے یا پھر یہاں تک الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ساتھ بھی اس طرح کی تفصیلات کا اشتراک نہیں کرسکتے۔

یہ معلومات صرف الیکشن ٹریبیونلز کو ہی فراہم کی جاسکتی ہیں، تاکہ وہ نادرا کی رپورٹ کی روشنی میں دھاندلی کی شکایات کا فیصلہ کرسکے۔

مذکورہ آڈیٹر نے اپنے خط میں سترہ اقسام کی تفصیلات حاصل کرنے کی کوشش کی تھی، جس میں مئی کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے والے ووٹروں کے انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کی ایک مکمل رپورٹ، ووٹروں کی فہرست کے بارے میں اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور عوام کی جانب سے موصول ہونے والی شکایات، انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے تیار کی گئی رپورٹ اور نادرا کی جانب سے فراہم کی جانے والی خدمات کی رپورٹ بھی شامل ہے۔

پھر تین دسمبر کی رات کو حکومت کا ایک حیرت انگیز اقدام یہ سامنے آیاکہ اس نے طارق ملک کو برطرف کرکے چند گھنٹوں کے اندر اندر نادرا کے نیا چیئرمین مقرر کردیا۔لیکن اگلے ہی دن اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومتی فیصلے کو معطل کرتے ہوئے طارق ملک کو بحال کردیا۔

یہ بحالی بظاہر حکومت کے لیے انا کا مسئلہ بن کر سامنے آیا اور اس نے طارق ملک پر سنگین الزامات عائد کردیے۔ ان کی تقرری کو غیرقانونی قرار دے دیا گیا، اور ان پر نادرا میں مالی بدانتظامی کا الزام لگایا۔

ایک دن کے بعد وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے گیارہ مئی کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے تنازعے کو حل کرنے کے لیے قومی اسمبلی میں نمائندگی کی حامل تمام سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈروں کو ایک اجلاس میں شرکت کی دعوت دے ڈالی۔ اس کے بعد پیر کے روز اُن کی وزارت کو نادرا کے چیئرمین کی طرف سے ایک خط موصول ہوا، جس میں انہوں نے وزیرداخلہ کی جانب سے عائد کیے گئے تمام الزامات کو مسترد کردیا۔ اس خط میں طارق ملک نے یہ بھی وضاحت کی کہ انہوں نے اضافی آڈٹ کی درخواست کیوں مسترد کردی تھی۔

انہوں نے اپنے خط میں کہا کہ ”میں کسی بھی قسم کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے نادرا کے آڈٹ سے متعلق وضاحت جمع کروا رہا ہوں اور یقین دلاتا ہوں کہ نادرا نے مالی نظم ضبط برقرار رکھا ہے۔ اس کی گواہی آڈیٹر جنرل کی 2012-13ء کی آڈٹ رپورٹ سے حاصل کی جاسکتی ہے، جس میں نادرا کی مالیاتی صورتحال کو تسلی بخش قرار دیا جاچکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نادرا کے آرڈیننس سیکشن ستائیس(2) کے مطابق ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ فرم کے ذریعے قانونی آڈٹ اس کے قیام کے آغاز سے کیا جارہا ہے، اور سال 2012-13ء کے لیے پہلے ہی آڈٹ کیا جاچکا ہے۔

طارق ملک نے کہا کہ آڈیٹر جنرل کی جانب سے اضافی آڈٹ پر نادرا کا مؤقف قانونی ڈویژن کے مشورے کی بنیاد پر تھا، کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو لازمی طور پر آڈٹ کی نوعیت اور وسعت کی وضاحت کرنی چاہئے اور قانون میں موجود آڈٹ سے متعلق شرط کے مطابق مطلع کرنا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سات مارچ کو اعلٰی سطح کی ایک کمیٹی آڈٹ کے آغاز سے پہلے اس قانونی مسئلے کو حل کرنے کے لیے تشکیل دی تھی،اور نادرا کے ساتھ اٹھارہ دیگر اداروں کے مقدمے تاحال سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ”لہٰذا نادرا وزارت داخلہ پر یہ واضح کرتی ہے کہ اگر آڈیٹر جنرل نے شرائط پوری کیے بغیر اضافی آڈٹ شروع کیا تو یہ پبلک اکاؤنٹ کمیٹی کی ہدایات کے ساتھ ساتھ لاء ڈویژن کے مشورے سے انحراف ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ جب آڈٹ کیا جارہا تھا تو نادرا نے آڈیٹر جنرل کی مقرر کردہ آڈٹ ٹیم کے ساتھ بھرپور تعاون کیا تھا۔

نادرا کے چیئرمین کے خط میں کہا گیا ہے کہ نادرا کو یہ خوف ہے کہ آئین کے آرٹیکل 170(2) کے تحت درکار آڈٹ کی وسعت اور گنجائش کا تعین کیے بغیر آڈیٹرز کو لامحدود صوابدید حاصل ہوجائے گی۔

”یہ خدشات اس وقت درست ثابت ہوئے جب آڈٹ ٹیم انتخابات کے نتائج کی تصدیق سے متعلق حساس ریکارڈ کو حاصل کرنے کا حکم دینا شروع کیا۔“

خط میں کہا گیا ہے کہ آڈٹ ٹیم نے 2004-05ء سے متعلق ریکارڈ حاصل کرنے کا حکم دیا تھا، جو اٹھارویں ترمیم کی منظوری سے پہلے کا معاملہ تھا، اور قانون کی دفعات کے تحت اس کی کارروائی کا معاملہ بند کردیا گیا تھا، مثال کے طور پر آئین کے آرٹیکل 169 کو آڈیٹر جنرل کے آرڈیننس 2001ء کے سیکشن 11(2) کے ساتھ پڑھا جائے۔ جو اس کے افعال، اختیارات، اور خدمات کی شرائط و ضوابط سے متعلق ہے۔

طارق ملک نے کہا کہ ”اس بات کا اعادہ کیا جاتا ہے اور یقین دہانی کی جاتی ہے کہ نادرا مناسب مالیاتی نظم و ضبط کو قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے، جس سے یہ منافع بخش سرکاری ادارہ منافع بن چکا ہے۔“

تبصرے (0) بند ہیں