موسیقی برائے موسیقی

31 دسمبر 2013
صنم ماروی۔— فائل فوٹو
صنم ماروی۔— فائل فوٹو

پچھلے کئی سالوں سے پاکستانی میوزک کے زوال کا ماتم جاری ہے اور اس بار بھی یہی کچھ ہوا۔

موسیقاروں کو اس بات کی شکایت ہے کہ یہاں ان کی سپورٹ کے لئے ایک مناسب ریکارڈنگ انڈسٹری کا فقدان ہے۔

کوک سٹوڈیو، جس نے کچھ عرصہ سے یہ ذمہ داری سنبھال رکھی تھی، اس سال اپنے چھٹے سیزن میں کشش کھو دی بیٹھا، متوقع انداز کے ساتھ اس میں ایک طرح کا باسی پن آ گیا ہے۔

لیکن سچ تو یہ ہے کہ جیسا موسیقی کے پنڈتوں نے نقشہ کھینچا ہے، صورتحال اتنی تاریک نہیں۔

سنہ دو ہزار تیرہ موسیقی کے لئے کوئی شاندار سال تو نہ تھا لیکن یہ موسیقی کے ممتاز لمحات سے بھی خالی نہ تھا۔

اس سال موسیقی کے پانچ ممتاز لمحات پیش خدمت ہیں۔

صبح کے بھولے کی واپسی

آغاز کرتے ہیں پاکستانی موسیقی کے تجربہ کار موسیقار ابرار الحق سے جنہوں نے اس سال کوک سٹوڈیو کے ساتھ اپنا ڈیبیو گیت 'عشق دی بوٹی' ریکارڈ کیا۔

یہ مغربی سروں پر لوک اور فنک کا امتزاج ہے۔ اس گیت کی شاعری میں ایک انسان کا ذاتی روحانی سفر بیان کیا گیا ہے اور ساتھ ہی اس میں ابرارالحق کی فنی صلاحیت مظاہرہ بھی کیا گیا۔

موسیقی کے لحاظ سے یہ دلوں کو موہ لینے والا گیت ہے جس میں کسی انتہائی بے حس انسان کو بھی اپنی طرف راغب کر لینے کی صلاحیت ہے، جبکہ دوسری طرف، ایک تیز براس سیکشن، آواز اور بناوٹ کے کامل امتزاج کے لئے ضروری توازن فراہم کرتا ہے۔

ابھرتا ہوا ستارہ

صنم ماروی، کچھ سالوں سے انڈسٹری میں موجود ہیں، پنجابی لوک اور صوفی موسیقی کا ان کا اپنا انداز ہے، جو خصوصاً کوک سٹوڈیو میں ان کی چند پرفارمنسز کے دوران سامنے آیا۔

لیکن حضرت سچل سرمست کی نظم 'یار ویکھو' پر انکی پرفارمنس نے سوشل میڈیا پر دھوم مچا دی اور انہیں دوسری 'عابدہ پروین' کہا جانے لگا۔

ایک پچیس سالہ گلوکارہ کے لئے یہ اعزاز کی بات ہے۔

مورو کا صوفی رخ

ایک شخص پر مشتمل ساؤنڈ فیکٹری، تیمور صلاح الدین، گزشتہ چند سالوں میں ملکی میوزک سین پر کئی بار نمودار ہوا۔

پاپ، ہپ ہاپ اور راک کے فراغ دلانا استعمال کے ساتھ ایسی دھنیں تیار کرتے ہیں جو آخر میں حیران کن طور پر کانوں کو بھلی ہوتی ہیں۔

صاف ظاہر ہے کہ مورو، نئی جہتوں پر کام کرنے سے نہیں گھبراتے، اور موسیقی کی اسی جرات مندانہ حساسیت کے ساتھ انہوں نے عابدہ پروین کے 'گھڑولی' کو اپنے 'طریقے' سے پیش کیا۔

ایک صوفی کلاسک کے ساتھ مورو کے اس گستاخانہ سلوک پر تخلیص پسند کافی برہم تو ہوں گے لیکن ان کا یہ ماننا ہے کہ اگر وقتاً فوقتاً اس میں نئی روح نہ پھونکی جائے تو موسیقی بھلے وہ کلاسک ہی کیوں نہ ہو، جمود کا شکار ہوجائے گی۔

اپنی نئی طرز کی بیٹس اور انوکھے سینتھسایزر کی مدد سے مورو نے 'گھڑولی' کو اس سال کی موسیقی کا ایک کامیاب شاہکار بنا دیا ہے۔

سنہ دو ہزار تیرہ کا فراڈیہ سٹائل

نیس کیفے بیس مینٹ والوں نے، آواز گروپ کے کلاسک ہٹ 'مسٹر فراڈئے ' کو ایک نئی طرز دے کر ہم میں سے بہت سوں کے لئے پرانی یادیں تازہ کر دی ہیں۔

گلوکار التمش سیور نے اسٹیبلشمنٹ پر بنائی گئی اس طنزیہ دھن کے ساتھ انصاف کیا، ایک ایسی چیز جو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے آج بھی رائج ہے۔

بیسمینٹ بینڈ نے گیت کی اصل روح کو برقرار رکھتے ہوئے، 90' کے پاپ کے پھکڑپن کو ایک مختلف جاز سٹائل سے تبدیل کر دیا ہے۔

اس میں براس سیکشن کی شمولیت نے اس گانے کو مزید جاندار بنا دیا جس سے سننے میں بھی تازگی کا احساس ہوا۔

یہ بھی ایک خوش آئند بات ہے کہ پاکستانی موسیقی کی نئی نسل، نوے کے عہد میں رائج 'میں اور میرا' کی نفسیات سے باہر نکل آئی ہے۔

نشیلی آنکھوں والا

طاہر شاہ کے بارے میں اب تک کافی کچھ کہا جا چکا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے پاکستانیوں کو اپنی نشیلی نگاہوں کے سحر میں جکڑ لیا۔ ایک ایسا گانا جو 'اتنا برا ہے کہ بہترین' کی کیٹگری میں رکھے جانے کے لائق ہے۔

آئی ٹو آئی، وائرل سنسیشن کی بہترین مثال ہے۔ ہم سے بہت سے اب بھی اس سے متاثر ہیں اور وہ جو اس بات سے انکاری ہیں وہ بے خبری کے عالم میں یہ گیت گنگناتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔

اب بھی یہ بات واضح نہیں ہو سکی کہ آیا یہ ایک ہوشیار شعبدہ باز کی طرف سے گیت نگاری کی ایک مخلصانہ کوشش تھی یا ایک شاندار مذاق۔

بہرحال، اپنی تمام غلط جزیات کے ساتھ ہی سہی لیکن یہ سنہ دو ہزار تیرہ کا ایک سب سے زیادہ قابل ذکر لمحہ تھا۔ چناچہ مزید بحث برطرف، طاہر شاہ موسیقی کا یہ سال آپ کے نام ہے۔

ترجمہ ناہید اسرار

تبصرے (0) بند ہیں