اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر اور سابق وزیرِ داخلہ رحمان ملک نے حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی قانونی حثیت پر سوال اٹھاتے کہا ہے کہ حکومت سے کہا ہے کہ وہ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے تنظیم کا نام کالعدم کی فہرست سے ختم کرنے پر اپنی پوزیشن واضح کرے۔

انہوں نے سینیٹ کے اجلاس میں بات کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا ایک کالعدم تینظیم کے ساتھ مذاکرات کرکے ہم آئین کی خلاف ورزی نہیں کررہے ہیں۔؟ اگر کل کوئی سپریم کورٹ میں چلا جاتا ہے تو پھر کیا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ انسدادِ دہشت گردی کے ایکٹ 1997ء کی شک نمبر گیارہ کے تحت کسی کالعدم تنظیم کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوسکتے۔

انہوں نے کہا کہ سیکشن گیارہ اے اور گیارہ بی میں یہ واضح ہے کہ آپ کالعدم تنظمیوں سے بات نہیں کرسکتے۔

سابق وزیرِ داخلہ نے جماعتِ اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام ف سمیت مذہبی جماعتوں کے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ آپس میں تعلقات کے بارے میں بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ جماعتِ اسلامی اور جے یو آئی ایف سیاسی جماعتوں کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں جو آئین کے دائرہ کار سے باہر کوئی کام نہیں کرسکتی ہیں۔

رحمان ملک کے مطابق ماضی سے ظاہر ہوتاہے کہ طالبان مذاکراتی عمل کے دوران ہمیشہ اپنے آپ کو منظم کرتے ہیں جس طرح سن 2005ء اور 2006ء میں معاہدوں تک پہنچنے پر انہوں نے سوات اور مالاکنڈ پر قبضہ کرلیا۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا دیگر معاہدوں سے طالبان ملک میں داخل ہونا نہیں چاہیں گے۔

پیپلز پارٹی کے سینیٹر مذاکراتی کمیٹیوں کے حوالے سے ایک عوامی ضابطہ بنانے پر بھی مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں۔

تبصرے (0) بند ہیں