ذہنی سرماۓ کی ہجرت؟

20 مارچ 2014
اگر حکومت کو ماہرین کی ضرورت ہے، ایسے افراد کی جن کی ایک ساکھ ہوتی ہے اوران کے اصول جس کی بنا پروہ حکومت کی کوششوں کیلئے اپنی خدمات پیش کرتے ہیں تو حکومتوں کو ان کو کام کرنے کے مواقع دینے چاہئیں-فائل فوٹو۔۔۔
اگر حکومت کو ماہرین کی ضرورت ہے، ایسے افراد کی جن کی ایک ساکھ ہوتی ہے اوران کے اصول جس کی بنا پروہ حکومت کی کوششوں کیلئے اپنی خدمات پیش کرتے ہیں تو حکومتوں کو ان کو کام کرنے کے مواقع دینے چاہئیں-فائل فوٹو۔۔۔

ایک اخباری رپورٹ کے مطابق، وفاقی وزیر منصوبہ بندی، ترقی اور اصلاحات، احسن اقبال نے پچھلے مہینے سینیٹ کے ایک اجلاس میں بتایا؛

" ملک کے اندر انسانی وسائل کی کمی کا بحران اور ذہنی ہجرت کا مسئلہ اتنا شدید ہوگیا ہے کہ چیف اکنامسٹ کی پوسٹ کے لئے حالیہ سالوں میں کوئی مناسب شخص نہیں ملا ہے" گو کہ حکومت نے اس اسامی کے لئے بڑے پیمانے پر اشتہارات دئے ہیں-

انسانی وسائل کی صورت حال واقعی بہت بدتر ہے: پاکستان میں تعلیم کا معیار عموماً بہت پست ہے- اور بہت کم لوگوں کو باہر اچھے اداروں میں داخلہ ملتا ہے اور جوباہر جاتے ہیں ان میں سے بہت کم واپس آتے ہیں- لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اور نہ ہی صرف اکنامسٹ (ماہر معاشیات) کی یہ صورت حال ہے- یہ مسئلہ تقریباً تمام شعبے کے لوگوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے چاہے وہ سیاست دان ہوں، بیوروکریٹ ہوں ، جنرل ہوں یا ججز-

اس معاملے میں وزیر صاحب کے خیال میں اشتہارپر لوگوں کا توجہ نہ دینا دراصل ان کی قلت ہے ان کے ذہن کی پیداوار سمجھا جا سکتا ہے- دوسرا امکان جو انہوں نظرانداز کردیا یا اس کے بارے میں سوچا ہی نہیں وہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس اسامی کے ممکنہ امیدواروں نے اس پوزیشن کو اپنی اہلیت کے لئے اتنا پرکشش نہیں سمجھا ہو-

اس کی بھی کچھ وجوہات ہوسکتی ہیں- جو آخری عہدہ دارتھا وہ کل وقتی اور طویل المیعاد عہدہ دار تھا لیکن اس کو حکومت کے ساتھ مبینہ اختلافات کی بنا پر فارغ کردیا گیا تھا- اس کے بعد سے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کے وائس چانسلر چیف اکنامسٹ کے اضافی عہدہ کی ذمہ داری نبھارہے تھے، اور یا یہ عہدہ ایسے لوگوں کے پاس رہا ہے جن پر کبھی آزاد سوچ کے حامل انسان ہونے کا الزام نہیں لگا-

یہ ایک عام سا مسئلہ ہے ، یہاں کی حکومتوں میں آزاد سوچ کے حامل ماہرین کوزیادہ آزادی دینے کا رواج نہیں ہے، نہ وہ ان کو سننا چاہتی ہیں اور نہ ہی ان کی سننا چاہتی ہیں، لیکن وہ ان سے اپنے ہر کام کی سند لینا چاہتی ہیں- وہ ایسے لوگوں سے جن کی ایک ساکھ ہوتی ہے اپنی مرضی کے مطابق حکومت کے موقف اور پالیسیوں کی تائید چاہتی ہیں-

اس کہانی کو سنانے کا اس سے بہتر طریقہ نہیں ہے کہ اسٹیٹ بینک کے آخری چند گورنروں کی مثال کو دیکھ لیا جائے- اس عہدہ کی مناسبت سے قطع نظر کچھ لوگوں کو اس لئے تعینات کیا گیا کہ ان کے تعلقات حکومت وقت سے بہت اچھے تھے، اس کے باوجود، عہدہ کی ضروریات کے پیش نظر، جہاں کہیں یہ لوگ کوئی ایسی بات کہنا چاہتے جو حکومت کی مرضی کی نہیں ہوتی یا طاقتور حلقوں کے مفاد میں نہیں ہوتی، انہیں باہر کا راستہ دکھا دیا جاتا-

تلاش پھر سے جاری ہے، کسی ایسے شخص کیلئے جو خاصی صلاحیتوں کا مالک ہو لیکن اس میں لچک بھی ہونا چاہئے- ادارہ کی "آزادی" کیلئے یہ اچھا شگون نہیں ہے، بلکہ صرف سیاست دانوں کیلئے، جن کے پاس محدود وقت ہوتا ہے اور ان اداروں پر اپنے فیصلوں کےطویل المدت یا درمیانہ مدت کے اثرات کی ان کو پرواہ نہیں ہوتی -

اور یہ بات صرف ایکنامسٹ کے بارے میں ہی نہیں ہے- پی ایم ایل-ن کی حکومت کافی بڑے منصوبوں کے ساتھ قومیائے اداروں کے کافی سربراہوں اوران کے بورڈ ممبران کی تعیناتی کا پروگرام بنا کر آئی تھی اس کا وعدہ تھا کہ بہتر اورپیشہ ور حکمرانی عوام کو دینگے لیکن اب تک ان میں سے بہت کم پر کام ہوا ہے-

سنا گیا تھا کہ ان کے پاس ہزاروں لوگوں کی لمبی لسٹ تھی جن سے وہ رابطہ کرنا چاہ رہے تھے- لیکن بہت تھوڑے لوگوں کا تقرر کیا گیا ، در حقیقت، سننے میں آیا ہے کہ کافی تارکین وطن اور مقامی لوگوں نے ان منافع بخش نوکریوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور جو تقرریاں کی گئیں ہیں وہ ، کچھ تو، حقیقی معنوں میں پی ایم ایل ن کے اعلیٰ عہدہ داروں کے رشتہ دار ہیں-

ایکنامک ایڈوائزری کونسل، جو وزارت مالیات نے پچھلے سال ہی قائم کی تھی، کے کچھ ممبران نے کونسل کی دوسری میٹنگ کے بعد بتایا، کہ حکومت کونسل کے ممبروں کو معلومات مہیا کرنے کے لئے میٹننگوں میں سارا وقت لگاتی ہے لیکن ممبرز کیا کہنا چاہتے ہیں وہ سننے میں اسے کوئی دلچسپی نہیں ہے- کئی ممبر اس بات سے کافی مایوس ہوئے ہیں جس طرح حکومت نے ان کی مہارت کا استعمال کیا ہے( یا نہیں کیا ہے)

حالیہ دنوں میں میرے ایک دوست نے، جو صوبائی سطح پر حکومت کی کئی کمیٹیوں کے ممبر ہیں، مجھے بتایا کہ یہ لوگ انھیں ایک ایسا بکس سمجھتے ہیں جسے سارے ڈیپارٹمنٹ، بیوروکریٹس اور سیاست دان استعمال کرتے ہیں تاکہ وہ یہ کہہ سکیں کہ وہ ماہرین سے مشورہ کرتے ہیں لیکن ان کے مشورہ کی ضرورت انہوں نے کبھی محسوس نہیں کی- زیادہ موقعوں پر تو ان کو ان کمیٹیوں میں بھی نہیں رکھا گیا جس میں وہ سمجھتے تھے کہ وہ واقعی بہت کارآمد ہو سکتے تھے-

یہ تجربہ اتنا عجیب نہیں ہے- ہم نے ایسے حالات دیکھے ہیں جہاں ایک پالیسی پر تنقید کرنے والوں کو حکومت نے خاموش کردیا ہو اور ان کے مشوروں کو نظرانداز کرکے ان کو متعلقہ کمیٹی سے ہٹادیا ہو یا آئندہ ان کمیٹیوں اور گفت و شنید میں ان کو شامل ہی نہیں کیا ہو-

ایک دوست نے ایک مرتبہ کہا کہ وہ ایک مخصوص موضوع پر کام کرنے اور اس میں اصلاحات کرنے میں بہت دلچسپی رکھتے تھے، اگرچہ ان کو کئی کمیٹیوں کا ممبر بنایا گیا لیکں اس کمیٹی کا ممبر نہیں بنایا گیا جس میں ان کی خاص دلچسپی تھی-

اگر حکومت کو ماہرین کی ضرورت ہے، ایسے افراد کی جن کی ایک ساکھ ہوتی ہے اوران کے اصول جس کی بنا پروہ حکومت کی کوششوں کیلئے اپنی خدمات پیش کرتے ہیں تو حکومتوں کو ان کو کام کرنے کے مواقع دینے چاہئیں- حکومتوں کو ان کی بات بھی سننی چاہئے ان سے کبھی اختلاف بھی ہوسکتا ہے- یہی وہ وجوہات ہیں جن کے لئے ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے اوراگر حکومت یہ سگنل ایمانداری سے نہیں دے سکتی ہے تو اسے اکثرانہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا جس کا وزیر موصوف نے ذکر کیا ہے- موخرالذکر نے تنخواہوں کے لیول پر نظرثانی کی بھی بات کی تاکہ حکومت کی اسامیاں زیادہ پرکشش ہوسکیں- ممکن ہے کہ یہ اس مسئلہ کا ایک پہلو ہو لیکن یہ اس مسئلہ کا حقیقی حل نہیں ہے-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: علی مظفر جعفری

تبصرے (0) بند ہیں