انسانیت کا این او سی

17 جون 2014
کوئی اپنی نمازوں کے قصّے گا رہا تھا، کسی کو اپنی پاک دامنی کا مان تھا تو کسی کے پاس بڑے بڑے اللہ والوں کی سفارشیں تھیں -- السٹریشن -- خدا بخش ابڑو
کوئی اپنی نمازوں کے قصّے گا رہا تھا، کسی کو اپنی پاک دامنی کا مان تھا تو کسی کے پاس بڑے بڑے اللہ والوں کی سفارشیں تھیں -- السٹریشن -- خدا بخش ابڑو

قطار اتنی لمبی تھی کہ نظر کی حدوں کے پار بھی نظر آرہی تھی۔ رفتار اتنی سُست کہ چلنے والوں کو رُکے رہنے کا گماں ہورہا تھا۔ موسم بھی خشک تھا۔ عالم بھی حبس جیسا تھا۔ ہر کسی کے چہرے پر بارہ بجے ہوئے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے سب ہی لوگوں کو زبردستی قطار میں کھڑا کر دیا گیا ہو۔

وہ اپنے اپنے آگے والوں سے ہر چند لمحوں بعد کانوں میں کچھ کہتے۔ پھر نفی میں سَر ہلاتے اور سر جُھکا کر دوبارہ خاموش ہوجاتے اور اپنی باری آنے کا انتظار کرنے لگتے۔ لیکن باری تھی کہ آ کر ہی نہیں دے رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ دُنیا جہان کے لوگ ایک ہی لائن میں آ لگےہوں۔

اُن کے چہروں پر خوف بھی تھا، خفگی بھی، پریشانی بھی تھی اور حیرانی بھی ۔۔۔ نہیں تھی تو بس پشیمانی۔ ہر کسی کے لبوں پر بس ایک ہی سوال تھا۔ ہمیں اس قطار میں کیوں لگا دیا گیا ہے؟

کوئی اپنی نمازوں کے قصّے گا رہا تھا تو کسی کو اپنی پاک دامنی کا مان تھا۔ کسی کے پاس بڑے بڑے اللہ والوں کی سفارشیں تھیں تو کوئی خدا کے نام پہ دی ہوئی قربانیاں یاد دلا رہا تھا۔ لیکن پھر بھی اُن کی باتوں پر کان نہ دھرے جا رہے تھے۔ نا ہی ان کی باتوں کو کوئی اہمیت دینے والا نظر آرہا تھا۔

وہ سب آپس میں ایک دوسرے سے گِلے شکووں میں مصروف تھے کہ اعلانِ عام کی آواز آئی۔ اعلان کرنے والے کا لہجہ انتہائی سخت تھا۔ اُس کے لفظ کسی تلوار کی تیز دھار سے کم نہیں لگ رہے تھے جو قطار میں لگے تمام افراد کے دل جگر کو چیرتے ہوئے گزر رہے تھے۔

وہ سب مایوسی کے ایک ایسے جال میں پھنستے جارہے تھے جس سے نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن معلوم ہورہا تھا اور گرفت وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتی جارہی تھی۔ اُن لوگوں کے حلق موسم کے ساتھ ساتھ خشک ہوتے جارہے تھے۔ ان کا بس نہ چلتا کہ قطار توڑ کر بھاگ نکتے لیکن کوئی رستہ نہیں مل رہا تھا۔

ان کے پاؤں میں جیسے زنجیریں باندھ دی گئیں تھیں۔ وہ نا چاہتے ہوئے بھی سرک سرک کر آگے بڑھتے جارہے تھے۔ وہ دھیمی آواز میں خود کو لعنتیں بھیجنے لگے تھے۔ اُن کی زبانوں نے ان کا ساتھ دینا چھوڑ دیا تھا۔ آخر کار ایک دراز قامد شخصیت نمودار ہوئی۔ سوالیوں نے روتے ہوئے لزرتی آوازوں میں دریافت کیا۔

جناب ہمیں کیوں ذلیل و خوار کیا جا رہا ہے؟ ہمارا قصور تو بتایا جائے!

دوسری جانب سے بھاری آواز میں خطاب ہوا؛

یہ انسانیت کا کاؤنٹر ہے۔ جنت میں جانے کے لئے یہاں سے این او سی لینا لازمی ہے! سب اپنی باری کا انتظار کریں اور اعمال نامے دکھا کر این او سی حاصل کریں۔ جس کو این او سی نہیں ملے گا وہ جنت میں داخل ہونے کا ہرگز اہل نہیں ہوگا!

قطار میں لگے اکثر لوگ کاؤنٹر پہ کھڑے شخص سے بھیک مانگے لگے۔ چند ایک بڑے بڑوں کی سفارشیں لگانے لگے۔ لیکن این او سی لے جانے والوں کی تعداد کے لئے آٹے میں نمک کے برابر والی مثال بھی صادق نہیں آرہی تھی۔

یہ وہ آخری کاؤنٹر تھا۔ جہاں سے گزرجانا بے حسوں کے بس کی بات نا تھی!


لکھاری ڈان نیوز ٹی وی کے ہیڈ آف کرنٹ آفیئرز ہیں

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Imran Ahmad Jun 18, 2014 08:35am
حقوق العباد کا مضمون ہے، بہت عمدہ۔