اسلام آباد : ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے مطالبہ کیا ہے کہ دفاتر میں ہراساں کئے جانے کو ایک جرم سمجھ کر اس مسئلے سے نمٹا جانا چاہئے۔

یہ مطالبہ ہفتے کے روز اسلام آباد میں ایچ آر سی پی کے ڈائریکٹر آئی اے رحمان نے 'جنسی ہراساں کئے جانے کے قانون اور اس کے اطلاق' کے موضوع پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انھوں نے کہا کہ افراد کے وقار کا خیال رکھنے کے حوالے سے اقدامات کئے جانے چاہئے اور دفاتر میں ہراساں کیے جانے کے قانون کو مزید موثر بنایا جانا چاہئے۔

انھوں نے کہا کہ اگر ابھی کوئی ڈاکٹر کسی مریض کو تنگ کرے تو اس پر قانون کا اطلاق نہیں ہوتا جس کی وجہ یہ ہے کہ اسے مالکان اور ملازمین کے درمیان محدود رکھا گیا ہے۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اس موقع پر کہا کہ انھوں نے پارلیمنٹ میں 2010ءکے دفاتر میں ہرساں کئے جانے کے قانون میں ترامیم کے لیے ایک بل جمع کرایا ہے جس کا متعلقہ قائمہ کمیٹی میں جائزہ لیا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں اور این جی اوز سے تجاویز لی جارہی ہیں اور ہسپتالوں، اداروں اور تنظیموں کو بھی ترمیمی قانون کے دائرے میں لانے پر غور کیا جارہا ہے۔

قانونی ماہر بابر ستار کا تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جنسی طور پر ہراساں کئے جانے کے حوالے سے قانون پڑوسی ملک ہندوستان میں 2013ءمیں لاگو کئے گئے ایکٹ کے مقابلے میں کافی کمزور ہے۔

انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں 2010ءمیں نافذ کئے گئے قانون میں گھروں اور دیگر مقامات کے حوالے سے موثر حکمت عملی مرتب نہیں کی گئی، اس جرم کو زیادہ اہمیت بھی نہیں دی گئی اور کسی شخص کے مجرم ثابت ہونے کی صورت میں اسے زیادہ سے زیادہ بس ملازمت سے فارغ کرنے کی ہی سزا دی جاسکتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ مشتبہ شخص کے خلاف ایف آئی آر درج کی جانی چاہئے۔

بابر ستار نے مزید کہا کہ ہراساں کئے جانے کے لیے مختلف دفاتر میں قائم کمیٹیوں میں ان کمپنیوں کا صرف ایک نمائندہ ہونا چاہئے، جبکہ دیگر غیر جانبدار افراد کو لیا جانا چاہئے۔

ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے اویس احمد نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں ہراساں کئے جانے کے واقعات کی تحقیقات کے لیے کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں۔

ان کے مطابق اگر شکایت کنندہ کمیٹی کے فیصلے سے مطمئن نہ ہو تو وہ ایچ ای سی میں شکایت درج کراسکتے ہیں۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی رضاکار بشری خالق نے کہا کہ اس حوالے سے قانون تو سادہ ہے مگر کوئی بھی اس کے نفاذ کے لیے تیار نہیں۔

سول سوسائٹی کے کارکن پروفیسر فرخندہ اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ایسے کچھ واقعات بھی سامنے آئے ہیں کہ طالبعلموں کی جانب سے اپنے اساتذہ کو ہراساں کئے جانے کا الزام لگانے کی دھمکی دیکر بلیک میل کیا جارہا ہے۔


قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے معاملے پر غور


تقریب کے شرکاءنے قائداعظم یونیورسٹی (کیو اے یو)کے ایک عہدیدار کو ایک طالبہ کو ہراساں کئے جانے پر یونیورسٹی سینیڈیکٹ کی جانب سے زبردستی ریٹائر کرنے کے معاملے پر بھی غور کیا گیا۔

اس عہدیدار کی اپیل محتسب اعلیٰ نے مسترد کردی تھی مگر پھر صدر پاکستان نے اسے وزارت قانون و انصاف سے قانونی رائے لینے کے بعد عہدے پر بحال کردیا۔

قائداعظم یونیورسٹی کے سینیڈیکٹ میں شامل سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ کیو اے یو کے عہدیدار کو جبری ریٹائرمنٹ پر بھیجا گیا تھا، جس پر اس نے ابتدائی طور پر محتسب کے دفتر میں اپیل جمع کرائی جسے مسترد کردیا گیا۔

انھوں نے مزید کہا کہ اس کے بعد مذکورہ عہدیدار نے صدر آصف علی زرداری کے پاس اپیل جمع کرائی، جنھوں نے وزارت قانون سے رائے لی۔

'وزارت قانون نے رائے دی کہ 2010ءکے قانون کا اطلاق تعلیمی اداروں کے طالبعلموں پر نہیں ہوتا کیونکہ یہ آجر اور ملازمین کے معاملات کو ہی دیکھتا ہے۔'

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اس واقعے کے بعد ہی انھوں نے پارلیمان میں ترمیمی بل جمع کرایا جس میں اس قانون میں تعلیمی اداروں کو شامل کرنے کی بھی تجویز شامل ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

راضیہ سید Jun 30, 2014 10:45am
کسی بھی مجرم کو سزا دلانے اور قانون کی حاکمیت کے لئے یہ ضروری ہے کہ مخلتف جرائم کا تعین اور ان سے متعلق سزا تجویز کی جائے ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دفاتر میں ہم سب کام کرتے ہیں ، تعلیمی ادادروں میں بھی تعلیم حاصل کرتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہٰیں کہ یہاں کام کرنے والی خواتین کا بھی کوئی احترام ہے ، سب تو نہیں لیکن اکثر مقامات پر ذومعنی باتیں اور جملے کسنا مرد حضرات کا مشغلہ بن چکا ہے کیونکہ وہ ان کی بہو بیٹی یا بیوی تو نہیں وہ تو ایک اوپن ٹارگٹ ہے ، اور کچھ نہ ہو تو الٹے سیدھے پیغامات موبائل پر آتے رہتے ہیں کیونکہ دفتر میں رہ کر موبائل نمر حاصل کرنا مشکل نہیں ، یہ بھی نہیں کہ سب مرد حضرات ہی ایسے ہیں کئی دفاتر میں مردوں کو مردوں اور خواتین سے ہراساں کیا جانے کا مسٗلہ بھی درپیش ہے لیکن ہمارے ہاں کا المیہ یہ ہے کہ ہراساں ہونے والے افراد خوف زدہ ہوجاتے ہیں ، اور بسا اوقات شرمندگی کی وجہ سے بھی افسران بالا کو باخبر نہیں کرتے ۔۔۔اب اس سلسلے میں اگر قانون بن بھی جائیں تو میرے خیال میں تب تک بے کار ہے جب تک عمل درآمد نہیں ہوتا ۔ دفاتر میں لیبر کورٹس کے تحت قوانین بنائے جائیں ایک ہفتہ وار میٹنگ ہو جس میں ایسے افراد کے نام منظر عام پر لائے جائیں اسی طرح نادرہ ایسے افراد کی سمز پر نظر رکھے اور انھیں وارننگ دیکر بند کروایا جائے تمام افراد کے لیے تربیتی سیشنز ہوں کہ کام کے ماحول کو بہتر بنانا ہے اور احترام آدمیت کا خالی درس نہیں دینا عمل بھی کرنا ہے ۔
shazaib Jun 30, 2014 03:16pm
shazaib gouri ya kam theak nahi ha