انقلابی مجبوری؟

11 اگست 2014
نواز کو چیلنج کرکے عمران خود کو وزیراعظم کی سطح تک لے آئے ہیں اور وزیراعظم ضرورت مند نظر آنے لگے ہیں۔
نواز کو چیلنج کرکے عمران خود کو وزیراعظم کی سطح تک لے آئے ہیں اور وزیراعظم ضرورت مند نظر آنے لگے ہیں۔

اگر پاکستان تحریک انصاف نے 'آزادی' مارچ کے بارے میں اپنی منطق پر پوری طرح غور کیا ہے تو آخر یہ منطق اس کی سیاست کے ارتقاء کے بارے میں کیا کہتی ہے؟ متعدد پاکستانی اس تبدیلی میں دلچسپی رکھتے ہیں جو مالی طور پر پاک شخص کی قیادت میں پی ٹی آئی چاہتی ہے۔

عوام میں یہ توقع پائی جاتی ہے کہ پی ٹی آئی مرکزی سیاست میں کامیابی کے ساتھ نئے اصول سیاست متعارف کراپائے گی، جس میں اداروں اور پالیسی اصلاحات کے مضبوط پروگرامز شامل ہوں گے، جن کے ذریعے موجودہ سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر اصلاحات پر مجبور کیا جائے گا۔

کیا پی ٹی آئی مصالحت کی سیاست میں ماسٹر ہوگئی ہے جس کی مشق دیگر کرتے ہیں اور خود کو تازہ اصلاحات کی فضاءسے باہر نکالنے والی ہے؟ کیا اس کے مقاصد تبدیل ہوگئے ہیں؟ کیا وہ بھی موجودہ جماعتوں جیسا بننا چاہتی ہے مگر بہتر طریقے سے دھوکہ دے رہی ہے؟ کیا عمران خان کی سیاست کا بنیادی مقصد اپنے دیگر ہم منصوبوں کی طرح طاقت کا حصول رہ گیا ہے؟ کیا پی ٹی آئی روایتی سیاسی اداکاروں کا حصہ بن گئی ہے اور اصول اس کی ڈکشنری سے خارج ہوگئے ہیں؟

اس شاطرانہ یا میکاولی دنیا میں پی ٹی آئی کا مارچ احمقانہ لگتا ہے، جو موقع پرستی کے ساتھ جمہوریت کے ارتقاءاور بامقصد اصلاحات کو متاثر کرنے کے ساتھ اداروں اور امن و امان کی صورتحال کے لیے خطرناک ہے، مگر یہ اتنا بھی سمجھ سے بالاتر نہیں۔

درحقیقت عمران خان کی صاف گو شخصیت اور مارچ کا مقصد (نواز شریف کو ہٹانا اور وسط مدتی انتخابات) احمقانہ لگتے ہیں، مگر جب سیاست کا واحد مقصد طاقت کا حصول ہو تو کیا پی ٹی آئی دو رخی سیاست کو اپنا نہیں سکتی؟

ایسا ہے یا نہیں مگر عمران خان کا یہ ضرور ماننا ہے کہ 2013ءمیں عوام نے انہیں وزیراعظم بننے کے لیے ووٹ دیا، ہوسکتا ہے کہ وہ جلد یا بدیر وزیراعظم بن جائیں اور پاکستان جیسے ملک میں جہاں سیاست میں کبھی بھی کچھ ہوسکتا ہے(جیسے پی ٹی آئی کا مارچ)، وہاں سیدھا کھیلنا اور اپنے مخالفین کو اپنی ٹوپیوں سے پیچیدہ طریقوں کو نکالنے کا موقع کیوں فراہم کیا جائے؟

کافی وقت تک عمران خان چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کا مطالبہ کرتے رہے جس پر نواز شریف نے کسی قسم کی سنجیدگی نہیں دکھائی، اب عمران نے نواز کے سر کا مطالبہ کیا تو وزیراعظم فوری طور پر موجودہ طوفانی موسم کو قابو میں لانے کے لیے پرانے مطالبے پر تیار ہوگئے، اور اگر دوبارہ گنتی یا ووٹنگ پر نواز لیگ چار حلقوں میں کامیاب نہ ہوسکی(جو کہ ان کے مینڈیٹ کے لیے حقیقی ٹیسٹ بھی ہوگا) تو وسط مدنی انتخابات اگلا منطقی اقدام ہوگا۔

یہاں تک کہ اگر ان چار حلقوں میں دوبارہ گنتی یا پولنگ میں پی ٹی آئی ناکام بھی رہی تو کیا اسے واقعی کسی قسم کی شکست ہوگی؟ اور وہ اس سے کیا حاصل کرے گی؟ پنجاب میں ایک سال کے دوران جہاں اس کی کارکردگی عام انتخابات میں زیادہ بہتر نہیں رہی، یہ جماعت دوبارہ منظم ہوئی ہے اور حکمران پارٹی کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے اور وزیراعظم بننے کے لیے عمران کی حیثیت مضبوط ہوئی ہے۔

وہ لوگ جو تمام پارلیمانی جماعتوں کو اس معاملے پر نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہونے یا عمران کو غلط قرار دینے کا اصرار کرتے ہیں، انہیں جاننا چاہئے کہ نواز پہلے ہی وزیراعظم ہیں اور انہیں اس لڑائی سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا، جبکہ عمران خان کچھ کھونے والے نہیں۔

نواز کو چیلنج کرکے عمران خود کو وزیراعظم کی سطح تک لے آئے ہیں اور دیگر پارٹی سربراہان کی جانب سے نواز کی مدد کے لیے آگے آنے سے وزیراعظم ضرورت مند نظر آنے لگے ہیں۔

ن لیگ اور نواز کے متبادل کے طور پر ذہن میں سب سے پہلے کس شخص کا خیال آتا ہے؟ وہ پیپلزپارٹی یا زرداری نہیں، بلکہ پی ٹی آئی اور عمران ہیں، یہ خیال عوامی ذہن میں پختہ ہوچکا ہے کہ پنجاب میں اگلا سیاسی معرکہ پی ایم ایل این اور پی ٹی آئی کے درمیان ہی ہوگا۔

پی ٹی آئی کے اقدام کے وقت سے کیا اندازہ ہوتا ہے؟ ہوسکتا ہے طاہر القادری انتقام لینے کے لیے واپس آجائیں، کیا عمران اس بات کی متحمل ہوسکتے ہیں کہ طاہر القادری ان کی تحریک کو چرا لے اور پنجاب میں تبدیلی کا چہرہ بن کر ابھریں؟ دوسرا کیا واقعی پیپلزپارٹی منظر سے غائب ہوچکی ہے، اگر پنجاب میں جلد انتخابات ہوجاتے ہیں تو دیہی پنجاب میں کیا نواز لیگ کا اصل مقابلہ پی پی پی کی بجائے پی ٹی آئی سے ہوگا، ایک یا دو برسوں میں عوامی ذہنوں سے وہ غلطیاں اور اسکینڈلز نکل جائیں گے جو پیپلزپارٹی حکومت کی بدنامی کا باعث بنے، جس کے بعد یہ جماعت پنجاب میں واپس آکر انتخابات کو تین جماعتوں کا مقابلہ بناسکتی ہے۔

تیسری چیز یہ ہے کہ اگر نواز لیگ دہشت گردی کو محدود کرنے میں کامیاب ہوگئی(خاکی وردی کی بدولت)، معیشت بدستور آگے بڑھے(نجکاری اور غیرملکی امداد کی مدد سے) اور توانائی کا بحران بڑی حد تک حل ہوجائے؟ تو کیا اس کے بعد ن لیگ کو اپنا دور حکومت مکمل طور پر گزارنے کا موقع فراہم کرنا سیاسی حماقت نہیں ہوگا؟ چوتھا پوائنٹ ی ہے کہ اگر پی ٹی آئی دونکاتی منصوبہ بنائے جس میں نواز کی فوری روانگی کا مقصد شامل نہ ہو یعنی پہلے مرحلے پر وزیراعظم کو چار حلقوں میں دوبارہ گنتی یا پولنگ پر مجبور کیا جائے اور دوسرے مرحلے پر ان کے اخراج کا اسٹیج تیار کیا جائے۔

عقلمند سیاست ایک چیز ہے اور اصولی سیاست الگ معاملہ ہے، پی ٹی آئی کا ماننا ہے کہ 2013ءکے انتخابات میں اس کا مینڈیٹ چرا لیا گیا، یہ خیال اس وقت تک پختہ رہے گا جب کہ مبینہ حقائق کی تصدیق تیسرے غیرجانبدار فریق سے نہیں کرالی جاتی۔

پی ٹی آئی کے الزامات کو حقیقی یا سچ میں تبدیل کرنے کے لیے ایک منصف جیسے عدلیہ کی مداخلت درکار ہوگی، اگر آپ اپنی پسند کے فیصلوں کی تکمیل کے لیے منتخب ہو اور آپ کسی ایک کو پسند نہ کرتے ہو یا آپ اسے برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہو تو اس رویے کو غیرقانونی بھی کہا جاسکتا ہے۔

اگر آپ عقیدے کی اسکروٹنی اور آپ کے خلاف سازش پر واضح تنقید کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تو آپ عدم تحمل، دکھاوے اور ذہنی خلل یا تینوں کے شکار ہیں، کیا پی ٹی آئی کے لیے آئین مقدس حیثیت رکھتا ہے؟ جو قانونی احتساب اور سیاسی تبدیلی کا میکنزم فراہم کرتا ہے۔

کیا پی ٹی آئی آئین کے اندر رہتے ہوئے کام کرنے کا دعویٰ کرسکتی ہے جب وہ حکومت کو عوامی طاقت سے تبدیل کرنے پر اصرار کرتی ہے جبکہ اسے پہلے قانونی طریقے کو آزمانا چاہئے تھا کیا وہ کام نہیں کررہا؟

پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ وہ سیاست میں خرابیوں کو نکال پھینکے گی اور اسے حقیقی جمہوریت سے تبدیل کرکے ملک میں میرے عزیز ہم وطنوں کی تقاریر کا خاتمہ کردے گی، یہ ریکارڈ کا حصہ ہے کہ آمر، ججز یا سیاستدانوں نے ہمارے ملک کے لیے کچھ اچھا نہیں کیا۔

پی ٹی آئی نظام کے اندر رہتے ہوئے پاکستان میں سنجیدہ اصلاحات لاسکتی ہے اور کوئی بھی اپنے ہاتھ اوپر کرکے یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ اس کا انجام بھی روایتی ہی ہوگا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

اکمل سومرو Aug 13, 2014 01:01am
بابر ستار صاحب: احتجاجی سیاست کو اقتدار کی جنگ کہا جائے یا پھر حکومت اُلٹنے کی سیاست ایک بات طے ہے کہ جمہوری جدوجہد کے نام پر جو بھی تحریکیں برپا ہوتی رہی ہیں اس سے چند خاندانوں کو ہی تحفظ ملا ہے. تحریک انصاف کے پاس اس وقت کوئی واضع نظریہ نہیں ہے اور مسلم لیگ ن کے پاس کوئی واضع نصب العین نہیں جس کا تعلق قومی ترقی سے ہو. حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے پاس کوئی واضع معاشی نظام موجود نہیں ہے. نجکاری کے ذریعے سے نواز شریف سارا پیسہ سرمایہ داروں کی گود میں جمع کرنا چاہتا ہے اور قوم کو ان سرمایہ داروں کا غلام بنانے کا خواہش مند ہے. چاہے ان کا تعلق خود انکے اپنے خاندان سے ہو یا پھر دیگر خاندانوں سے. عمران خان اُنہی نعروں کی بنیاد پر سیاست کر رہے ہیں جو نعرے مسلم لیگ ن نے لگائے تھے. موجودہ سیاسی صورتحال میں مذہب کا ٹچ دینے کے لیے طاہر القادری کو بھی میدان میں چھوڑا گیا ہے. تاکہ انقلاب بھی بدنام کراو اور نوجوانوں کو بددل بھی کرو. میرے عزیز ہم وطنوں کا سلسلہ صرف اُسی وقت رک سکتا ہے جب غدار اور کرپٹ سیاست کا گلہ گھونٹ دیا جائے. تحریک انصاف یہ سب کُچھ اسی لیے کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی کہ نظام سیاست، نظام معیشت کو چلانے کے لیے انکے پاس نظریہ نہیں ہے. اور ایک بات جو انتہائی خطرناک ہے کہ نواز شریف اس وقت دوغلی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، وہ فوج کو براہ راست پھنسانے کی کوشش میں ہیں کہ ملک میں ہنگامی صورتحال کو پیدا کر دیا جائے اور فوج اگر ٹیک اوور کرتی ہے تو پھر فوج کے خلاف محاذ کھڑا کر کے مشرف کا بدلہ بھی لے لیا جائے. رہی بات تحریک انصاف کی تو اس پارٹی نے اپنے طرز سیاست کی وجہ سے اُن نوجوانوں میں مقبولیت حاصل
اکمل سومرو Aug 13, 2014 01:03am
بابر ستار صاحب: احتجاجی سیاست کو اقتدار کی جنگ کہا جائے یا پھر حکومت اُلٹنے کی سیاست ایک بات طے ہے کہ جمہوری جدوجہد کے نام پر جو بھی تحریکیں برپا ہوتی رہی ہیں اس سے چند خاندانوں کو ہی تحفظ ملا ہے. تحریک انصاف کے پاس اس وقت کوئی واضع نظریہ نہیں ہے اور مسلم لیگ ن کے پاس کوئی واضع نصب العین نہیں جس کا تعلق قومی ترقی سے ہو. حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے پاس کوئی واضع معاشی نظام موجود نہیں ہے. نجکاری کے ذریعے سے نواز شریف سارا پیسہ سرمایہ داروں کی گود میں جمع کرنا چاہتا ہے اور قوم کو ان سرمایہ داروں کا غلام بنانے کا خواہش مند ہے. چاہے ان کا تعلق خود انکے اپنے خاندان سے ہو یا پھر دیگر خاندانوں سے. عمران خان اُنہی نعروں کی بنیاد پر سیاست کر رہے ہیں جو نعرے مسلم لیگ ن نے لگائے تھے. موجودہ سیاسی صورتحال میں مذہب کا ٹچ دینے کے لیے طاہر القادری کو بھی میدان میں چھوڑا گیا ہے. تاکہ انقلاب بھی بدنام کراو اور نوجوانوں کو بددل بھی کرو. میرے عزیز ہم وطنوں کا سلسلہ صرف اُسی وقت رک سکتا ہے جب غدار اور کرپٹ سیاست کا گلہ گھونٹ دیا جائے. تحریک انصاف یہ سب کُچھ اسی لیے کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی کہ نظام سیاست، نظام معیشت کو چلانے کے لیے انکے پاس نظریہ نہیں ہے. اور ایک بات جو انتہائی خطرناک ہے کہ نواز شریف اس وقت دوغلی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، وہ فوج کو براہ راست پھنسانے کی کوشش میں ہیں کہ ملک میں ہنگامی صورتحال کو پیدا کر دیا جائے اور فوج اگر ٹیک اوور کرتی ہے تو پھر فوج کے خلاف محاذ کھڑا کر کے مشرف کا بدلہ بھی لے لیا جائے. رہی بات تحریک انصاف کی تو اس پارٹی نے اپنے طرز سیاست کی وجہ سے اُن نوجوانوں میں مقبولیت حاصل