قائد اعظم کے نام کھلا خط

11 اگست 2014
کسی کی بھی بات مان لینے سے بہتر یہ ہے کہ خود آپ سے ہی پوچھ لیا جائے کہ آخر آپ کس طرح کی ریاست بنانا چاہتے تھے؟ — السٹریشن -- خدا بخش ابڑو
کسی کی بھی بات مان لینے سے بہتر یہ ہے کہ خود آپ سے ہی پوچھ لیا جائے کہ آخر آپ کس طرح کی ریاست بنانا چاہتے تھے؟ — السٹریشن -- خدا بخش ابڑو

عزت مآب،

میں اسی ملک کا باشندہ ہوں، جس کی بنیاد آپ نے 67 سال پہلے رکھی تھی۔

میں اس بات کو سمجھ سکتا ہوں کہ آپ یہ دیکھنے کے لیے زندہ نہ رہے، کہ آپ کے خواب نے آپ کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد کیا صورت اختیار کی۔

67 سال ایک بہت لمبا عرصہ ہے، آج کی نوجوان نسل ان لوگوں کی تیسری نسل ہے جو آپ کے جلسوں میں شریک ہوتے تھے، اور جنہوں نے تخلیق پاکستان کی تحریک میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

تب سے لے کر اب تک بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے، اور میرے پاس اپ سے کہنے کے لیے بہت کچھ ہے، پر میں آپ سے صرف ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔

آپ کس طرح کا ملک تخلیق کرنا چاہتے تھے؟


یہ معصومانہ سوال ہے، پر سر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں ہر صبح اس سوال کا سامنا کرتا ہوں۔ یہ سوال مجھے بہت الجھن میں رکھے ہوئے ہے، اور مجھے یقین ہے کہ میرے بہت سارے ساتھ ہموطن بھی اس الجھن کا شکار ہوں گے۔

سر، مجھےسمجھانے کا موقع دیجئے۔

میں نے ایک سرکاری اسکول میں تعلیم حاصل کی ہے، اور میں نے مطالعہ پاکستان کے اپنے تمام اسباق بخوبی یاد کیے تھے۔ میں نے یہی سیکھا تھا کہ اس ملک کو اسلام کے نام پر اس لیے تخلیق کیا گیا تھا، کیونکہ برصغیر کے مسلمان ہندوؤں اور دیگر غیر مسلموں کے ساتھ نہیں رہ سکتے تھے۔ وہ اسلامی اصولوں پر ایک نئی مملکت تخلیق کرنا چاہتے تھے۔ میں آپ کی مختلف تقاریر سے آپ کے کئی جملے اس بات کی تصدیق کے لیے پیش کر سکتا ہوں۔ میرے بہت سارے دوست بھی اس بات کو سچ سمجھتے ہیں۔

مسلمانوں کے لیے ایک ملک کی تخلیق کا مطلب یہ تھا، کہ غیر مسلم معاشرے اور ریاست کے امور میں کسی اہم کردار کے حامل نہیں ہوں گے، یا ان کا کردار غیر اہم ہو گا۔

سر، بالکل ایسا ہی ہوا ہے۔

ہم اس پاک سرزمین سے ہندوؤں اور سکھوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ اقلیتوں کا مسئلہ جسے آپ نے اتنی جانفشانی سے اٹھایا، اسے ہم نے حل کر دیا ہے۔ ہاں سندھ میں کچھ اکڑ والے لوگ ہیں جو اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑنے پر تیار نہیں، پر آپ یقین رکھیں کے بہت سارے محبان وطن اس مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں اور اس حوالے سے ہر روز نئی شہ سرخیاں اخباروں کی زینت بنتی ہیں۔

خیبر پختونخواہ اور پنجاب میں صرف مٹھی بھر سکھ بچے ہیں، اور وہ بھی قریب قریب مغلوب ہو چکے ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی تو پشاور میں ایک سکھ لڑکا جو نظریہ پاکستان کے لیے ایک بڑا خطرہ تھا، سے نمٹ لیا گیا ہے۔ اسی طرح ہم نے گوجرانوالہ میں کچھ ہفتے پہلے ہی ایک احمدی عورت کو اس کی دو پوتیوں سمیت ترقی کی راہ میں حائل ہونے کی وجہ سے راستے سے ہٹا دیا ہے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ احمدی حضرات کیسے اس اسلامی ریاست کے لیے خطرہ بن گئے، جبکہ آپ کے تو ان سے اچھے روابط تھے، یہاں تک کہ ایک کو تو آپ نے وزیر خارجہ بھی تعینات کیا تھا۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ بات ہمیں 1974 میں معلوم ہوئی کہ احمدی نہ صرف غیر مسلم ہیں، بلکہ وہ اس ملک کی نظریاتی بنیادوں کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ ہیں۔ پھر اس کے بعد آنے والی سب حکومتوں نے اس خطرے سے نمٹنے کے لیے مناسب اقدامات کیے ہیں، اور اب تو پورا معاشرہ ہی رضاکارانہ طور پر اس کام کے لیے اٹھ کھڑا ہوا ہے۔

ارے ہاں، عیسائی۔ آپ کچھ اینگلو-انڈینز کو جانتے ہوں گے جو اس مذہب پر کاربند تھے۔ لیکن پاکستان میں اب ان کی اکثریت دلت کا درجہ رکھتی ہے، جنہوں نے گرجوں میں پناہ لے رکھی ہے۔ وہ اب کم درجے کی ملازمتوں تک محدود ہیں، اور ہم نے اس بات کو بھی یقینی بنا دیا ہے، کہ وہ کبھی بھی معاشرے کے اونچے طبقے میں اپنی جگہ نہ بنا سکیں۔ اس کام کے لیے بہت سارے قوانین اور سماجی رکاوٹیں ہیں، تاکہ وہ کسی اونچے مقام کا تصوّر بھی نہ کر سکیں۔

یہ تمام کامیابیاں میرے بہت سارے ہموطنوں کو بہت خوش کرتی ہیں، کیونکہ پاکستان اسی مقصد کے لیے تو بنا تھا۔

اگرچہ کے ایجنڈے میں اب بھی بہت سارے کام رہتے ہیں جنہیں مکمّل کرنا باقی ہے، جیسے دوسرے فرقوں کو خالص مسلم بنانا وغیرہ، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ کام بھی جلدی ہی ہوجائے گا۔

لیکن پھر میں 11 اگست 1947 کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے آپ کا افتتاحی خطاب پڑھتا ہوں، بھلے ہی وہ میرے مطالعہ پاکستان کے کورس کا حصّہ نہیں تھا۔

مجھے یقین ہے کہ آپ کو یہ خطاب اچھی طرح یاد ہوگا، کیونکہ اسے پاکستان کے آئین کی بنیاد ہونا تھا۔

سر، آپ کا یہی خطاب میری کنفیوژن کا بنیادی سبب ہے۔

آپ نے کتنے صاف الفاظ میں کہا ہے، کہ ریاست پاکستان کا اپنے شہریوں کے مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہوگا۔ کیا آپ واقعی ایسا سمجھتے تھے، کہ مذہب کے نام پر تخلیق کیے جانے والے ملک میں ایسا ممکن ہو سکتا تھا؟

کیا ایسی ریاست کے لیے اپنے شہریوں کے عقائد پر نظر رکھنا ایک فطری عمل نہیں ہے؟

میرے کچھ مغرب زدہ دوست ہیں، جو یہ سمجھتے ہیں کہ آپ ملک کی بنیاد مذہب پر نہیں رکھنا چاہے تھے، لیکن دوسرے لوگوں کے پاس مضبوط دلائل ہیں، یہ ثابت کرنے کے لیے کہ جب پوری تحریک ہی مذہبی جذبے کے تحت چلائی گئی تھی، تو اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے ملک کو بھی مذہبی ہی ہونا تھا۔

کچھ لوگ کہتے ہیں، کہ آپ کا 11 اگست کا خطاب جعلی تھا، یا کچھ بیرونی طاقتوں کو خوش کرنے کے لیے تھا۔ لیکن میں آپ کو ایک سچے، ایماندار، اصولوں کے پابند، اور اچھے کردار کے مالک شخص کے طور پر جانتا ہوں، میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ ایک نئے ملک کی پارلیمنٹ کے پہلے اجلاس سے خطاب کے تاریخی موقع پر آپ ایسا کر سکتے ہیں۔

اس لیے سر، میں نے دونوں فریقوں میں سے کسی کی بھی بات مان لینے سے بہتر یہ سمجھا، کہ یہ سوال خود آپ سے ہی پوچھ لیا جائے۔ "آخر آپ کس طرح کی ریاست بنانا چاہتے تھے؟"

کیا میں آپ کی 11 اگست والی تقریر کو اس ریاست کا حقیقی مقصد سمجھوں، یا پاکستان کی اب تک اس محاذ پر حاصل کی جانے والی کامیابیوں کی خوشی مناؤں؟

فقط آپ کا خیر خواہ

طاہر مہدی

11 اگست 2014


پاکستان میں ہر سال 11 اگست کو اقلیتوں کا قومی دن منایا جاتا ہے۔


طاہر مہدی جمہوریت اور گورننس پر ریسرچ کرنے والے گروپ پنجاب لوک سجاگ کے ساتھ کام کرتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (8) بند ہیں

اکمل سومرو Aug 11, 2014 11:43pm
ہماری بدقسمتی نہیں تھی، ہماری قوم کی قسمت برطانوی سامراج نے لکھی اور اسکی تشریح علی جناح سے کرائی گئی. علی جناح کی جیب میں کھوٹے سکے تھے اور انہی کھوٹے سکوں نے اس ملک پر مسلط ہوکر عالمی سامراج کے ہاتھوں ہماری نام نہاد آزادی کو غلامی کا اچکن پہنایا. ابوالکلام آزاد نے1942ء میں کہا تھا کہ ہندستان میں آباد میں دس لاکھ مسلمانوں کو اقلیت قرار دینا اور ان کے لیے اقلیتی حقوق اور اقلیتی علیحدگی کا مطالبہ کرنا نہ صرف بزدلی ہے بلکہ ان کے شاندار مستقبل کے لیے تباہ کن ہے" علی جناح کی کاوشوں سے اس خطے کی عوام برطانوی غلامی سے نکل کر امریکی غلامی میں چلی گئی. مذہب کے نام پر برطانیہ نے ہندستان میں بیج بوئے اور مسٹر جناح نے ان بیجوں کو پانی دیکر تناور درخت بنایا. یہ کیسی مذہبی ریاست تھی جس میں اسلامی شرعی قوانین کو مرتب کرنے کے لیے مسٹر جناح نے جوگندر منڈل ناتھ کو وزیر قانون بنا کر یہ ذمہ داری سونپ دی. مسٹر جناح اور مسلم لیگ نے مسلمانوں کو مذہب کے نام پر استعمال کر کے برطانوی سرکار کی خواہشات کو نہ صرف پورا کیا بلکہ اس خطے میں نہ ختم ہونے والی نفرت کے پہاڑ کھڑے کر دیے. مسٹرجناح جو خود نہ مشرقی لباس پسند کرتے تھے، نہ ہندستانی ثقافت اور نہ ہی ہندستانی زبان کو جانتے تھے لیکن وہ اپنی انا کی تسکین کے لیے ہندستان کے مسلمانوں کی تباہی و بربادی کر نے کو اپنا فرض منصبی سمجھتے رہے. دو قومی نظریےتو صرف پچیس برس بعد ہی سمندر بُرد ہوگیا تھا تاہم اس نظریے نے مسلمانوں میں فرقہ واریت اور غیر مسلموں سے عقیدے کی بنیاد پر پاکستان میں ہی لکیریں کھینچنا شروع کر دیں. مسٹر جناح کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ جس نظریے کی بنیا
اکمل سومرو Aug 11, 2014 11:42pm
ہماری بدقسمتی نہیں تھی، ہماری قوم کی قسمت برطانوی سامراج نے لکھی اور اسکی تشریح علی جناح سے کرائی گئی. علی جناح کی جیب میں کھوٹے سکے تھے اور انہی کھوٹے سکوں نے اس ملک پر مسلط ہوکر عالمی سامراج کے ہاتھوں ہماری نام نہاد آزادی کو غلامی کا اچکن پہنایا. ابوالکلام آزاد نے1942ء میں کہا تھا کہ ہندستان میں آباد میں دس لاکھ مسلمانوں کو اقلیت قرار دینا اور ان کے لیے اقلیتی حقوق اور اقلیتی علیحدگی کا مطالبہ کرنا نہ صرف بزدلی ہے بلکہ ان کے شاندار مستقبل کے لیے تباہ کن ہے" علی جناح کی کاوشوں سے اس خطے کی عوام برطانوی غلامی سے نکل کر امریکی غلامی میں چلی گئی. مذہب کے نام پر برطانیہ نے ہندستان میں بیج بوئے اور مسٹر جناح نے ان بیجوں کو پانی دیکر تناور درخت بنایا. یہ کیسی مذہبی ریاست تھی جس میں اسلامی شرعی قوانین کو مرتب کرنے کے لیے مسٹر جناح نے جوگندر منڈل ناتھ کو وزیر قانون بنا کر یہ ذمہ داری سونپ دی. مسٹر جناح اور مسلم لیگ نے مسلمانوں کو مذہب کے نام پر استعمال کر کے برطانوی سرکار کی خواہشات کو نہ صرف پورا کیا بلکہ اس خطے میں نہ ختم ہونے والی نفرت کے پہاڑ کھڑے کر دیے. مسٹرجناح جو خود نہ مشرقی لباس پسند کرتے تھے، نہ ہندستانی ثقافت اور نہ ہی ہندستانی زبان کو جانتے تھے لیکن وہ اپنی انا کی تسکین کے لیے ہندستان کے مسلمانوں کی تباہی و بربادی کر نے کو اپنا فرض منصبی سمجھتے رہے. دو قومی نظریےتو صرف پچیس برس بعد ہی سمندر بُرد ہوگیا تھا تاہم اس نظریے نے مسلمانوں میں فرقہ واریت اور غیر مسلموں سے عقیدے کی بنیاد پر پاکستان میں ہی لکیریں کھینچنا شروع کر دیں. مسٹر جناح کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ جس نظریے کی بنیا
irfan khan Aug 12, 2014 12:41am
Sir outstanding Question ................... Great reading ...
imran Aug 12, 2014 09:41am
اکمل سومرو صاحب ابولکلا م کے نظریہ کےمطابق ہندوستانی مسلمانوں کا 'روشن مستقبل' تو صاف دکھائی دے رہا ہے۔ باقی اپنی نااہلیوں کا الزام سامراجی قوتوں پر کب تک لگاتے رہوگے۔ اب بڑے ہو جاو اور دماغ استعمال کرنا شروع کر دو۔
اکمل سومرو Aug 12, 2014 11:02am
@imran:جناب ابوالکلام آزاد نے ہندستان کے مسلمانوں کے روشن مستقبل کو اس بات سے جوڑا تھا کہ اگر انکی طاقت کو تقسیم نہ کیا جائے. اور سامراج نے دوسر ی جنگ عظیم کے بعد مسلمانوں کی قوت کو تقسیم کرنے کے لئے اس خطے جو تقسیم کیا.. جناب نااہل حکمرانوں کو ہم پر مسلط کیا جاتا ہے اور انہیں آشیرباد امریکہ بہادر سے ملتی ہے. جب یہ بات سمجھ آجائے گی تو آپکو سب کچھ سمجھ آجائے گاوگرنہ آپ فرد کو ہی مورد الزام ٹہراتے رہو گے.....
ٰمحمد اقبال Aug 12, 2014 12:23pm
@اکمل سومرو: پاکیستان عطیہ خداوندی ھے. رمضان المبارک کی 27 ویں شب میں حاصل کیا گیے اس ملک کو ھم اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے ھیں. اب اس پاکستان کی آپ لوگ قدر نھیں کرتے تو اس میں بانیان پاکستان کی کوئی غلطی نھی ھے. شکریہ کے ساتھ.
اکمل سومرو Aug 12, 2014 01:45pm
@ٰمحمد اقبال: جناب ہم بھی پاکستان کی قدر کرتے ہیں لیکن جو کچھ اول روز سے ہو رہا ہے وہ عام عوام کی وجہ سے نہیں ہورہا اور ہمیں اسکا ادراک کرنے کی ضرورت ہے. اس وقت پاکستان کا نظریہ کیا ہے؟ اور جو کچھ ہورہا ہے وہ عوام کرا رہی ہے؟ اگر آپکا یہ نظریہ کہ ہم قدر نہیں کرتے تو اس پر میں یہی کہوں گاکہ آپ لوٹنے والے کو غلط نہیں کہنا چاہتے بلکہ لٹنے والے کو قصور وار سمجھتے ہیں....
ندیم احمد Aug 13, 2014 04:54am
یہ خط پر میرے بھی دستخط لے لیجیے. انشاءاللہ کبھی تو وہ دن آئے گا جب جناح کا پا کستان بن جائےگا. اب رہی بات ہمارے اک بھائی سمرو صاحب کی رائے یا کمنٹس کی تو آپ کو تو قائداعظم محمد علی جناح کا پورا نام بھی لکھنا گوارا نہیں آپ کی رائے بھی میں نے پوری پڑھی اور میرا نہیں خیال کوئی بھی با شعور محبوطن پاکستانی آپ کی رائے سے اتفاق کرے گا.