محرم کی سبیلیں، ایک دم توڑتی روایت

03 نومبر 2014
کولر اور شربت کو لے آئو ہم نے سجاوٹ مکمل کرلی ہے— تصاویر شازیہ حسن
کولر اور شربت کو لے آئو ہم نے سجاوٹ مکمل کرلی ہے— تصاویر شازیہ حسن

کراچی : شہر کے متمول اور پوش علاقوں میں تو اب یہ سبیلیں دکھائی ہی نہیں دیتیں، البتہ غریب اور متوسط طبقے کی تنگ گلیوں میں آج بھی محرم کی سبیلوں کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔

ایک معمر خاتون جو ہاتھ میں سودا سلف کی ٹوکری اٹھائے ہوئے تھیں، کچھ فاصلے پر سبیل سجانے میں مصروف بچوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بولیں "وہ دیکھیں وہ کھڑے ہیں یہ چھوٹے شیطان، آپ کو معلوم نہیں کہ یہ میرے لیے کتنا بڑا سردرد ہیں، کیونکہ یہ کسی بھی وقت اپنی چھوٹی سی سبیل کے لیے چندہ مانگنے کے لیے میرے دروازہ کھٹکھٹانے لگتے ہیں۔"

یہ بچے جن میں اکثریت لڑکوں کی ہے جبکہ ایک یا دو لڑکیاں قریبی گھروں کی کھڑکیوں یا گھروں سے جھانک رہی تھیں، جبکہ کچھ لڑکیاں سبیل کے کام کا جائزہ لے رہی تھیں اور جہاں انہیں لگا کہ کسی چیز کی ضرورت ہے تو وہ واپس باورچی خانے گئیں تاکہ مزید چیزوں کو وہاں پہنچاسکیں۔

اپنے گھر کے باہر چھوٹی سی سبیل کو لگانے کے بعد اس سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ لینے میں اپنے بارہ سالہ بھائی طالب رضا اور آٹھ سالہ بہن زوبیہ رضا کے ساتھ کھڑے چودہ سالہ ولی رضا نے کہا 'ہم نے ایک کولر میں اورنج فلیور والا جوس بناکر رکھا ہے، ہم پڑوس کے گھروں میں جاکر لوگوں کو چندہ دینے پر مجبور نہیں کرتے، ہم نے یہ سب انتظام اپنے جیب خرچ سے کیا ہے، مگر گزشتہ شب کسی نے یہاں آکر ہمارا بیشتر سجاوٹ کا سامان چوری کرلیا، اسی لیے ہمیں نئے سرے سے اس کو تیار کرنا پڑا ہے۔"

جب ان سے پوچھا گیا کہ آخر کیوں وہ اپنے علاقے کے بچوں کی طرح گھر گھر نہیں گئے تو ولی کا جواب تھا "اب ان چیزوں کے لیے کون پیسے دینا پسند کرتا ہے؟ اس لیے خود پر انحصار کرنا ہی زیادہ بہتر ہے'۔

ولی کے بھائی طالب نے مسکراتے ہوئے اضافہ کیا "ہم لوگوں کو مانگتے ہوئے شرمندگی بھی محسوس ہوتی ہے"۔

اسی طرح ایک اور جگہ اپنی سبیل سجانے میں مصروف گیارہ سالہ بچے نوید عظیم نے کہا کہ وہ اور اس کے دوستوں نے اس چھوٹے سے کھانے پینے کی اشیاء کے اسٹال کے لیے کافی بھاگ دوڑ کی ہے، ایسے افراد جنہوں نے ہمیں چندہ نہیں دیا، انہوں نے دیگر تعاون کا یقین دلایا۔ جیسے قریبی اپارٹمنٹ کی عمارت میں مقیم ایک اچھی آنٹی نے ہمیں کہا کہ وہ ہماری سبیل میں تقسیم کرنے کے لیے دودھ کا شربت دیں گی، جبکہ ایک اور دوست کی والدہ نے ہمیں اپنی چادر دی جسے ہم اپنے اسٹال کے سامنے اسکرین کے طور پر استعمال کررہے ہیں"۔

ہمارے جانور مزید لوگوں کو سبیل کی جانب متوجہ کریں گے۔
ہمارے جانور مزید لوگوں کو سبیل کی جانب متوجہ کریں گے۔

ہسنتے مسکراتے ایک بچے اسامہ رفیع کا کہنا تھا "کچھ افراد نے ہمیں دس روپے، کچھ نے بیس اور چند ایک نے سو روپے تک دیے، تاہم متعدد نے محض سکے ہی دیے جنہیں بھی ہم نے ہم نے جمع کرلیا، ہم نے اپنی یہ چندہ مہم یکم محرم سے شروع کی تھی"۔

ایک اور سبیل پر موجود سمیر وسیم اور محراب اقبال نے بتایا کہ وہ روزانہ مختلف مشروب لوگوں کو پیش کرتے ہیں۔

سمیر نے دودھ کے کارٹن رکھنے کی جگہ تلاش کرنے کی کوشش کے دوران بتایا "گزشتہ روز ہم نے لال شرب تقسیم کیا، آج ہم نے دودھ کا شربت رکھا ہے، جبکہ کل باداموں کا شربت بانٹنے کا ارادہ ہے۔"

محراب نے اپنے کبوتروں کا جوڑا اور تیتر دکھاتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ اگلے روز کچھوے بھی اپنی سبیل پر لے کر آئے گا۔

"ہم نے اپنی سبیل کے اندر اپنے پالتو جانوروں کے لیے بھی بہترین جگہ تیار کی ہے، تاکہ یہاں شربت پینے والے افراد ان کے بھی دوست بن سکیں، یہ تمام سجاوٹ لوگوں کو اپنی جانب کھینچے گی، جبکہ ہمارا شربت اور ہمارے پالتو جانور اس کشش کو مزید بڑھادیں گے"۔

علاوہ ازیں ان بچوں کے درمیان کافی رقابت بھی پائی جاتی ہے جیسا محراب نے سڑک کے پاس کھڑے بچوں کے ایک گروپ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا "جب ہم آج صبح بیدار ہوئے تو ہم نے دیکھا کسی نے ہماری سجاوٹ کو برباد کرکے رکھ دیا تھا مجھے یقین ہے وہ یہی بچے ہیں"۔

تاہم ان بچوں میں سے ایک فتح ملک کا کہنا تھا "کیا وہ پاگل تو نہیں ہوگیا جو ہم پر الزام لگارہا ہے"۔

فتح کے دوست شامیر عقیل نے اپنی سبیل کے ایک کونے میں کچھ ٹوٹی ہوئی چیزیں دکھانے کی کوشش کرتے ہوئے بتایا "دو روز قبل ہماری سبیل کو بھی کسی نے تباہ کردیا تھا مگر ہم نے کسی پر الزام نہیں لگایا کیونکہ ہم جانتے تھے کہ یہ بارش کی وجہ سے ہوا ہے۔‘‘

کچھ بزرگ افراد پیچھے کھڑے مسکرا رہے تھے جن میں سے ایک محمد اقبال نے کہا "سبیل کی روایت اب دم توڑ رہی ہے، ہم اس بات پر خوش ہیں کہ اب بھی ہمارے علاقے کی طرح کچھ چھوٹے علاقوں میں یہ روایت زندہ ہے"۔

ان سے پوچھا گیا کہ آخر یہ روایت کیوں دم توڑ رہی ہے تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا "لوگ اب ان تمام اچھی چیزوں کو فراموش کرچکے ہیں جو انہیں قریب لاتی ہے اور یہ ایسی ہی ایک روایت ہے، یہ بچے ضروری نہیں کہ شیعہ یا سنی ہو، یہ دونوں سے متعلق ہوسکتے ہیں، مگر کچھ افراد اس روایت کو صرف شیعہ فرقے کے لیے مخصوص سمجھتے ہیں جو کہ درست نہیں، یہ تو بس راہ گیروں کو ٹھنڈے مشروبات پیش کرنے کی ایک معصومانہ مشق ہے"۔

ایک اور بزرگ اصغر عباس نے کہا "لوگ اپنی روزمرہ کی زندگی میں اتنے زیادہ مصروف ہوگئے ہیں کہ لگتا ہے کہ ان کے پاس ایسی روایات کے لیے اب وقت نہیں رہا، یہاں سیکیورٹی مسائل بھی ہیں جس نے والدین کو اپنے بچوں کو گھروں سے باہر نکلنے سے روک دیا ہے، تو ایسی سرگرمیاں صرف ان علاقوں میں ہی نظر آتی ہیں جہاں لوگ اپنے پڑوسیوں کا خیال کرتے ہیں اور صرف اپنے نہیں بلکہ آس پاس کے بچوں کو بھی اپنی نگرانی میں رکھتے ہیں"۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں