بے نظیر کی ہلاکت کے بعد پہلی صبح

اپ ڈیٹ 28 دسمبر 2014
۔ — تصویر بشکریہ فہیم صدیقی
۔ — تصویر بشکریہ فہیم صدیقی

بے نظیر کی ہلاکت کے اگلے دن/روز

27 دسمبر، 2007 کو شام کے پانچ بجے تھے جب نیوز چینلز پر یہ خبریں آنا شروع ہو گئیں کہ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسے سے خطاب کے بعد ایک حملہ میں شدید زخمی ہو گئیں۔

مجھے لگا کہ وہ 18 اکتوبر، کراچی میں خود پر ہوئے خود کش حملہ کی طرح اس مرتبہ بھی زندہ بچ جائیں گی۔

تاہم، جلد ہی ان کی موت کی تصدیق ہو گئی۔ میں اس وقت اپنے دفتر میں موجود تھا جب مجھے ساتھی فوٹوگرافرز کی فون کالز آنا شروع ہو گئیں کہ وہ خراب حالات کی وجہ سے نمائش چورنگی سے مزید آگے نہیں آ سکتے اور ان کا دفتر پہنچنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔

کچھ نے بتایا کہ وہ باہرجانے سے خوف زدہ ہیں کیونکہ مشتعل ہجوم ہاتھ لگنے والی ہر چیز کو نذر آتش کر رہا ہے۔

ایسے میں، میں نے خود بھی خطرہ مول سے گریز کیا اور رات دو بجے تک اپنے دفتر میں ہی رہا۔

پھر ہم تین ساتھی ہمت کر کے اپنی اپنی موٹر سائیکلوں پر دفتر سے نکلے۔ جب ہم نمائش اور گرومندر پہنچے تو کئی گاڑیوں، رکشوں اور بسوں کو خاکستر دیکھا۔

بینک اور دکانیں، حتی کہ ریڑھیاں بھی مشتعل ہجوم کے غضب سے نہیں بچ سکی تھیں۔

ہر طرف جنگ کا محول نظر آ رہا تھا۔ اگر حالات کچھ نارمل ہوتے تو میں تصاویر کھینچنا شروع کر دیتا لیکن شہر میں لوٹ مار کی افواہوں نے مجھے قدرتی طور پر اپنا قیمتی کیمرہ بیگ سے نکالنے سے باز رکھا۔

اگلی صبح، 28 دسمبر کو میں صبح 8 بجے دفتر پہنچ گیا۔

دفتر جاتے ہوئے میں نے ہر طرف ویرانی کا راج پایا، حتی کہ سڑکوں پر ایک آوارہ کتا تک موجود نہ تھا۔

بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد شہر ہونے والے واقعات کی تصاویر اتارنے کیلئے میں نے اخلاقی مدد کے طور پر ایک ساتھی فوٹو گرافر کو ہمراہ لے لیا۔

گزشتہ رات اندھیرے کی وجہ سے ہمیں تباہی کی شدت کا اندازہ نہیں ہو سکا تھا لیکن صبح کی روشنی میں سب عیاں تھا۔

میں نے ہر سڑک، ہر گلی میں قطار در قطار گاڑیاں، بینک، دفاتر اور دکانوں کو مشتعل ہجوم کے ہاتھوں نذر آتش پایا۔

اوپر موجود تصویر نیپا چورنگی کی ہے جہاں سڑک کی دونوں جانب گاڑیوں کی باقیات موجود تھیں۔ لیکن میرے لیے حیران کن اور افسوس ناک منظر وہ تھا جب نیپا پل کے اوپر سے حد نگاہ ایسی تباہ حال گاڑیاں میری سامنے تھیں۔

کچھ گاڑیاں آدھی فٹ پاتھ اور آدھی سڑکوں پر تھیں جیسے کہ مالکان اور ڈرائیوروں نے انہیں بچانے کیلئے آخری کوششیں کر ڈالی ہوں لیکن بد قستمی سے مشتعل اور پرتشدد ہجوم سے کوئی گاڑی نہیں بچ سکی۔

میرا جہاں سے بھی گزرنا ہوا، خواہ وہ گلشن اقبال، شاہراہ فیصل ہو یا صدر، تباہی اور بربادی کے مناظر تقریباً ایک جیسے تھے۔

مجھے یہاں وہ منظر نہیں بھولتا جب دو بچے ایک جلی ہوئی گاڑی سے کچھ نکالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ کچھ دروازے اکھاڑ رہے تھے تو کچھ کی نظریں ٹائروں پر تھیں۔

ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اس صورتحال سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور انہیں اندازہ ہی نہیں کہ کراچی اور کئی دوسرے بڑے شہروں کو کتنا بڑا معاشی دھچکا پہنچا۔

رائٹر فہیم صدیقی وائٹ سٹار کے ایک فوٹو گرافر ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں